اسرائیل کی پیچیدہ سیاست، انتہا پسند یہودی وزرا اور حماس کی شرط جو غزہ میں عید سے قبل جنگ بندی کے راستے میں رکاوٹ ہیں،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, جیریمی بوین
  • عہدہ, بین الاقوامی مدیر، بی بی سی نیوز
  • 4 منٹ قبل

اگر کسی سفارت کار کو ایک ہی جیسا دن بار بار گزارنے کی سزا ملے تو ذہن میں امریکی سیکریٹری خارجہ انتونی بلنکن آتے ہیں جنھیں شاید مشرق وسطی کے ایک اور دورے کے آغاز سے قبل جانی پہچانی تھکاوٹ کا احساس ہوا ہو۔واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی تجاویز پر حماس کا ردعمل سامنے آ چکا ہے جس کی جانب سے مجوزہ چھ ہفتوں کے بجائے مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ سامنے رکھا گیا ہے۔ امریکی تجاویز کو اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی حمایت حاصل ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ غزہ میں عید سے قبل جنگ بندی کی کوششیں کامیاب ہو پائیں گی یا نہیں۔گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران انتونی بلنکن آٹھویں بار خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل پر سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سفارت کاری کی سیاست اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پہلے سے ہی ایک پیچیدہ معاملہ تھا۔لیکن یہ سیاست اب مذید پیچیدہ ہو چکی ہے۔ بدھ کے دن اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی تازہ رپورٹ میں اسرائیل اور حماس دونوں پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

تاہم غزہ میں جنگ بندی کی سیاست پیچیدہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اسرائیلی اپوزیشن رہنما بینی گانٹز کی جانب سے وزیر اعظم نتن یاہو کی جنگی کابینہ سے مستعفی ہونا ہے۔ اس کابینہ سے مستعفی ہونے والے بینی گانٹز اکیلے شخص نہیں ہیں۔ گاڈی ایزنکوٹ بھی اسرائیلی کابینہ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔یہ دونوں شخصیات فوج سے جنرل کے عہدوں پر ریٹائر ہوئیں اور اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں۔بینی گانٹز اسرائیلی کابینہ میں امریکیوں کے سب سے پسندیدہ شخص تھے۔ لیکن اب وہ نئے انتخابات چاہتے ہیں اور ملک کے اگلے وزیر اعظم بننے کے مضبوط امیدوار ہیں۔ تاہم نتن یاہو اس وقت تک محفوظ رہیں گے جب تک 120 اراکین کی پارلیمان میں ان کے پاس 64 ووٹ رہیں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنبینی گانٹز اسرائیلی کابینہ میں امریکیوں کے سب سے پسندیدہ شخص تھے
اس عددی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے نتن یاہو کو دو الٹرا نیشنلسٹ یعنی قوم پرست دھڑوں کے سربراہان کی حمایت درکار ہو گی۔ یہ نیشنل سکیورٹی وزیر اتمار بین گویر اور وزیر خزانہ بیزالیل سموترچ ہیں۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن کا مشرق وسطی کا مشن اسرائیلی سیاست سے ٹکرا جاتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا ماننا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ چکا ہے اور اب انتونی بلنکن کا کام ہے کہ وہ اسے ممکن بنائیں۔لیکن بین گویر اور سموترچ نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر نتن یاہو نے حماس کے مکمل خاتمے سے قبل جنگ بندی پر اتفاق کیا تو وہ حکومت گرا دیں گے۔ ان دونوں کا شمار انتہا پسند یہودی قوم پرستوں میں کیا جاتا ہے جن کی خواہش ہے کہ غزہ کی جنگ اس وقت تک جاری ہے جب تک حماس کا نام و نشان باقی ہے۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اردن دریا اور بحیرہ روم کے بیچ موجود سارا علاقہ یہودیوں کی زمین ہے جہاں یہودیوں کو ہی آباد ہونا چاہیے۔ ان کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کو ’رضا کارانہ‘ طور پر غزہ چھوڑنے کی ترغیب دینی چاہیے۔

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنانتہا پسند یہودی قوم پرستوں کا ماننا ہے کہ اردن دریا اور بحیرہ روم کے بیچ موجود سارا علاقہ یہودیوں کی زمین ہے
انتونی بلنکن مشرق وسطی میں اس لیے موجود ہیں کہ وہ حالیہ جنگ بندی کے منصوبے کا انجام پہلے جیسی تجاویز جیسا نہ ہونے دیں۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی تین قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا تاہم اب جو بائیڈن معاہدے کے لیے تیار ہیں۔ 31 مئی کو امریکی صدر نے ایک تقریر میں حماس پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کا نیا مجوزہ امن منصوبہ تسلیم کر لیں۔اس معاہدے کے تین حصے تھے جن کی حمایت اب اقوام متحدہ کی ایک قرارداد بھی کرتی ہے، جن میں چھ ہفتے تک جنگ بندی، غزہ میں انسانی امداد میں تیزی اور چند فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل تھے۔اس معاہدے کے تحت حتمی طور پر تمام اسرائیلی یرغمالی رہا ہوتے، جنگی کارروائیاں مستقل طور پر ختم ہو جاتیں اور آخرکار غزہ کی بحالی کا کام شروع کیا جاتا۔ امریکی صدر کے مطابق اسرائیل کو حماس کا خوف نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اب وہ سات اکتوبر جیسی کارروائی نہیں دہرا سکتی۔صدر بائیڈن اور ان کے مشیر جانتے تھے کہ آگے مشکل راستہ ہے۔ حماس نے ضد کی کہ وہ مستقل جنگ بندی کی شرط پر ہی اس معاہدے کی حامی بھرے گی جس میں اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا اور جنگ کا خاتمہ ہونے کی یقین دہانی شامل ہو۔،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنامریکی صدر جو بائیڈن کا ماننا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ چکا ہے اور اب انتونی بلنکن کا کام ہے کہ وہ اسے ممکن بنائیں
گزشتہ ہفتے غزہ کے نصیرت کیمپ میں چار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کی خفیہ کارروائی کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر تباہی نے حماس کے اس عزم کو مذید تقویت دی ہے۔ غزہ میں حماس کے زیر انتظام حکام صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کارروائی کے دوران 274 فلسطینی ہلاک ہوئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 100 سے کم ہے۔امریکی صدر کو یہ بھی علم تھا کہ اسرائیل کی چند بااثر طاقتیں معاہدے کی مخالفت کریں گی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’میں نے اسرائیلی قیادت پر زور دیا ہے کہ اس معاہدے کی حمایت کریں چاہے جتنا بھی دباؤ آئے۔‘یہ دباؤ جلد ہی سامنے آ گیا۔ بین گویر اور سموترچ حکومت کے سینئر وزرا ہیں جو اس معاہدے کے مخالف ہیں۔ ان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ اسرائیل کی جنگی کابینہ نے اس معاہدے کی منظوری دی کیوں کہ وہ اس خصوصی کابینہ کا حصہ ہی نہیں ہیں۔جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی انھوں نے دھمکی دی کہ وہ نتن یاہو کی اتحادی حکومت کا تختہ گرا دیں گے اگر اس معاہدے سے اتفاق کیا گیا۔ دوسری جانب یہ بھی واضح ہے کہ فلسطینی ہلاکتوں میں اضافے نے حماس کے جذبات کو کمزور نہیں کیا۔ ان کے لیے اپنے گروہ اور سربراہوں کا بچنا ہی فتح ہے۔اسرائیل میں وزیر اعظم نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے دو اراکین نے استعفی دیا جن کی خواہش تھی کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ میں وقفہ کیا جائے۔ ان دونوں اراکین کی غیر موجودگی میں نتن یاہو انتہا پسندوں کے سامنے کمزور پڑ سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہReutersشاید انتونی بلنکن نتن یاہو کو مجبور کر دیں کہ معاہدہ پر اتفاق کریں اور ان لاکھوں اسرائیلی شہریوں کو مطمئن کریں جو چاہتے ہیں کہ یرغمالیوں کی ہلاکت سے قبل انھیں زندہ واپس لایا جائے۔ ایسے میں شاید نتن یاہو کے پاس اور کوئی راستہ نہ بچے اور انھیں حکومت ختم کرتے ہوئے نئے انتخابات کا جوا کھیلنا پڑے۔تاہم ان کی شکست کے بعد ایسی انکوائری ہو گی جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا نتن یاہو پر ان سیاسی، انٹیلیجنس اور عسکری ناکامیوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جن کی وجہ سے حماس اسرائیل پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ہو سکتا ہے نتن یاہو انتظار کرنے اور پروپیگینڈا کی پرانی تکنیک کا استعمال کریں جو انھوں نے ملک کے سب سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہتے ہوئے سیکھی ہے یعنی اگر شک ہو تو وقت لیں اور پہلے سے زیادہ جوش سے اپنا موقف پیش کریں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}