آسٹریلیا کی وہ سینیٹر جنھوں نے اپنی ہی حکومت اور پارٹی کے موقف کو ٹھکرا کر فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت کی
29 سالہ نوجوان سینیٹر نے جمعرات کو کہا کہ ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر میں سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس فیصلے پر ‘شدید دل گرفتہ’ ہیں۔آسٹریلین وزیر اعظم انتھونی البانی نے کہا کہ پیمان نے ان کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے اور ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا یا دھمکایا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
دھمکیوں کا دعوی
بہر حال پارٹی سے استعفی دینے کے بعد فاطمہ پیمان اب ایک آزاد سینیٹر کے طور پر کراس بینچ میں شامل ہوں گی۔بہت سے لوگ انھیں افغانستان واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ وہاں آرام سے اسلامی قانون کے تحت زندگی گزار سکتی ہیں۔انھوں نے لیبر پارٹی سے مستعفی ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اپنے ساتھیوں کے برعکس میں جانتی ہوں کہ ناانصافی کا شکار ہونے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ’میرا خاندان جنگ زدہ ملک سے بھاگ کر یہاں پناہ گزین کے طور پر نہیں آیا تھا لیکن جب میں بے گناہ لوگوں پر مظالم دیکھتی ہوں تو خاموش نہیں رہ سکتی۔‘غزہ کا تنازع آسٹریلیا میں ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے جسے تمام فریقوں نے احتیاط سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔فاطمہ پیمان نے کہا کہ گذشتہ منگل کو جب انھوں نے فلسطین کے متعلق اپنی پارٹی کے موقف سے ہٹ کر گرینز پارٹی کے ساتھ ووٹ ڈالے تھے تو انھیں کچھ ساتھیوں کی جانب سے ‘بہت زیادہ حمایت’ ملی جبکہ دوسروں کی جانب سے ‘پارٹی کے موقف پر چلنے کے لیے دباؤ’ رہا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کے نمائندوں کی طرف سے انھیں ‘موت کی دھمکیاں اور ای میلز’ بھی موصول ہوئی ہیں۔،تصویر کا ذریعہFatimaPayman/FB
فاطمہ پیمان کون ہیں؟
فاطمہ پیمان کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے۔ 29 سالہ مسلم قانون ساز کا خاندان سنہ 1996 میں افغانستان کے طالبان کے ہاتھوں میں آنے کے بعد ملک سے نقل مکانی کی تھی اور آسٹریلیا پہنچا تھا۔وہ آسٹریلیا کی پہلی اور واحد حجاب پہننے والی وفاقی سیاست دان ہیں جبکہ تیسری سب سے کم عمر سینیٹر ہیں۔فاطہ پیمان سنہ 1995 میں کابل میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہیں۔آسٹریلیا آنے سے قبل وہ تین سال تک پاکستان میں رہیں جبکہ ان کی فیملی سنہ 2003 میں آسٹریلیا کے شہر پرتھ منتقل ہوئی۔انھوں نے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے بی اے اور اسی یونیورسٹی سے فارمیسی میں گریجویٹ ڈپلومہ کرنے سے قبل آسٹریلین اسلامی کالج سے تعلیم حاصل کی۔ڈبلیو اے ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے فاطہ پیمان نے بتایا کہ حکومت کی منتقلی کے بعد بھاگ کر پاکستان پہنچے تھے۔ اس کے بعد ان کے والد سنہ 1999 میں ایک پناہ گزین کے طور پر آسٹریلیا میں داخل ہوئے۔ ان کا خاندان چار سال بعد وہاں پہنچا جب پیمان آٹھ سال کی تھیں۔وہ کہتی ہیں: ’ہماری افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم نشانے پر تھے۔’طالبان نے افغانستان کے رکن پارلیمان کو ملک کے غدار کے طور پر دیکھا اور ان کے دادا رکن پارلیمان تھے۔
سیاست میں دادا کی وجہ سے دلچسپی
پیمان کا کہنا ہے کہ ان کے دادا ہی نے ان میں اور ان کے والد دونوں میں سیاست کے تئیں دلچسپی پیدا کی۔مز پیمان کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ان کے والد کو اپنے والد کے افغان پارلیمنٹ کا حصہ ہونے پر بہت فخر تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ اس بارے میں بات کرتے کہ وہ مجھے افغانستان واپس کیسے لے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ میں منتخب ہو جاؤں تاکہ ہم وہاں کے مسائل کو حل کر سکیں۔’بہر حال پیمان کے والد 47 سال کی عمر میں سنہ 2018 میں لیوکیمیا کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ پیمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن ان کی بیٹی افغانستان کے بجائے آسٹریلوی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو گی۔انھوں نے فارمیسی کی تعلیم حاصل کی لیکن یونین کی تحریک میں ان کی زیادہ دلچسپی تھی۔پیمان پبلیکیشنز کی قائمہ کمیٹی کے چیئر اور پبلیکیشنز کی مشترکہ کمیٹی کے ڈپٹی چیئر رہیں۔وہ 2022 میں مغربی آسٹریلیا سے سینیٹ کے لیے منتخب ہوئیں اور سنہ 2028 تک وہ پارلیمنٹ میں خدمات انجام دیں گی۔فاطمہ پیمان نے جون سنہ 2019 سے جون 2022 تک ملٹی کلچرل لیبر برانچ کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔وہ 2020 میں ینگ لیبر (مغربی آسٹریلیا) کے لیے ایکویٹی اور ڈائیورسٹی آفیسر بھی رہیں۔ بعد میں وہ سنہ 2021 میں مغربی آسٹریلیا میں ینگ لیبر کی صدر منتخب ہوئیں۔سنہ 2022 میں انھیں آسٹریلین مسلم رول ماڈل آف دی ایئر سے نوازا گیا۔
،تصویر کا ذریعہsocial media
سوشل میڈیا پر تنقید اور پذیرائی دونوں
مز فاطمہ کو حجاب پہننے کی وجہ سے اس سے قبل بھی حمایت کے ساتھ ساتھ ٹرولنگ کا سامنا رہا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر ان پارٹی کے خلاف جا کر ان کے ووٹ دینے کے بعد سے وہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔کوئی انھیں اقتدار کے سامنے حق بولنے کے لیے یا ‘حق’ کی حمایت کے لیے داد و تحسین دے رہا تو کوئی انھیں ان کے موقف اور ان کے پس منظر کے تحت انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ہیرس سلطان نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا: ‘ فاطمہ پیمان کی وفاداریاں اسلام اور مسلم ممالک کے ساتھ ہیں۔ میرے خیال میں ان کے لیے افغانستان جانے کا وقت آگیا ہے، جہاں وہ مکمل طور پر شریعت کے مطابق زندگی گزار سکیں گی۔ فاطمہ کے والدین 90 کی دہائی میں طالبان کے زیر اقتدار افغانستان سے فرار ہو گئے تھے لیکن وہ اب بھی افغانستان کو یاد کرتی ہیں۔’،تصویر کا ذریعہFatimaPayman/FB
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.