برطانیہ کی مسلم آبادی انتخابات جیتنے والی جماعت لیبر پارٹی سے ناراض کیوں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, علیم مقبول
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 44 منٹ قبل

گذشتہ دو برطانوی انتخابات کی شہ سرخیاں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں لیکن اگر برطانیہ میں مقیم دو مذہبی برادریوں کے ووٹ ڈالنے کے رحجانات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں حیرت انگیز تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ان تمام رحجانات کا مرکز برطانوی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی لیبر پارٹی ہی دکھائی دیتی ہے اور اس میں نہ صرف مسلمان ووٹرز بلکہ یہودی ووٹرز بھی شامل ہیں۔مگر اس سب کے درمیان ایک ایسی جماعت حکومت میں آنے میں کامیاب ہوئی ہے جس نے ایک مذہبی حلقے کے لوگوں کا اعتماد جیتنے میں خاصی پیشرفت کی ہے۔ لیکن اسے ایک دوسرے مذہبی حلقے سے تعلق رکھنے والوں کی حمایت حاصل کرنے میں بہت محنت کرنا پڑی ہے۔سنہ 2019 اور 2024 کے درمیان برطانوی مسلمانوں کی جانب سے لیبر پارٹی کو ڈالے گئے ووٹوں میں نمایاں کمی واضح طور پر کئی حلقوں میں دیکھی گئی ہے۔

سب سے زیادہ ڈرامائی صورتحال لیسٹر ساؤتھ کے حلقے میں سامنے آئی جہاں مسلمان ووٹرز کی تقریباً 30 فیصد آبادی تھی اور وہاں سے لیبر پارٹی کے امیدوار جنرل جون ارشورتھ کو ایک آزاد امیدوار شوکت آدم نے ہرا دیا۔اسی طرح ڈیوزبری اور بٹلی کی نشستوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ ان حلقوں کی نشستیں لیبر پارٹی کی محفوظ سیٹیں سمجھی جاتی ہیں اور ان حلقوں میں بڑی تعداد مسلم ووٹرز کی ہے۔بریڈ فورڈ ویسٹ اور مشرقی لندن میں بیتھنال گرین اور سٹیپنی جیسے حلقوں میں لیبر ممبران پارلیمنٹ اپنی اکثریت میں چونکا دینے والی ووٹوں کی کمی کے ساتھ اپنی نشستیں بہرحال برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔وال سیل سے تعلق رکھنے والے مش رحمان صرف ایک مسلمان ووٹر ہی نہیں بلکہ وہ لیبر پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں جس کے 40 کے قریب ارکان ہیں۔وہ غزہ میں دسیوں ہزار افراد کی ہلاکت اور وہاں بننے والے انسانی المیے پر پارٹی کے ردعمل سے ناراض ہیں۔ان کا کہنا ہے ’میری کمیونٹی میں یہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب مجھے لیبر پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی پر شرم آتی ہے۔‘رحمان کا مزید کہنا ہے کہ ’میرے اپنے خاندان کے افراد کو یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ جا کر لوگوں سے ایک ایسی سیاسی جماعت کے لیے ووٹ مانگیں جس نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی مکمل حمایت کی تھی۔‘وہ لیبر پارٹی کے لیے مسلم ووٹرز کی کمی کا ذمہ دار جماعت کے قائدین کو ٹھہراتے ہیں۔کیئر سٹامر کو کونسلرز سمیت ان کی جماعت کے بیشتر لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اکتوبرمیں برطانوی ٹی وی ’ایل بی سی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیئر سٹامر نے تائید کی تھی کہ اسرائیل کو غزہ میں بجلی اور پانی بند کرنے کا ’حق حاصل ہے۔‘ ان کے ترجمان نے بعد میں وضاحت دی کہ لیبر پارٹی کے لیڈر کے کہنے کا مقصد دراصل یہ تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔اس کے بعد پھر جب نومبر میں لیبر پارٹی کے ممبران اسمبلی کو پارٹی قیادت کی طرف سے کہا گیا کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبہ پر مبنی تحریک پر ووٹنگ سے باز رہیں، تو کچھ لیبر کونسلرز نے استعفیٰ دے دیا تھا اور یوں بہت سے مسلمانوں کا اپنے لیبر ارکان اسمبلی سے بھروسہ اٹھ گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمذہبی برادریاں یقینا یکسانیت سے بہت دور ہیں اور ایسے بے شمار عوامل ہیں جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے ووٹ کا استعمال کیسے کرے گا لیکن عقیدہ ووٹنگ کے رجحانات میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں تقریباً 6.5 فیصد آبادی مسلمان ہیں، سکاٹ لینڈ میں تقریباً دو فیصد اور شمالی آئرلینڈ میں ایک فیصد آبادی مسلمان ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ 2019 میں 80 فیصد سے زیادہ مسلمانوں نے لیبر پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ 2024 کے انتخابات سے عین قبل ایک جائزے کے مطابق قومی سطح پر مسلمانوں میں لیبر پارٹی کی مقبولیت میں 20 فیصد تک کمی آئی ہے، اور کچھ حلقوں میں لیبر پارٹی کے لیے مسلم ووٹ واضح طور پر مزید کم ہوئے ہیں۔یہودی برادری کا ووٹنگ ڈیٹا ماضی کے مقابلے میں مختلف صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے۔ سنہ 2019 میں جس برطانوی یہودی افراد (آبادی کا 0.5 فیصد) نے جیریمی کوربن کی قیادت والی لیبر پارٹی کو ووٹ دیا تھا تو اس بار خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ عدد دس فیصد سے بھی کم ہو گا لیکن تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یہ تناسب 40 فیصد سے بھی بڑھ گیا ہے۔ایڈم لینگلے بین جو حال ہی میں جویش لیبر موومنٹ کے نیشنل سیکرٹری تھے کا کہنا ہےکہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ یہودی ووٹرز میں لیبر پارٹی کی مقبولیت بہت زیادہ بڑھی ہے۔ لینگلے بین ایک سابق لیبر کونسلر ہیں اور اب حال میں پروگریسو برطانیہ کے ڈائریکٹر ہیں۔‘وہ لندن میں فنچلی اور گولڈرز گرین کی نشست اور گریٹر مانچسٹر میں ہینڈن اور بیوری ساؤتھ میں لیبر پارٹی کے امیدوار کی جیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وہ تمام حلقے ہیں جہاں بڑی تعداد میں یہودی آبادی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنایڈم لینگلے بن (بائیں بازو) نے جیریمی کوربن کی قیادت کے دوران لیبر پارٹی چھوڑ دی تھی
ان کا کہنا ہے کہ ’پارٹی میں واپس آنے والے یہودی ووٹروں نے بلاشبہ لیبر پارٹی کو نشستیں جیتنے میں مدد دی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو ان حلقوں میں جیتنے کے لیے یہودی ووٹروں کی اکثریت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن آپ ان میں سے صرف سات فیصد سے ووٹ لے کر جیتنے کی امید نہیں رکھ سکتے۔‘لینگلے بین یہودی لیبر موومنٹ کے سینئر رکن بھی رہ چکے لیکن جیریمی کوربن کے دور میں اپنی رکنیت چھوڑ دینے والے پارٹی کے بہت سے یہودی ممبران میں سے ایک تھے۔جب 2019 میں انھوں نے پارٹی چھوڑی تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ پارٹی کی قیادت ’یہود مخالفوں‘ کے ہاتھوں میں ہے تاہم اس الزام کی ہمیشہ اس وقت کی پارٹی قیادت نے سختی سے تردید کی۔’یہ ایک ایسی صورت حال تھی جو سب کو پریشان کر رہی تھی میں ایک یہودی علاقے میں لیبر پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلا رہا تھا اور لوگوں کو آنکھوں میں آنسو لیے یہ بھی کہتے دیکھ رہا تھا کہ جیریمی کوربن کو ووٹ دینے کا کوئی جواز نہیں۔ میں اس بڑے تناؤ کو دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘ان کا خیال ہے کہ کوربن کی قیادت میں پارٹی شدت پسند عناصر سے نمٹنے میں ناکام رہی اور یہ یہود مخالف گروہوں کی سرگرمیوں سے صرف نظر بھی کرتے رہی۔لیبر پارٹی میں موجود ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیئر سٹامر نے پہلے دن سے ہی یہودی کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ’جو غلط ہوا اسے ٹھیک کرنا ایک ذاتی مشن تھا۔‘لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ کیئر سٹامر نے جیریمی کوربن کی قیادت میں ان کی حمایت کی، ملک بھر میں عبادت گاہوں اور کمیونٹی سینٹرز میں یہودی ووٹر لیبر پارٹی کے امیدواروں سے سخت سوالات کر رہے تھے کہ وہ اب موجودہ لیڈر پر کیوں بھروسہ کریں؟لینگلے بین کہتے ہیں ’یہودیوں کا ووٹ اب منقسم ہو چکا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ووٹ کے چناؤ میں کوئی بھی پارٹی غالب نہیں تھی۔ یہ ایک صحت مند رجحان ہے اور اب بھی لیبر پارٹی کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔‘اب جبکہ بداعتمادی اب بھی واضح طور پر باقی ہے، کچھ برطانوی یہودیوں میں لیبر پارٹی سے وابستہ تصور میں تبدیلی کی ذمہ داری کسں امر پر عائد ہوتی ہے؟یہی امر کہ سات اکتوبر کے حملوں کے فورا بعد اسرائیل کے ردعمل پر موجودہ قیادت کی تنقید، پچھلی قیادت کے مقابلے میں نسبتا کم دکھائی دیتی ہے۔لیکن اس سے بھی کہیں پہلے لینگلے بین نے پارٹی کی جانب سے عقیدے اور ایمان جیسے ’تحفظ شدہ نظریات‘ کے بارے میں شکایات سے نمٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی کا حوالہ دیا، اور ایک اور خاص چیز کا حوالہ بھی دیا جس نے انھیں پارٹی میں دوبارہ شامل ہونے کی جانب راغب کیا۔’جیریمی کوربن کا لیبر پارٹی سے معطل کیا جانا ایک بنیادی لمحہ تھا کیونکہ ان کے سامنے سے ’چابک والا ہاتھ‘ ہٹا دیا گیا تھا۔لہذا کیئر سٹامر کا عزم اور پارٹی کے انھی حصوں کی زمہ داری لینے کے لیے رغبت ابھرتی دکھائی دیتی ہے جو پہلے وہ لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesجیریمی کوربن کی معطلی کو رحمان نے بھی واضح طور پر کیئر سٹامر کی زیر قیادت پارٹی کے مختلف دھڑوں کے درمیان پہلا بڑا دنگل قرار دیا ہے۔رحمان کہتے ہیں کہ وہ جیریمی کوربن سے اس وقت متاثر ہوئے تھے جب 2003 میں عراق پر حملے روکنے کے لیے مظاہرے کیے گئے۔ ’یہی وہ لمحہ تھا جب ان کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں کہ پارٹی رہنما جن اقدار پر یقین رکھتے تھے ان ہی کی حفاظت نہیں کر پا رہے۔‘رحمان پارٹی کے مسلم مخالف رجحان کو غزہ میں ہونے والے واقعات پر اس کے ردعمل تک ہی محدود نہیں سمجھتے۔ وہ اس سے انکار نہیں کرتے کہ وہاں یہود دشمنی کے سنگین واقعات ہوئے ہیں لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نسل پرستی کے تمام الزامات میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔’لیبر پارٹی میں نسل پرستی کی واضح درجہ بندی ہے۔ اسلامو فوبیا سمیت نسل پرستی کی بعض مثالوں کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جتنا انھیں لینا چاہیے۔‘رحمان نے ای ایچ آر سی (برابری اور انسانی حقوق کمیشن) کے سابق سربراہ ٹریور فلپس کے کیس کا حوالہ دیا جنھیں اسلامو فوبیا کے محض الزام کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا۔ٹریور فلپس نے کہا تھا کہ برطانوی مسلمان قوم کے اندر ایک قوم ہیں حالانکہ بعد میں انھوں نے وضاحت دی ان کا مطلب تنقید کے طور پر نہ لیا جائے۔ٹریور فلپس کو 2021 میں پینل انکوائری کے بغیر دوبارہ پارٹی میں شامل کیا گیا تھا۔بہت سے دوسرے مسلمانوں کی طرح رحمان سٹامر کے اپنے تبصروں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔انھوں نے سٹامر کی انتخابی مہم کے دوران بیان کی مثال دی جس میں انھوں نے تارکین وطن کو ان کے آبائی ملک واپس بھیجے جانے کی بات کی۔رحمان نے کہا کہ ’کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لیبر پارٹی کسی دوسری نسل کے لوگوں کے بارے میں یہ کہتی؟ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اسرائیل یا یوکرین یا ہانگ کانگ ڈی پورٹ کرنے جا رہے ہیں؟ ایسا نہیں ہوگا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔‘لیبر کے ردعمل سے ان کی ناراضی اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں وسیع تر خدشات کے ساتھ پارٹی کے خلاف سنگین الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لیبر پارٹی فی الحال ادارہ جاتی طور پر اسلامو فوبک ہے۔‘رحمان حکومت میں رہتے ہوئے پارٹی میں منافقت کے خلاف اپنی آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ وہ جان جائیں گے کہ اس الیکشن کا سبق یہ ہے کہ کوئی بھی ووٹر معمولی نہیں۔رحمان نے عراق جنگ میں ٹونی بلیئر کے کردار پر احتجاج کرتے ہوئے ایک بار پہلے بھی لیبر پارٹی کی رکنیت ترک کر دی تھی۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے لیبر پارٹی کانفرنس کے دوران ہوئے تھے اور لینگلے بین کا کہنا ہے کہ جب وہ اور دیگر یہودی مندوبین ایک مشکل اور پریشان کن دور سے گزر رہے تھے تو معمول کے سیاسی کام کاج کو جاری دیکھنا عجیب تھا۔لینگلے بین کا کہنا ہے کہ وہ سٹامر کے بحران سے نمٹنے کے طریقے سے خوش ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران رحمان کو مسلم ووٹروں کے ساتھ سب سے مشکل گفتگو کرنا پڑی جن میں غزہ پر اسرائیل کے اقدامات کے بعد غصہ اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔رحمان کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ہماری برادریوں اور لیبر پارٹی کے درمیان تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ہمیشہ ہماری برادریوں کی جانب سے وفاداری کا یکطرفہ معاملہ رہا ہے۔‘ان کے اپنے خاندان میں لیبر پارٹی کی جڑیں ان کے دادا سے جڑی ہوئی ہیں جو 1950 اور 60 کی دہائیوں میں فیکٹری میں ملازم تھے۔یقینا غزہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی تمام مسلمانوں نے اسے ووٹ دینے کے لیے اہم معاملوں میں سے ایک قرار دیا لیکن اس کا اثر ضرور پڑا۔اسی طرح اسرائیل کی پالیسی تمام یہودی رائے دہندگان کے لیے ضروری نہیں ہے اور یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے بھی جن کے لیے یہ پالیسی ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اسرائیلی حکومت کے سخت ناقد ہیں اور سٹامر کی قیادت میں لیبر پارٹی کے ردعمل سے اختلاف رکھتے ہیں۔اگرچہ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران یہودیوں کے ووٹ دو بڑی جماعتوں کے درمیان گھومتے رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اگر ایک طرف یہود دشمنی اور دوسری طرف باقی تمام تنازعات کو رکھا جائے تو اسرائیل کے بارے میں پارٹی کا نقطہ نظر ووٹنگ کے ارادے پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس کے علاوہ رحمن اور لینگلے بین دونوں کے خیال میں مختلف ادوار میں پارٹی پر لگائے جانے والے امتیازی سلوک کے الزامات کا تعلق صرف مشرق وسطیٰ سے متعلق پارٹی پالیسی سے نہیں ہے۔یہاں تک کہ اگر ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہو جائے کہ امتیازی سلوک کے الزامات سے مساوی طور پر نمٹا جاتا ہے تب بھی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے بارے میں تناؤ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ایسی پوزیشن تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں جو ان مذہبی برادریوں میں سے کسی ایک کے ارکان کو الگ تھلگ نہ کرے۔لیبر پارٹی نے یہودی رائے دہندگان کی حمایت دوبارہ حاصل کرنے میں بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ لیکن اس نے برطانیہ میں وفادار مسلمان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو سیاسی طور پر الگ تھلگ محسوس کروایا ہے۔اور حالیہ برسوں میں پارٹی کی ثقافت اور پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے بعد ہر کمیونٹی کے لوگوں کو پارٹی کی حقیقی نوعیت کے بارے میں الجھا دیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}