آسٹریلیا کی سٹوڈنٹ ویزا پالیسی میں وہ تبدیلیاں جن سے پاکستانی طلبہ متاثر ہو رہے ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, یسریٰ جبین
  • عہدہ, صحافی
  • 2 گھنٹے قبل

ابھی گذشتہ سال کی ہی بات ہے کہ نوجوان پاکستانی فلم ساز کاشف بے حد خوش تھے کہ ان کا آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی کے ’سپورٹس پروڈکشن‘ کورس میں داخلہ ہوگیا ہے۔ویسے تو وہ لاہور کی مشہور یونیورسٹی نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں مگر انھیں بچپن سے کرکٹ اور والی بال کھیلنے کا شوق رہا ہے اور انھیں لگتا تھا کہ سپورٹس پروڈکشن ایک ایسا ڈپلوما ہے جس کا ’بہت زیادہ سکوپ ہے۔‘وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہے تھے کیونکہ ان کی یونیورسٹی آسٹریلیا کے ایسے علاقے میں تھی جہاں وہ پڑھائی اور ملازمت کے بعد مستقبل میں مستقل رہائش (پی آر) کے لیے باآسانی درخواست جمع کروا سکیں گے۔ آسٹریلیا میں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں تارکین وطن کو مستقل رہائش نہیں ملتی، لہذا انھیں مخصوص علاقوں (ڈیزگنیٹڈ ایریاز) کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔

آسٹریلیا میں کاشف کا سمسٹر شروع ہونے میں صرف ایک ہفتہ باقی تھا جب انھیں یونیورسٹی کی جانب سے کنفرمیشن آف انرولمنٹ (سی او ای) نامی خط موصول ہوا۔ اس دستاویز کی بنیاد پر ہی ایک طالبعلم سٹوڈنٹ ویزا حاصل کر سکتا ہے۔ویزا کی درخواست جمع کروانے کے لیے یہ مدّت ناکافی تھی اور یوں کاشف نے یونیورسٹی کو نو ہزار آسٹریلین ڈالر فیس ادا کر کے اپنا داخلہ اگلے سال پر منتقل کروا لیا۔مگر اگلے سال یعنی 2024 میں آسٹریلیا میں جاری امیگریشن اصلاحات کے تحت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک دن یونیورسٹی کی طرف سے بذریعہ ای میل انھیں بتایا گیا کہ ڈپلومہ پروگرامز میں غیر ملکی طلبہ کے داخلے غیر معینہ مدت کے لیے روک دیے گئے ہیں، لہذا انھیں فیس بھی واپس کی جا رہی ہے۔پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے کاشف کو محسوس ہوا کہ اس ای میل نے ان کے ’آسٹریلیا جانے کے خواب کو دفن کر دیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہKASHIF RAZA

،تصویر کا کیپشنکاشف آسٹریلیا کی سٹوڈنٹ ویزا پالیسی میں تبدیلیوں کی وجہ سے داخلے کے باوجود یونیورسٹی نہیں جا پائے

آسٹریلیا میں سٹوڈنٹ ویزا میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟

کاشف وہ واحد پاکستانی طالبعلم نہیں جو ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔کاشف کو مصول ہونے والی یونیورسٹی کی ای میل میں کہا گیا ہے کہ ’آسٹریلین حکومت کی جانب سے امیگریشن اصلاحات کے پیش نظر ہم نے بین الاقوامی انرولمنٹ کا طریقہ کار فوری طور پر تبدیل کر دیا ہے۔‘اسی کے باعث نہ صرف کاشف کا ڈپلومہ میں داخلہ ختم کیا گیا بلکہ ان کی داخلہ فیس بھی واپس کی گئی۔اس کے علاوہ آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے سٹوڈنٹ ویزا کی فیس 710 آسٹریلین ڈالرز سے بڑھا کر 1600 ڈالرز کر دی گئی ہے۔جبکہ ایسے سابق طلبہ جن کے پاس گریجوئیشن کے بعد اور ملازمت کے لیے ’ٹمپرری گریجویٹ ویزا‘ (ٹی جی وی یا ٹی آر) ہیں وہ اب دوبارہ آسٹریلیا میں رہتے ہوئے سٹوڈنٹ ویزا کے لیے اہل نہیں ہوں گے۔ اس ویزا کے ذریعے ایک شخص آسٹریلیا میں 18 ماہ سے لے کر 5 سال تک ملازمت کر سکتا ہے۔امیگریشن اصلاحات کے تحت ایسے افراد کو ٹی جی وی کی مدت ختم ہونے کے بعد سٹوڈنٹ ویزا لگوانے کے لیے دوبارہ پاکستان آنا ہوگا۔پاکستان سے ہر سال کتنے طالبعلم آسٹریلیا جاتے ہیں، اس بارے میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم آسٹریلیا میں رجسٹرڈ ویزا کنسلٹنسی کمپنی ’اوزی کیریئر گروز‘ کے ڈیٹا کے مطابق جون 2022 تک آسٹریلیا میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد افراد کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار سے زیادہ تھی جو کہ جون 2012 تک قریب 40 ہزار تھی۔،تصویر کا ذریعہMustafa Kazmi

،تصویر کا کیپشنمصطفیٰ کاظمی (درمیان میں) کے مطابق ان تبدیلیوں سے پاکستانی طلبہ متاثر ہوئے ہیں
اوزی کیریئر گروز سے وابستہ ویزا کنسلٹنٹ مصطفیٰ کاظمی بتاتے ہیں کہ 2019 میں 15 ہزار جبکہ 2024 میں 21 ہزار اور 2023 میں 23 ہزار سے زیادہ پاکستانی سٹوڈنٹ ویزا پر آسٹریلیا آئے تھے۔ یعنی پاکستانی نژاد افراد آسٹریلیا میں تارکین وطن آبادی کی فہرست میں 17ویں نمبر پر ہیں۔مصطفیٰ نے بتایا کہ ’ہم ہر سال کم از کم 200 سٹوڈنٹ ویزا کی درخواستیں جمع کرواتے ہیں۔ اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ تبدیلیوں کے باعث کتنی کمی آئے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ کمی آئے گی ضرور۔‘سٹوڈنٹ ویزا میں درخواستوں کی کمی کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سٹوڈنٹ ویزا کی ایپلیکیشن فیس بہت زیادہ ہو گئی ہے اور یہ رقم ناقابلِ واپسی ہے یعنی ویزا ملنے سے انکار ہوا تو آپ کے تمام پیسے ڈوب گئے۔‘’دوسرا آپ ٹی آر ملنے کے بعد آسٹریلیا میں ’مستقل‘ رہنے کے لیے دوبارہ سٹوڈنٹ ویزا نہیں لگوا سکتے۔ ویزا ملنے کا تناسب بھی کم ہو گیا ہے اور ویزا ملنے کے عمل میں کافی تاخیر کا سامنا ہوتا ہے۔‘

آسٹریلیا نے کن وجوہات کی بنا پر امیگریشن قوانین میں تبدیلی کی

آسٹریلیا میں ویزا کنسلٹنسی چلانے والے مصطفیٰ کاظمی کا کہنا ہے کہ آسٹریلین حکومت ایسا اس لیے کر رہی ہے تاکہ برسوں سے آسٹریلیا میں مقیم لوگ سٹوڈنٹ ویزا سے مسقل رہائش کی طرف آئیں۔وہ کہتے ہیں کہ حکومت جانتی ہے کہ ’جو لوگ سٹوڈنٹ ویزا پر آ رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کی کوشش یہی ہے کہ وہ آسٹریلیا میں مستقل رہائش اختیار کر لیں۔‘’تاہم لوگ بڑی یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹ ویزا لگوا کر جب آسٹریلیا پہنچتے ہیں تو وہ اپنا داخلہ کسی اور سستے کالج میں کروا لیتے ہیں جہاں کی فیس یونیورسٹی کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس سے آسٹریلیا کے تعلیمی سیکٹر کو کافی نقصان پہنچ رہا تھا کیونکہ بین الاقوامی طلبہ کی فیس سے ان کی اچھی خاصی کمائی ہو جاتی تھی۔‘وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’لوگ ڈگری ختم ہونے کے بعد ٹی جی وی لگوا لیتے ہیں۔ یہ زندگی میں ایک بار ملتا ہے۔ اس کے ختم ہونے کے بعد کچھ لوگ پی آر لگوانے کی کوشش کرتے لیکن بہت سے ایسے لوگ تھے جو دوبارہ سٹوڈنٹ ویزا لگوا لیتے تھے۔ یہ عمل نسبتاً آسان اور سستا ہوتا تھا۔‘ان کے مطابق آسٹریلین حکومت نے اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے یہ تبدیلیاں کی ہیں۔،تصویر کا ذریعہOZ CAREER GURUS

،تصویر کا کیپشنسنہ 2024 میں سٹوڈنٹ ویزا پر آسٹریلیا کا رُخ کرنے والے پاکستانی سمیت دیگر ممالک کے طلبہ کے اعداد و شمار
مصطفیٰ کے مطابق اس کی متعدد وجوہات ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’آسٹریلیا میں پوائنٹ سِسٹم ہے۔ جب آپ کے پاس ایک مخصوص نمبر جمع ہو جاتا ہے تو آپ پی آر کے لیے اہل ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے آپ کو محنت کرنی ہوتی ہے۔(یعنی) کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔‘’انھوں نے بتایا کہ ’اکثر لوگ آسٹریلیا کے ایسے شہروں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جہاں اخراجاتِ زندگی کم ہوتے ہیں اور کمائی زیادہ۔ تاہم پی آر کے لیے آپ کو کچھ مخصوص علاقوں میں منتقل ہونا پڑتا ہے جہاں کمائی کم اور اخراجاتِ زندگی زیادہ ہوتے ہیں۔’بچت نہیں ہو پاتی اور آپ گھر والوں کو بھی پیسے نہیں بھیج پاتے۔ آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے گھر والوں کے معیارِ زندگی پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘’اس کے علاوہ آپ کو اپنے ’کمفرٹ زون‘ سے باہر آنا پڑتا ہے۔ اپنے تمام دوست احباب، پڑوسی وغیرہ سے دور جانا پڑتا ہے، انگریزی زبان کے کچھ امتحانات بھی لینے پڑتے ہیں۔‘مصطفیٰ کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو پی آر کے لیے پوائنٹس مکمل کرنے ہوتے ہیں جس کے لیے کچھ عرصے تک مالی تنگی اور دیگر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’اس سب کے باوجود بھی آپ کو سو فیصد تسلّی نہیں ہوتی کہ آپ کو پی آر مل جائے۔ اس لیے لوگوں کو ویزے پر (دوبارہ) ویزا لگوانا بہتر آپشن لگتا ہے۔‘’لیکن اب ٹی آر کے بعد دوبارہ سٹوڈنٹ ویزا لگوانا ممکن نہیں ہوگا۔‘،تصویر کا ذریعہOZ CAREER GURUS
،تصویر کا کیپشنمختلف ممالک کے طلبہ کی جانب سے آسٹریلیا میں سٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنے کی شرح

نئی پابندیوں سے متاثر ہونے والے غیر ملکی نوجوانوں کے پاس کیا راستہ ہے؟

مصطفیٰ ویزا کنسلٹنسی بزنس میں 2013 سے منسلک ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایسا کافی حد تک ممکن ہے کہ آسٹریلیا میں ٹی آر پر رہنے والوں کو وطن واپسی اختیار کرنی پڑے۔’اگر وہاں رہتے ہوئے وہ دوبارہ کسی بھی ویزے کے لیے درخواست دیں اور انکار ہو جائے تو واپس آنے کے بجائے لوگ ایڈمنسٹریٹو اپیلز ٹربیونلز میں آسٹریلین حکومت کے اس فیصلے پر اپیل کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔‘’درخواست پر فیصلہ آنے کے لیے پانچ سال تک لگ سکتے ہیں۔ تب تک کیا پتہ کیا قوانین ہوں؟‘مگر مصطفیٰ تجویز دیتے ہیں کہ سٹوڈنٹ ویزا والے ’مستقل‘ رہائش چاہیں تو پی آر کے مختلف ویزوں کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں جن میں 190، 189، 491 شامل ہیں۔سنہ 2010 سے آسٹریلیا میں مقیم مصطفیٰ کے پاس خود بھی پی آر ہے۔ وہ آسٹریلیا جانے والے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستانی طلبا کو چاہیے کہ جس کورس میں ان کا داخلہ ہو، وہ اسے اس کی مخصوص مدّت میں مکمل کریں اور پراپر چینل کے ذریعے پی آر حاصل کریں۔‘’بار بار تعلیمی کورس بدلنا اور ویزے کی مدّت میں اضافہ کرنے کے لیے بار بار نیا سٹوڈنٹ ویزا لگوانا، اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ جو طالبہ پاکستان سے آسٹریلیا پڑھنے جانا چاہتے ہیں، ان کے لیے مشکلات بڑھتی ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اسی ’ویزا ہاپنگ‘ یعنی ایک ویزے سے دوسرے ویزا پر چھلانگ لگانے کے عمل کی وجہ سے پاکستانی طلبہ کو ویزا ملنے کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے سب سے کم ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}