ہفتہ10؍شوال المکرم 1442ھ 22؍ مئی 2021ء

انسانی فضلے کی وہ خفیہ طاقت جو جنگلات کو بچا سکتی ہے

ملاوی: انسانی فضلے کی وہ خفیہ طاقت جو جنگلات کو بچا سکتی ہے

  • مدالٹسو ویلز کٹیٹا
  • بی بی سی فیوچر کے لیے

انسانی ویسٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

افریقی ملک ملاوی کے جنوب میں واقع ملانجے جیل میں ایک قیدی فیلکس چموبو صبح صبح اٹھتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں۔ چند ایک قیدیوں کے ساتھ مل کر چموبو کی ذمہ داری صبح سات بجے تک 200 کے قریب قیدیوں کے لیے کھانا تیار کرنا ہے۔

ماضی میں جیل میں اوسطً ایک دن کا کھانا پکانے کے لیے دو مربع میٹر لکڑی استعمال ہوتی تھی اور اس عمل میں تقریباً پانچ گھنٹے لگ جاتے تھے۔

مگر پھر لکڑی کا ایک غیر معمولی متبادل لایا گیا۔ جیل میں بائیو گیس کو استعمال کرنے کا ڈائیجیسٹر نظام لگایا گیا جو کہ نامیاتی (آرگینک) اجزا بشمول انسانی فضلے کو توانائی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ پلاسٹک شیٹوں سے بنے اس نظام میں ایک داخلی پوائنٹ ہے جس میں فضلہ ڈالا جاتا ہے اور مشین کے اندر اسے زیر آب لایا جاتا ہے۔

یہ پانی ایک ایناروبک (یعنی بغیر آکسیجن کے) ماحول پیدا کرنا ہے کہ جس میں بیکٹیریا بائیو ماس یعنی آرگینک اشیا کو قدرتی گیس میتھین میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس گیس کو پائپوں کے ذریعے جیل کے کچن میں چولہے چلانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چموبو کہتے ہیں کہ بائیو گیس کے استعمال کی وجہ سے جیل میں حالات بہتر ہوئے ہیں۔ جب سے یہ نظام جیل میں لگایا گیا ہے اب قیدیوں کو روزانہ لکڑی کاٹنے کا تھکا دینے والا کام نہیں کرنا پڑتا۔

چموبو کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت صاف اور مؤثر نظام ہے۔‘ اور خوش قسمتی یہ ہے کہ اس نظام سے کوئی ناگوار بو بھی نہیں آتی۔ ‘جب یہ پلانٹ لگایا جا رہا تھا تو ہم نے سمجھا کہ کچن میں سیوریج کی بدبو آئے گی مگر اس گیس کی تو کوئی بھی بو نہیں۔ اس سب نے ہماری بہت مدد کی ہے کیونکہ اب ہمیں کھانا پکانے میں اتنا وقت بھی نہیں لگتا۔‘

ملاوی

،تصویر کا ذریعہMadalitso Wills Kateta

ملانجے جیل میں یہ نظام یونائیٹڈ پرپوز نامی ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم نے لگایا ہے۔ اس نظام کو جیل کے حوالے کرنے سے پہلے تنظیم نے آٹھ وارڈنز اور چھ قیدیوں کو اس کو چلانے کی مکمل تربیت دی تھی۔ اس ٹیکنالوجی سے ایک اور فائدہ جو قیدیوں کو ہوا ہے کہ ان کے نکاسی کے نظام میں اکثر پیدا ہونے والی رکاوٹیں بھی بہت کم ہو گئی ہیں۔

جیل حکام کا کہنا ہے کہ اس نظام کے لگنے سے جیل میں لکڑی کا استعمال تقریباً نصف ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے بل میں بھی کمی آئی ہے۔ بجلی اور لکڑی کو ملا کر تقریباً ماہانہ 400 ڈالر کی بچت ہو رہی ہے۔

یہ نظام دسمبر 2020 میں نصب کیا گیا تھا اور اس وقت یہ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے نہیں چل رہا کیونکہ جیل میں قیدیوں کی تعداد کو کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کم کیا گیا ہے۔ حکام کو امید ہے کہ اپنی مکمل صلاحیت پر یہ نظام ایک دن میں 230 مربع میٹر تک انسانی فضلہ استعمال کر سکے گا جس سے بجلی اور لکڑی کی 80 فیصد بچت ہوگی۔

ملاوی

،تصویر کا ذریعہMadalitso Wills Kateta

اس بائیو گیس نظام سے جو مواد بچ جاتا ہے، اسے جیل میں ایک چھوٹے سے کھیت میں بطور آرگینک کھاد استعمال کیا جاتا ہے جس سے سبزیوں کی پیداوار بہتر ہو رہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس کی مدد سے قیدیوں میں غذائی قلت کے مسئلے کو حل کیا جائے گا خاص طور پر ان قیدیوں میں جن میں ایچ آئی وی انفیکشن ہو۔

انسانی فضلے کو بطور ایندھن استعمال کرنے والے بائیو گیس ڈائیجیسٹر نظام میں دلچسپی کینیا سے لے کر انڈونیشیا تک پائی جاتی ہے، جہاں خاص طور پر یہ دیہاتی علاقوں میں انتہائی فائدہ مند ہیں۔ ملاوی میں بائیو گیس کے ایسے نظاموں کی مدد سے ملک کے ماحولیاتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے: صاف توانائی اور کھاد کی فراہمی اور لکڑی پر انحصار میں کمی۔

ملاوی

،تصویر کا ذریعہMadalitso Wills Kateta

ملاوی افریقہ کی آبادی کے لحاظ سے گنجان ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تقریباً 97 فیصد آبادی ایندھن کے لیے بائیو ماس خاص طور پر لکڑی پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں جنگلات کی کٹائی کی شرح بہت بلند ہے۔ سنہ 1990 میں ملک میں قدرتی جنگل 35 لاکھ ہیکٹر پر محیط تھے جو 2020 میں 24 لاکھ رہ گئے تھے۔ ملک میں توانائی کے علاوہ کاشتکاری کے لیے زمین کی طلب کی وجہ سے بھی جنگلوں پر دباؤ رہا ہے۔

ملانجے جیل کا پروجیکٹ چھوٹا سا ہے مگر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملاوی میں لکڑی پر سے انحصار کم کیا جا رہا ہے۔

ایسے ہی نظام ڈیڈزا اور منگوچی جیلوں میں لگائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ نظام ایسی جگہوں پر کافی کامیاب ہوتے ہیں جہاں کافی زیادہ لوگ ایندھن فراہم کرنے کے لیے موجود ہوں۔ مگر ایسا نظام انفرادی گھروں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ گھروں کے لیے اس سے ایک چھوٹا نظام تیار کر لیا جائے گا جس کے ابھی ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔

چاہے یہ انسانی فضلہ ہو، ضائع شدہ کھانا یا فضلوں کا بچا ہوا مال، ملاوی کو اپنے جنگلوں کو ایندھن بننے سے بچانا ہے اور شاید اس کا حل ان کے اپنے گھر میں ہی موجود ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.