بشکیک میں پاکستانی طلبہ پر حملے: ’مشتعل مظاہرین دروازے توڑ کر ہمارے ہاسٹل کے کمروں میں داخل ہوئے‘،تصویر کا ذریعہMuhammad Bilal

  • مصنف, منزہ انوار
  • عہدہ, بی بی سی اردو
  • 2 گھنٹے قبل

کرغزستان کے شہر بشکیک میں مقیم پاکستانی طالبہ حسینہ نعمان نے گذشتہ شب دیکھا کہ ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس مظاہرین ان کے ہوسٹل کی جانب سے بڑھ رہے ہیں۔ان مظاہرین نے ’کمرے کے دروازے کا لاک توڑا، ساتھی طالبہ کو بالوں سے پکڑ کر تھپڑ مارے۔‘ اس دوران خود ان کے سر پر چوٹ آئی۔بشکیک میں گذشتہ شب کے پُرتشدد واقعے میں پاکستانی سمیت کئی غیر ملکی طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔ دراصل 13 مئی کو بشکیک میں مقامی افراد اور غیر ملکی طلبہ کے درمیان ایک جھگڑا ہوا جس کے بعد گذشتہ شب مشتعل ہجوم نے غیر ملکی طلبہ کے ہوسٹلز اور فلیٹس پر دھاوا بولا۔

ادھر بشکیک میں پاکستانی سفارتخانے کے بقول کرغزستان کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس پُرتشدد واقعے کے دوران کسی پاکستانی طالب علم کی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ بشکیک میں پاکستانی اور انڈین سفارتخانوں نے طلبہ کو ہوسٹلز میں رہنے کی ہدایت دی ہے۔ کرغزستان کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صورتحال اب قابو میں ہے جبکہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بشکیک کے پولیس حکام نے مذاکرات کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کرغزستان کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ روز چار غیر ملکی افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ملک کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پاکسانیوں سمیت 29 غیر ملکی افراد کو طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ آج اسلام آباد میں کرغزستان کے سفارت خانے کے ناظم الامور میلس مولدالیف کو ڈمارش کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انھیں گذشتہ روز کرغز جمہوریہ میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا کے ساتھ ہونے والے واقعات کے متعلق حکومت پاکستان کی گہری تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ اور ان سے پاکستانی طلبا اور ملک میں مقیم دیگر پاکستانی شہریوں کی حفاظت اور سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہPakinKyrgyzstan،تصویر کا ذریعہIndiaInKyrgyz

بشکیک میں گذشتہ رات کیا ہوا؟

گلاب خان کرغزستان کے شہر بشکیک میں میڈیکل کالج کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے صحافی محمد زبیر خان کو بتایا کہ مشتعل ہجوم نے پاکستانی سمیت کئی غیر ملکی طلبہ پر تشدد کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مقامی لوگ اکٹھے ہوئے اور انھوں نے ’مختلف یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کے ہاسٹلز کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔‘میڈیکل کالج کے طالب مصطفیٰ خان نے بتایا کہ گذشتہ شب اچانک شور شرابہ شروع ہوا اور ’ہمارے کمروں میں درجنوں کی تعداد میں مسلح لوگ داخل ہوئے اور ہم پر تشدد کیا۔’میں نے اپنے روم میٹ کے ہمراہ ہاسٹل کے کمرے کا دروازہ لاک کرنے کی کوشش کی مگر وہ دروازہ توڑ کر اند گھس گئے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم تینوں کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘،تصویر کا ذریعہMuhammad Bilal

’جو ان کے ہاتھ آتا، وہ اس کی قومیت پوچھے بغیر اسے مار رہے تھے‘

محمد بلال چند دیگر پاکستانیوں کے ساتھ یونیورسٹی کے قریب ہی ایک فلیٹ کرائے پر لے کر وہاں رہتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ غیر ملکی طلبا اور مقامی لوگوں کے بیچ لڑائی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے ہوسٹلوںاور فلیٹس پر حملہ کیا ہے۔ ’ان کے ہاتھ جو بچہ آ رہا تھا اس کی قومیت پوچھے بغیر اسے مار رہے تھے۔‘ بلال بتاتے ہیں کہ مشتعل افراد نہ صرف توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کر رہے تھے بلکہ مسلسل اپنے ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر لائیو بھی تھے۔ ان ہوسٹلوں میں زیادہ تر پاکستانی رہائش پذیر ہیں تاہم کم تعداد میں بنگلہ دیش اور مصر کے طلبا بھی رہائش پذیر ہیں۔ چند انڈین اور پاکستانی طلبا نے ہوسٹلوں، فلیٹوں کے علاوہ گھر بھی کرائے پر لے رکھے ہیں۔ بلال کا دعویٰ ہے کہ جہاں جہاں انھیں پاکستانیوں کا پتا لگا ہے، ان ہوسٹلوں، فلیٹوں اور گھروں تک میں گھس کر ان پر بھی حملہ کیا گیا اور طلبہ کو مارا پیٹا گیا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ جو طالبعلم لڑکیاں انھیں باہر گھومتی یا کہیں آتی جاتی نظر آئیں ہیں ان کے ساتھ بھی بدتمیزی اور ہراساں کیا گیا ہے۔

’دو گھنٹوں تک باتھ روم میں چھپے رہے‘

میڈیکل کی ایک طالبہ حسینہ نعمان بتاتی ہیں کہ مظاہرین لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے لیس تھے۔ ’انھوں نے ہمارے کمرے کا دروازہ توڑا۔ مجھے اور میری روم میٹ کو بالوں سے پکڑا کر تھپڑ مارے گئے۔ میرے سر پر چوٹیں لگی ہیں جبکہ میری روم میٹ کے پاؤں اور ٹانگوں پر چوٹیں لگی ہیں۔‘ان کے مطابق اسی دوران بعض مقامی لوگوں نے تشدد کرنے والوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔میڈیکل کی ایک اور طالبہ ورشا گجر بتاتی ہیں کہ انھوں نے دیگر طلبہ کے ہمراہ ایک کمرے میں پناہ لی۔ ’انھوں نے کمرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی۔ ہم نے باتھ روم میں خود کو بند کر لیا تھا اور دو گھنٹے تک وہیں بند رہے۔۔۔ ہمارے اندر اتنی جرات نہیں تھی کہ ہم باہر نکلتے کیونکہ باہر مسلسل شور شرابہ ہو رہا تھا اور دروازے پر لاتیں ماری جا رہی تھیں۔‘ورشا کہتی ہیں کہ اس وقت پاکستانی طلبہ صدمے میں ہیں۔ ’ہمارے ماں باپ، بہن بھائی پریشان ہیں۔ اس وقت کسی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔‘تشدد کا نشانہ بننے والی طالبہ کائنات ملک کہتی ہیں کہ وہ اس واقعے کو ساری زندگی نہیں بھول سکیں گی۔ ’مجھے میری والدہ کہتی ہیں کہ بس اب اور نہیں پڑھنا اور فوراً واپس آجاؤ۔۔۔ میری والدہ نے سب کچھ میری تعلیم پر لگا دیا۔ اب کیا ہوگا یہ سوچ کر میں پریشان ہوں۔‘

کرغزستانی حکومت اس حوالے سے کیا کر رہی ہے؟

کرغزستان کے سرکاری میڈیا ’کابار‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ملک کے وزرا کی کابینہ نے سوشل نیٹ ورکس پر غلط معلومات پھیلنے کے باعث نسلی بنیادوں پر تشدد اور بدامنی کو ہوا دینے کی کوششوں کی شدید مذمت کی ہے۔کابینہ نے غیر ملکی طلبا کے خلاف مبینہ قتل اور تشدد کے بارے میں بین الاقوامی پریس میں جھوٹی رپورٹس کی بھی تردید کی ہے۔کیبنٹ آکی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم کی مکمل چھان بین کر رہے ہیں او رتمام مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔کابار نے مزید رپورٹ کیا ہے کہ بشکیک کی بودینوگو سٹریٹ پر ایک ہاسٹل کے قریب ہونے والی لڑائی کے بعد پولیس نے چار غیر ملکیوں کو حراست میں لیا ہے۔ ان افراد پر ہنگامہ آرائی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔تاہم دوسری جانب بشکیک میں پاکستانی سفیر حسن زیغم اور کرغزستان کے نائب وزیرخارجہ الماز امنغازیف کے مابین ہونے والی ملاقات میں پاکستانی فریق کو گذشتہ روز کے واقعے میں غیر ملکیوں کے ملوث ہونے اور کرغزستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لیے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ انھوں نے پاکستانی سفیر سے اپیل کی کہ اس واقعے کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں پھیلائی جانے والی غلط خبروں کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائیں۔نائب وزیر نے سفیر کو یقین دلایا کہ صورتحال اب حکام کے کنٹرول میں ہے۔

پاکستانی حکومت کا ردِعمل

،تصویر کا ذریعہ@CMShehbazپاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انھیں بشکیک، کرغزستان میں پاکستانی طلبا کی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ انھوں میں نے پاکستان کے سفیر کو ہدایت کی ہے کہ وہ طلبا کو تمام ضروری مدد فراہم کریں۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میرا دفتر بھی سفارت خانے کے ساتھ رابطے میں ہے اور مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت نے بشکیک میں پاکستانی طلبا کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کرغیز حکام سے رابطہ کیا ہے۔ نائب وزیراعظم نے طلبا پر ہجوم کے حملوں کی رپورٹس کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیتے ہوئے کرغزستان میں پاکستان کے سفیر کو ہدایت کی کہ وہ انھیں مکمل سہولت فراہم کریں۔اس سے قبل دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کرغزستان میں پاکستان کے سفیر کا پیغام شئیر کرتے ہوئے کہا کہ سفارتخانہ پاکستانی طالب علموں کی سہولت کے لیے کرغیز حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سفیر اور ان کی ٹیم کے لیے پاکستانیوں کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر کرغزستان میں پاکستان کے سفیر حسن زیغم نے لکھا کہ بشکیک میں طلبا کے ہاسٹلوں کے آس پاس ہجوم اور تشدد کے مدِنظر سفارت خانے نے بشکیک میں تمام پاکستانی طلبا کو ہدایت کی ہے کہ صورتحال معمول نہ آنے تک باہر نہ نکلیں اور اندر ہی رہیں۔انھوں نے مزید بتایا کہ ہم اپنے طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔،تصویر کا ذریعہSocial Media

اس واقعے کا پس منظر کیا ہے؟

بی بی سی نے کرغزستان کی مقامی میڈیا رپورٹس کا جائزہ لیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ گذشتہ شب بشکیک میں مقامی افراد کی جانب سے مظاہرہ کیوں کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس مظاہرے کا تعلق 13 مئی کے ایک واقعے سے ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 13 مئی کو بشکیک کے مصطفیٰ کیفے کے اردگرد ہاسٹلوں میں سے ایک میں غیر ملکیوں کی جانب سے متعدد مقامی باشندوں کو زد و کوب کرنے اور مارنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ پولیس کو اطلاع دی گئی کہ ہاسٹل میں رہنے والوں اور مہمانوں کے درمیان لڑائی ہوئی ہے۔اس حوالے سے ٹیلی گرام پر پولیس نے بتایا کہ وہ ہاسٹل میں ہونے والی لڑائی کے بارے میں جانتے ہیں۔ تمام افراد کو پولیس سینٹر لے جایا گیا جہاں انھوں نے اپنے اپنے بیان دیے۔ٹیلی گرام پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تنازعہ کی وجوہات کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس کی تحقیقات جاری ہیں۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 13 مئی کے واقعے کے بعد بشکیک میں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کئی خبریں پھیلیں جس نے مقامی افراد کو غیر ملکیوں کے حوالے سے مشتعل کیا۔پھر 17 مئی کی شام سینکڑوں افراد طلبہ کے ہاسٹل کے قریب احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ بشکیک میں میڈیکل یونیورسٹیوں کے کچھ ہاسٹلز اور پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے طلبہ کی نجی رہائش گاہوں پر حملے کیے گئے۔ ان ہاسٹلز میں انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے طلبہ رہائش پذیر ہیں۔مار پیٹ کا نشانہ بننے والے طلبہ میں پاکستانیوں اور انڈین سمیت دیگر ایشیائی، مصری طلبا اور غیر ملکی بھی شامل تھے۔کرغزستان کے مقامی میڈیا کے مطابق اس ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ درج کیا۔ قانون نافذ کرنے والے افسران نے تصادم میں شریک افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود مظاہرین کی تعداد بڑھتی گئی اور تقریباً تین سو افراد ہاسٹلوں کے باہر جمع ہو گئے جس کے بعد پوری پولیس فورس کو طلب کر لیا گیا اور تقریباً 50 مظاہرین کو حراست میں لیا گیا تھا جنھیں بعد میں رہا کر دیا۔بشکیک میں مظاہروں کی وجہ سے کچھ سڑکیں بلاک کر دی گئیں تھیں۔مقامی میڈیا کے مطابق دوپہر دو بجے تک مظاہرین منتشر نہیں ہوئے بلکہ ان کی تعداد بڑھ کر 500 ہو گئی اور انھوں نے سوشل میڈیا پر ایسی افواہیں پھیلانا شروع کیں جن میں کہا گیا کہ ’غیر ملکیوں کے ساتھ لڑائی میں ایک مقامی کی ہلاکت ہو گئی ہے۔‘ پولیس کے مطابق یہ جھوٹی خبر تھی۔گذشہ شب تقریباً تین بجے مقامی میڈیا نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ مظاہرین کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہو چکی ہے جو مارپیٹ اور لوٹ مار کر رہے ہیں۔جس کے بعد پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے۔ مرکزی داخلی امور کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ عظمت ٹوکٹونالیف نے وعدہ کیا کہ تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جس کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}