امیگریشن پالیسی، جنسی بدسلوکی کے الزام یا دھڑے بازی: وہ عوامل جو رشی سونک اور کنزرویٹو پارٹی کے زوال کی وجہ بنے
- مصنف, لون ویلز
- عہدہ, نامہ نگار برائے سیاسی امور، بی بی سی ورلڈ
- 11 منٹ قبل
برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی سیاست کی دنیا میں فٹبال کلب ’مانچسٹر سٹی‘ بن چکی ہے۔ ایک لمبے عرصے تک ہمیشہ جیتنے والی جماعت کے اہم کھلاڑیوں کو جیت کے سوا کچھ یاد بھی نہیں تھا۔ لیکن مسلسل چار بار برطانیہ کے عام انتخابات جیتنے والی یہ جماعت اب ایک ڈرامائی انجام کو پہنچی ہے۔جیتنے اور ہارنے والے ٹوریز (کنزرویٹو پارٹی کے رکن) کے پاس انتخابی نتائج کے بعد بولنے کو جیسے کچھ نہیں بچا اور وہ ابھی بھی ان نتائج کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پارٹی کے اندر اب یہ جاننے کی کوشش شروع ہو چکی ہے کہ ان کی قیادت سے کہاں غلطی ہوئی۔کنزرویٹو پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ لیبر پارٹی اور ان کی جماعت کی پالیسی میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا مگر ووٹرز کا فیصلہ ان کی قابلیت کی بنا پر بنے تاثر سے اثر انداز ہوا۔
دس برس سے کم عرصے کے دوران کنزرویٹو پارٹی کے پانچ سربراہ اور وزیراعظم آئے۔بریگزٹ سے لے کر کورونا وائرس کی وبا تک بہت سے ایسے مواقع آئے، جن کی وجہ سے یہ جماعت دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آئی۔کچھ ٹوریز نے اپوزیشن کا مقابلہ کرنے اور چیزوں کو درست کرنے کی بجائے اپنی زیادہ تر طاقت کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے اور اپنے ہی ساتھیوں کو نیچا دکھانے میں صرف کیا۔اس جماعت کے ارکان کے خلاف لاک ڈاؤن کے دوران پارٹیوں اور جنسی بدسلوکی کے الزامات سے لے کر منی بجٹ میں سود کی شرح میں اضافے جیسے کئی سکینڈل سامنے آئے۔جب میں نے انتخابی مہم کے دوران وہپ سر مارک سے سوال کیا کہ آیا پارٹی ارکان کے رویوں میں کوئی مسئلہ ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ دوسری جماعتوں نے بھی برے رویوں پر اپنے ایم پیز کو معطل کیا تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کی جماعت میں یہ مسئلہ زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں تبدیلی کی خواہش بھی دیکھی گئی، ایک ایسی لفظ جس کا لیبر پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں بار بار استعمال کیا۔ملک میں بڑھتی مہنگائی اور برطانیہ کے محکمہ صحت (این ایچ ایس) میں علاج کے منتظر مریضوں کی لمبی فہرست ایسے مسائل تھے، جن کا اظہار کرتے ہوئے ووٹرز نے کہا کہ حالات بہتر نہیں بلکہ بدتر ہی ہوں گے۔سخت امیگریشن پالیسیوں اور کم ٹیکسوں کے خواہشمند بہت سے ووٹرز کا جھکاؤ ’ریفارم یو کے‘ پارٹی کی طرف رہا۔لیکن ان ووٹرز کو واپس لانے کی کوشش کرنے والی پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس میں شامل ہونے والے اعتدال پسند ٹوریز اپنی پارٹی کو بیچ راہ میں چھوڑ گئے۔،تصویر کا ذریعہPA Mediaتو کیا ان حالات کا مطلب یہ تھا کہ کنزرویٹو پارٹی کی شکست یقینی تھی؟ میں نے جتنے بھی ٹوریز سے بات کی انھوں نے کہا کہ انتخابی نتائج ’غیر متوقع نہیں‘ تاہم کچھ کا خیال ہے کہ پھر بھی ان نتائج کو کسی حد تک بدلا جا سکتا تھا۔ بہت سی غلطیاں ایسی تھیں جن سے بچا جا سکتا تھا جیسے رشی سونک کا ڈی ڈے کی تقریبات سے جلدی چلے جانا۔ ایسی ہی بہت سی غلطیاں بورس جانسن نے بھی کی لیکن اس کے باوجود ان کے فینز کے خیال میں رشی سونک ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پائے۔سابق وزیر اعظم نے پھر بھی انتخابی مہم کو متحرک کرنے کے لیے ’بورس بورس‘ کے نعرے لگائے۔رشی سونک نے جولائی میں قبل از وقت الیکشن کیوں کروائے؟ اس فیصلے کے بارے میں ابھی بھی کچھ لوگ الجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔کنزرویٹو پارٹی کی انتخابی مہم کے سربراہ آئزک لیویڈو نے کسی اور تاریخ پر انتخابات کے لیے زور ڈالا تھا تاکہ ووٹرزکو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کی پالیسیوں کا اثر ہو رہا ہے۔ جیسے کہ پناہ گزینوں کے لیے ’روانڈا منصوبہ‘ اور سود کی شرح میں کمی تاہم آئزک لیویڈو کی یہ کوشش ناکام رہی۔لیکن پالیسی اور اپنی پہچان کے علاوہ ایسے کون سے عوامل تھے، جن پر کام کر کے کنزرویٹو جماعت انتخابی نتائج کو کسی حد تک بدل سکتی تھی؟ اور اب یہ ہی وہ سوال ہے، جس کا جواب جاننے کے لیے پارٹی کی ساری توجہ مرکوز رہے گی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اب آگے کیا ہو گا؟
رشی سونک نے کہا ہے کہ وہ پارٹی کے نئے سربراہ کے آنے پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ پچھلے چند ہفتوں سے اس بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ اس عجیب صورتحال سے بچنے کے لیے کیا کسی کو پارٹی کا قائم مقام سربراہ بنایا جا سکتا ہے؟ کیا پارٹی کا سربراہ کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جو پچھلی کابینہ کا حصہ رہا ہو، جیسے سر اولیور ڈوڈن، جیمز کلیورلی، یا پھر جیریمی ہنٹ؟اگر ایسا ہوتا ہے تو اس جماعت کو کسی ایسے شخص کی ضرورت ہو گی جو مستقل بنیادوں پر پارٹی کی قیادت نہیں کرنا چاہتا۔ورنہ رشی سونک کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کے کسی نتیجے پر پہنچنے تک اپنے عہدے پر قائم رہ سکتے ہیں۔بہت سے ایسے ایم پیز بھی ہیں جو پس پردہ ایک لمبے عرصے سے اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے کیمی بیڈنوچ اور ٹام ٹوجنڈہاٹ۔ سویلا بریورمین اور رشی سونک کے سابق اتحادی رابرٹ جینرک (جو بعد میں ان کے نقاد بنے) بھی اس دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں نے محکمہ داخلہ میں وقت بھی گزارا اور امیگریشن کے حوالے سے حکومتی ریکارڈ پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پارلیمان میں کنزرویٹو پارٹی کے کون سے رکن موجود ہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کس امیدوار کو کس کی حمایت حاصل ہو گی۔میں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ کن ٹوری ایم پیز نے جولائی اور ستمبر 2022 کے دوران جماعت کی سربراہی کے مقابلے میں حصہ لیا اور کس کو سپورٹ کیا۔دلچسپ طور پر ایم پیز کی اکثریت ایسی ہے جو رشی سونک اور لز ٹرس کے حامی ہیں۔سویلا بریورمین اور کیمی بیڈنوچ کے چند حامی نئی پارلیمان کا حصہ نہیں جبکہ ٹام ٹوجنڈہاٹ کی حمایت کرنے والے کچھ رکن بھی اب پارلیمان کا حصہ نہیں۔لیکن کیا ایم پیز کی پسند ناپسند سے کوئی فرق پڑے گا؟ تو اس کا جواب ہے کہ کچھ حد تک کیونکہ اس سے اس بات کا تعین بھی ہو گا کہ کنزرویٹو پارٹی مستقبل میں خود کو کس انداز میں لے کر چلنے کا فیصلہ کرتی ہے۔کیا ٹوریز اپنی جماعت کے دائیں حصے سے تعلق رکھنے والے کسی رکن جیسے کیمی بیڈنوچ، سویلا بریورمین اور رابرٹ جینرک کو پارٹی کا سربراہ بنائیں گے تاکہ متعدد نشستیں جیتنے والی دائیں بازو کی جماعت ’ریفارم یو کے‘ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکا جا سکے۔کنزرویٹو پارٹی میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امیگریشن جیسے مسائل پر سخت موقف نہ اپنانا ہی ان کے زوال کی وجہ بنا۔یا کیا کنزرویٹو پارٹی سیاسی منظرنامے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے والی لیبر پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹام ٹوجنڈہاٹ یا جیریمی ہنٹ جیسے امیدوار کا انتخاب کرے گی؟پارٹی میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹوریز کا دائیں بازو کی جانب جھکاؤ ہی مسئلے کی جڑ ہے اور اسی وجہ سے سماجی طور پر لبرل لیکن مالی طور پر قدامت پسند ووٹرز کنزرویٹو پارٹی سے دور ہوئے۔آنے والے کچھ ہفتوں میں بہت سے لڑائی جھگڑوں اور بحث مباحثوں کے بعد اس سوال کا جواب مل ہی جائے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.