’کرائے کی کوکھ‘ کے خواہشمند جوڑوں کا یوکرین کی بجائے جارجیا کا رُخ: ’میں یہ اپنے بچوں کی پرورش کے لیے کر رہی ہوں‘
حاملہ ہونے کے بعد انھیں ماہانہ 500 ڈالر اور بچے کی پیدائش کے بعد 15 ہزار ڈالر دیے جائیں گے۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان خاندانوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں جو اپنا بچہ پیدا نہیں کر سکتے‘۔’میں بہت سے ایسے خاندانوں کو دیکھتی ہوں جو دل برادشتہ ہیں کیوںکہ ان کے بچے نہیں ہو سکتے۔ سب سے پہلے مجھے پیسے کی ضرورت ہے، مجھے اپنے خاندان کے لیے بہترین زندگی چاہیے۔ مجھے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے مضبوط بننا ہو گا۔‘عالمی سطح پر سروگیسی اربوں ڈالر کی صنعت ہے۔ علینا کو جارجیا کی ایجنسی نے ان کے آبائی ملک قزاقستان سے بھرتی کیا تھا جہاں وہ دو بچوں کے ساتھ ایک اکیلی ماں کے طور پر رہتی ہیں۔سروگیسی کے عمل کے دوران وہ کپڑوں کی دکان میں کام کرکے اپنی عام ملازمت سے تقریباً تین گنا زیادہ کمائیں گی۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے بچوں کے علاوہ کسی اور چیز کی پرواہ نہیں ہے‘۔وہ جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی جانے کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ ایک جوڑے کے جنین کو ان کے رحم میں منتقل کیا جا سکے۔وہ کہتی ہیں ’میں نے خود کو اس کے لیے تیار کیا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں یہاں اکیلی ہوں۔ کوئی مددگار نہیں ہے۔‘
طلب میں اضافہ
یوکرین کی جگہ اب جارجیا یورپ میں سروگیسی کا مرکز ہے۔ لیکن یہاں کی آبادی یوکرین سے 10 گنا کم ہے اس لیے ایجنسیاں وسطی ایشیائی ممالک سے علینا جیسی زیادہ سے زیادہ خواتین کو بھرتی کر رہی ہیں۔اپنی کوکھ کرائے پر دینے والی خواتین کو جتنی زیادہ رقم مل رہی ہے، اس نے خواتین پر اس عمل کے دوران پڑنے والے دباؤ کے حوالے سے تشویش پیدا کی ہے۔ حتیٰ کے اس صنعت سے جڑے افراد بھی اس بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں۔بولشک نامی سروگیسی ایجنسی کی ڈائریکٹر دامیرا بیکبرگینووا کہتی ہیں کہ ’سروگیٹ ماں بننے کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہماری لڑکیاں خود کو مجبور محسوس کرتی ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ان میں سے کوئی بھی ایسا صرف نیک دلی کی وجہ سے نہیں کرتا۔ وہ مالی ضرورت کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں۔ تقریباً تمام لڑکیاں اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر بچے پیدا کر رہی ہیں۔‘ان کی ایجنسی 20 سے 34 سال کی عمر کی خواتین (جو پہلے سے مائیں بن چکی ہوں) کے لیے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر اشتہارات کا استعمال کرتی ہے۔سروگیٹس کی مانگ میں اضافے کا مطلب ہے کہ دامیرا بیکبرگینووا خواتین سے ملنے کے لیے قزاقستان میں اپنے تین دفاتر اور کبھی کبھار چین بھی جاتی ہیں۔اگرچہ سروگیٹس کی فیس میں اضافہ ہوا ہے لیکن دامیرا کا کہنا ہے کہ قزاقستان میں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کچھ خواتین اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اپنی دوسری یا تیسری سروگیسی کے لیے معاہدے کر رہی ہیں۔
’سروگیسی کو بھی سیکس ورک سمجھا جاتا ہے‘
تاہم جن خواتین سے ہماری ملاقات ہوئی وہ سب بہت مطمئن تھیں اور ان میں سے کوئی خود کو مظلوم نہیں سمجھتی۔بہت سی خواتین کو اس پر فخر تھا کہ وہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی بھی زندگی بنا رہی ہیں۔ تاہم انھیں آبائی ملک میں سروگیسی کو ایک سماجی داغ سمجھے جانے پر مایوسی تھی۔سبینا (فرضی نام) تیسری بار اپنی کوکھ کو کرائے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اس وقت وہ سات ماہ کی حاملہ ہیں۔ سبینا نے ہمیں وسطی تبلیسی میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں مدعو کیا۔یہ رہائش سروگیسی ایجنسی کی طرف سے کرائے کی کوکھ فراہم کرنے والی حاملہ خواتین کو دی جاتی ہے۔سبینا پانچ دیگر حاملہ خواتین کے ساتھ ایک لوؤنگ روم، کچن اور باتھ روم شیئر کرتی ہیں۔ ان خواتین کو حمل کے آخری تین مہینے یہاں رہنا لازم ہوتا ہے۔اونچی چھتوں والا یہ رہائشی فلیٹ روشن اور ہوادار تھا جس کی بالکونی سے پہاڑوں کا نظارہ دلکش دکھائی دیتا تھا۔قزاقستان کی جھیل بلخاش کے ساحل پر ایک چھوٹے سے قصبے سے آنے والی سبینا نے 15 سال کی عمر میں شادی کی تھی۔ اس وقت وہ اس پناہ گاہ میں پر سکون حالت میں ہیں تاہم اپنے گھر واپسی پر انھیں اپنی کمیونٹی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں سروگیسی کو سیکس ورک سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ ’وہاں کی ثقافت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ لوگ میرے بارے میں غلط سوچیں گے اور مجھ پر اپنا بچہ بیچنے کا الزام لگائیں گے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی تاکہ جب میں گھر واپس جاؤں تو مجھے بے دخل نہ کیا جائے۔‘’ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ کیا میں نے کوئی گناہ کیا ہے؟ میں نے اس کے بارے میں پڑھا ہے اور انٹرنیٹ پر تحقیق بھی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بچہ پیدا کرنا ایک اچھی چیز ہے کیونکہ میں زندگی کو جنم دے رہی ہوں اور ان لوگوں کے لیے نیکی کر رہی ہوں جو بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔‘وہ کہتی ہیں ’میں یہ مفت میں تو نہیں کر رہی۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں جنھیں کھلانے پلانے اور پڑھانے کے لیے رقم چاہیے۔ میرا بڑا بیٹا چند سالوں میں کالج جانے والا ہے۔ قازقستان میں مجھے اتنی رقم کمانے میں دگنا وقت لگ جائے گا۔‘
قانونی پابندیاں
جارجیا میں سروگیسی سے جڑے تنازعات پر ملک کی حکومتی اور اپوزیشن دونوں فریقین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔لبرل سائیڈ پر حقوق نسواں کے گروہ طبی طریقوں کے سخت ضابطوں اور استحصال کے خطرے کے خلاف زیادہ حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جولائی 2023 میں، سماجی طور پر قدامت پسند جارجیائی ڈریم پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وزیر اعظم نے غیر ملکی شہریوں کے لیے سروگیسی پر پابندی لگانے کا اعلان کیا اور کہا کہ غیر ملکی شہری اس معاملے کو کاروبار میں تبدیل کر رہے ہیں۔ایل جی بی ٹی مخالف سمجھے جانے والی جارجیا کی حکومت (جس نے ماضی میں ہم جنس پرستی کے خلاف کئی پالیساں بنائیں اور متعدد بیانات دیے) نے ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑے اس طرح پیدا ہونے والے بچوں کو اپنا سکتے ہیں۔سروگیسی ایجنسیوں کی طرف سے مداخلت کے بعد بل کو جارجیا کی پارلیمنٹ میں موسم خزاں میں ہونے والے انتخابات تک روک دیا گیا ہے۔علینا جیسی بہت سی مائیں امید کر رہی ہیں کہ سروگیسی سے ملنے والے مالی فوائد کو روکا نہیں جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ’میں جلد از جلد پروگرام شروع کرنا چاہتی ہوں تاکہ یہ جلد اختتام پذیر ہو۔ وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں – لہذا مجھے سب کچھ جلدی کرنے کی ضرورت ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.