سیاست سے پہلے کی زندگی
50 کے پیٹے میں پہلی بار برطانوی دارالعوام کا رکن بننے سے پہلے سٹامر نے وکالت کے شعبے میں اپنا نام بنایا تھا تاہم انھیں ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی تھی اور اپنی جوانی میں وہ بائیں بازو کی سخت گیرسیاست کے حامی تھے۔
وہ سنہ 1962 میں لندن میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن جنوب مشرقی انگلینڈ میں سری کاؤنٹی میں گزرا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ سٹامر نے 2007 میں شادی کی۔ ان کی بیوی وکٹوریہ الیگزینڈر این ایچ ایس کے لیے کام کرتی ہیں جبکہ ان کے دو بچے ہیں۔سٹامر اکثر کہتے ہیں کہ وہ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک کارخانے میں اوزار بناتے تھے اور ان کی والدہ ایک نرس تھیں۔ ان کے گھر والے لیبر پارٹی کے پرانے حامی تھے بلکہ سٹامر کا نام بھی پارٹی کے پہلے سربراہ، جو ایک کان کن تھے، کیئر ہارڈی کے نام پر رکھا گیا تھا۔سٹامر کے گھر میں سکون نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کہ والد سرد مہر تھے اور زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ ان کی والدہ کی زیادہ تر زندگی سٹل ڈزیز نامی آٹو امیون بیماری سے لڑتے ہوئے گزری۔بیماری سے لڑتے لڑتے بالآخر وہ چلنے اور بولنے سے قاصر ہو گئیں اور اسی بیماری کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹنی پڑی۔
لیبر پارٹی کا سربراہ بننے تک کا سفر
سٹامر سنہ 2015 میں لندن کے حلقے ہولبرن اور سینٹ پینکریاز سے رکن پارلیمنٹ کے طور پر دارالعوام کا حصہ بنے۔اس وقت لیبر پارٹی بائیں بازو کے سیاست دان جیریمی کوربن کی قیادت میں اپوزیشن میں تھی۔ ترک وطن جیسے شعبوں میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کوربن نے سٹامر کو ہوم آفس کا ’شیڈو منسٹر‘ بنایا۔برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سٹامر کو بریگزٹ کا ’شیڈو سیکرٹری‘ بنا دیا گیا۔ اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے دوسرا ریفرینڈم کروانے کی کوشش کی۔،تصویر کا ذریعہPA Media
سٹامر کا مختلف معاملات پر کیا موقف ہے؟
اپنی انتخابی مہم میں انھوں نے جو بھی کہا ہو، سٹامر پارٹی کو قابل انتخاب بنانے کے لیے مرکز کی طرف لے کر آئے ہیں۔سوائے چند سخت گیر موقف والی سکیموں کے سٹامر نے برطانیہ کے خراب معاشی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سی مہنگی پالیسیوں کو ترک کر دیا۔قومیانے کی پالیسیسٹامر نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کے قومیانے کی اپنی سابقہ تجاویز کو مسترد کر دیا۔تاہم انھوں نے گریٹ برٹش ریلویز نامی ایک نئی کمپنی کے تحت تقریباً تمام مسافر ریل خدمات کو پانچ سال کے اندر دوبارہ پبلک سیکٹر میں لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔تعلیم سٹامر نے کالج کے طلبا کے لیے ٹیوشن فیس ختم کرنے کے اپنے سابقہ وعدے کو بھی ترک کر دیا۔ وضاحت دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت اسے برداشت نہیں کر سکے گی۔مئی میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ ہمیں اپنے اس ارادے کو ترک کرنا پڑے کیوںکہ ہماری مالی صورتحال اب بہت مختلف ہے۔‘تاہم سٹامر کا کہنا ہے کہ لیبر برطانیہ کے نجی سکولوں کی فیسوں پر ’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ وصول کرنا شروع کر دے گی۔ماحولیاتلیبر پارٹی نے سنہ 2021 میں ماحول دوست توانائی کے منصوبوں پر سالانہ 35 ارب ڈالر خرچ کرنے کے وعدے کو بھی واپس لے لیا تاہم پارٹی کا الیکٹرک کاروں کی بیٹریز کے کارخانے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر بنانے کا منصوبہ اپنی جگہ قائم ہے۔مخالف کنزرویٹو پارٹی نے سٹامر کی اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک کلیدی پالیسی سے کسی طرح ’اپنی جان چھڑانے کی‘ کوشش کر رہے ہیں۔حال ہی میں سٹامر نے ’جی بی انرجی‘ نامی ایک نئی کمپنی کے ذریعے ماحول دوست توانائی میں آٹھ ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک برطانیہ کی بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن میں فوسل فیول کا استعمال تقریباً مکمل طور پر ختم کروا دیں گا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاسرائیل غزہ تنازعاکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سٹامر نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ان کے موقف پر فلسطینی حامی ووٹرز کی طرف سے سخت رد عمل آیا اور لیبر پارٹی کے درجنوں ارکانِ پارلیمان نے ان سے اختلاف کیا اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔تاہم اس سال فروری میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’جنگ بندی ایسی ہو جو دیرپا رہے۔ اب یہی ہونا چاہیے۔‘عوامی رائے جاننے کے لیے مارچ میں ’یو گو‘ نامی ادارے کی جانب سے کروائے گئے ایک پول میں سامنے آیا کہ برطانیہ میں 52 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ سٹامر اس معاملے سے صحیح طرح نہیں نمٹ رہے۔سٹامر نے حکومت کی اس وقت بھی حمایت کی جب یمن کے حوثی جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل سے جڑے بحری جہازوں کی سروس پر حملے کے جواب میں برطانیہ نے حوثی اڈّوں پر بمباری کی تھی۔یورپسنہ 2019 میں سٹامر نے بریگزٹ کے معاملے پر دوسرے ریفرینڈم کے لیے زور دیا تھا کہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے یا نہیں۔اب وہ کہتے ہیں کہ بریگزٹ پر واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ یورپی یونین کے ساتھ خوراک، ماحولیاتی اور مزدوری کے معیارات جیسی چیزوں پر تعاون کے نئے معاہدوں پر بات کریں گے۔
’مجھے ہارنے سے نفرت ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسٹامر کے مخالفین اکثر ’سست رو‘ ہونے پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن سٹامر خود کو قواعد و قوانین کے سخت پابند کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے انھیں ’مسٹر رولز‘ کہہ کر پکارا۔انھوں نے صرف ایک بار قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ جوانی میں انھیں پولیس نے بغیر ٹریڈ پرمٹ کے آئس کریم بیچتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ وہ آئس کریم ضبط کر لی گئی تھی تاہم مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔انٹرویوز میں وہ اپنی شخصیت کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیتے لیکن اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں مقابلے کا جذبہ خوب موجود ہے۔برطانوی اخبار گارڈیئن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’مجھے شکست سے نفرت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف شرکت بھی معنی رکھتی ہے لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.