انھوں نے کئی سال یونیورسٹی میں بطور استاد فرائض سرانجام دیے جس کے بعد 1980 میں انھیں ان کے تایا شیخ عبدالقادر آل شیبی کی جگہ بیت اللہ کے مرکزی کلید بردار کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی۔انھوں نے تدریس کے میدان میں اسلامی موضوعات پر کئی کتب اور ریسرچ آرٹیکل بھی لکھے ہیں۔،تصویر کا ذریعہHARAMAIN SHARIFAIN
کلیدِ کعبہ کی ذمہ داری
کعبہ میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک دروازہ ہے جسے باب کعبہ کہا جاتا ہے۔باب کعبہ زمین یا حرم کے فرش سے 2.13 میٹر اوپر ہے۔ یہ دروازہ کعبے کی عمارت کی شمال مشرقی دیوار پر موجود ہے اور اس کے قریب ترین دہانے پر حجر اسود نصب ہے جہاں سے طواف (حج یا عمرے کے دوران کعبے کے چکر لگانا) کی ابتدا کی جاتی ہے۔کلید بردار سے متعلق اسلامی تاریخ کے بارے میں احمد عدن نے بی بی سی سومالی کو بتایا کہ ’جب پیغمبر اسلام پیدا ہوئے تو اس وقت قریش قبیلے کا کام تقسیم ہوچکا تھا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’بنی ہاشم خاندان، جس میں پیغمبر اسلام پیدا ہوئے، کے پاس زم زم کنویں کی ملکیت اور اس کی چابی تھی۔۔۔ کعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ کے پاس تھی۔‘وہ پیغمبر اسلام اور عثمان بن طلحہ سے متعلق ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیغمبر نے کہا تھا کہ ’ایک دن آنے والا ہے یہ کنجی میرے پاس ہو گی۔‘اسلامی روایت کے مطابق فتح مکہ کے بعد خود پیغمبر اسلام نے یہ چابی عثمان بن طلحہ کو سونپی تھی اور اب نسل در نسل انھی کا خاندان اس کی حفاظت کرتا آ رہا ہے۔ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر یہ چابی ان سے کچھ دیر کے لیے واپس لی گئی تھی مگر اللہ کے حکم پر اسے واپس عثمان بن طلحہ کو لوٹا دیا گیا تھا۔روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے یہ چابی دیتے ہوئے انھیں کہا تھا کہ ’کعبے کی چابی ہمیشہ آپ کے پاس رہے گی اور کسی ظالم کے علاوہ آپ سے یہ کوئی نہیں لے سکے گا۔‘
سنہ 1942 سے پہلے باب کعبہ کس نے تیار کیا اور کیسے تیار کیا، اس کا تاریخ میں زیادہ تذکرہ نہیں ملتا۔ تاہم 1942 میں ابراہیم بدر نے چاندی کا دروازہ بنایا تھا۔ اس کے بعد 1979 میں ابراہیم بدر کے بیٹے احمد بن ابراہیم بدر نے خانہ کعبہ کے لیے سونے کا دروازہ بنایا۔ یہ دروازہ تقریباً 300 کلو گرام سونے سے تیار کیا گیا تھا۔سابق کلیدِ کعبہ شیخ عبدالقادر کے دور میں شاہ عبداللہ کے حکم سے کعبہ کے تالے کو تبدیل کیا گیا۔اس وقت کے شہزادے خالد الفیصل نے کعبہ کی صفائی کے موقع پر بادشاہ کی جانب سے نیا تالہ شیخ عبدالقادر کے حوالے کیا۔ جب شیخ عبدالقادر کی طویل علالت کے بعد وفات ہوئی تو ان کے کزن ڈاکٹر صالح بن زین العابدین الشیبی اس چابی کے نگران بن گئے۔کعبے کے تالے اور چابی دونوں کو تاریخ میں کئی بار مختلف حکمرانوں نے ضرورت پڑنے پر تبدیل کیا۔ کعبے کی چابیاں روایتی طور پر کڑھائی والے تھیلوں میں رکھی جاتی ہیں جس پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔حالیہ عرصے میں خانہ کعبہ کے خدمت گزار کی ذمے داری اس کے قُفل کھولنے اور بند کرنے تک محدود ہو گئی ہے۔تاہم سعودی عرب آنے والے ریاستی مہمانوں کے لیے شاہی دفتر، وزارت داخلہ اور ایمرجنسی فورسز کے ذریعے کلید بردار کے ساتھ ان سے یہ تالا کھلوایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی کلینڈر کے مطابق 15 محرم کو ہر سال شاہی فرمان کے بعد مکہ مکرمہ کے گورنر ہاؤس کے ذریعے کلید بردار کعبے کا دروازے کھولتے ہیں تاکہ خانہ کعبہ کو غسل دیا جا سکے۔،تصویر کا ذریعہHARAMAIN SHARIFAIN
خانہ کعبہ کی چابی
خانہ کعبہ کی موجودہ چابی اور تالا 18 قیراط سونے اور نکل سے بنا ہوا ہے جبکہ خانہ کعبہ کا اندرونی کسوہ یا احاطہ سبز ہے۔اس پر کلمہ اور قرآنی آیات تحریر ہیں۔ ترکی میں ایسی 48 چابیوں پر مشتمل ایک میوزیم موجود ہے جو عثمانی حکومت میں خانہ کعبہ کو کھولنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں جبکہ سعودی عرب میں ان چابیوں کی خالص سونے سے بنی دو کاپیاں موجود ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ماضی میں خانہ کعبہ کی چابی کی ریکارڈ نیلامی
بارہویں صدی میں بنائی جانے والی خانہ کعبہ کی ایک چابی سنہ 2008 میں 18.1 ملین ڈالر میں نیلام ہوئی تھی۔ لندن میں اسلامی آرٹ کی نیلامی کے دوران اس چابی کے لیے کامیاب بولی ایک نامعلوم خریدار کی جانب سے لگائی گئی تھی۔ نیلام ہونے والی خانہ کعبہ کی چابی لوہے کی تھی اور اس کی لمبائی پندرہ انچ تھی۔ اس چابی پر کندہ تھا کہ ’یہ اللہ کے گھر کے لیے خصوصی طور پر بنائی گئی ہے‘۔لندن میں نیلام ہونے والی چابی خانہ کعبہ کی واحد ایسی چابی ہے جو کسی نجی ملکیت میں تھی۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کی اٹھاون چابیاں عجائب گھروں میں موجود ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.