غزہ جنگ کا فیصلہ کُن مرحلہ اور حکومتوں کو درپیش بڑے سوالات: کیا ایران اور حزب اللہ اسرائیل کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنغزہ میں موجود ایک فلسطینی بچہ

  • مصنف, جیریمی بوون
  • عہدہ, انٹرنیشنل ایڈیٹر، شمالی اسرائیل
  • 45 منٹ قبل

مختصر تنازعات کے علاوہ تمام ہی بڑی جنگوں میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب قتل و غارت گری کا سلسلہ ایک نہ تبدیل ہونے والا معمول بن جاتا ہے۔ اس دوران ایسے بھی لمحات آتے ہیں، جیسے گذشتہ کچھ دنوں سے مشرقِ وسطیٰ میں ہو رہا ہے، جب کچھ واقعات جنگ میں مصروف فریقین اور ان کے اتحادیوں کو ایک ایسے چوراہے پر لاکھڑا کرتے ہیں جہاں انھیں کچھ بڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔یہ ایک ایسا وقت ہے جب دُنیا بھر میں حکومتوں، اسرائیل، امریکہ، ایران، یورپی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی افواج اور بیروت میں حزب اللہ کے مسلح جتھوں کو ایسے ہی فیصلوں کے انتخاب کا سامنا ہے۔غزہ میں فلاحی کارکنان کی ہلاکت سے شاید امریکہ سمیت اسرائیل کے دیگر اتحادیوں کا صبر جواب دے جائے۔

اسرائیل اور مصر نے غزہ میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے اور اگر کبھی اجازت دی بھی جاتی ہے تب بھی صحافیوں کے یہ دورے اسرائیلی فوج کی نگرانی میں ہوتے ہیں اور انتہائی مختصر ہوتے ہیں۔جنگ میں مصروف فریقین کو یہ سوچنا ہو گا کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں جنگ میں ہار اور جیت کا اندازہ عموماً حقیقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اس کو دیکھنے کے طریقے سے بھی لگایا جاتا ہے۔ صحافیوں کو جنگ کے مقام تک رسائی اس وقت ہی نہیں دی جاتی جب جنگ میں مصروف فریقین کچھ چُھپا رہے ہوں۔لیکن غزہ میں غیرملکی صحافیوں کی عدم موجودگی کے باوجود بھی ایسے ثبوتوں کا انبار لگ رہا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنے دعوؤں کے برعکس جنگی قوانین کی پاسداری نہیں کر رہا جس کے تحت وہ عام لوگوں کی زندگیوں اور قحط کے دوران کام کرنے والے فلاحی اداروں کے کارکنان کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کا پابند ہے۔غزہ میں فلاحی ادارے ’ورلڈ کچن‘ کے کارکنان کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے عوامی سطح پر اسرائیلی اقدامات کی سخت مذمت کی گئی ہے۔اب امریکی صدر اور اُن کے مشیروں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسرائیل کی کارروائیوں پر صرف اُن کا زبانی جمع خرچ کافی ہو گا یا نہیں۔ اب تک اُن کی جانب سے غزہ میں امریکی ہتھیاروں کے استعمال یا اسرائیل کو ہتھیار مہیا کرنے پر پابندی کے مطالبات پر مزاحمت کی گئی ہے۔اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کو اپنے منصب پر ٹِکے رہنے کے لیے سخت گیر قدامت پسند یہودیوں کی حمایت درکار ہے۔ اسرائیل کے پاس ہتھیار اب بھی پہنچ رہے ہیں اور شاید بنیامین نیتن یاہو کو ایسا محسوس ہونے لگا ہو کہ وہ اس صورتحال میں بھی امریکی صدر کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ایسے میں اسرائیل کا رفح میں حماس پر حملہ کرنے کا منصوبہ اور غزہ پر حملوں میں اضافہ کرنا امریکہ کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔انتخابات کے سال میں امریکی مفادات اور جو بائیڈن کے سیاسی مستقبل کو پہلے ہی اسرائیل کی وجہ سے بڑا دھچکہ لگا ہے کیونکہ متعدد ممالک میں امریکہ کو اسرائیل کا ساتھی ہی تصور کیا جا رہا ہے۔رواں ہفتے ہرنیا کے آپریشن کے دو دن بعد اسرائیلی صدر اپنے دفتر واپس آ چکے ہیں اور اس موقع پر انھیں ایک بڑے احتجاجی مظاہرے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بنیامین نیتن یاہو بطور وزیرِاعظم استعفیٰ دیں اور نئے پارلیمانی انتخابات کا اعلان کریں۔اسرائیل میں گذشتہ برس 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیلیوں نے آپسی سیاسی اور ثقافتی اختلافات فراموش کر دیے تھے، تاہم یہ اختلافات اب دوبارہ سامنے آنے لگے ہیں اور اس کے اثرات سڑکوں پر بھی نظر آ رہے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم سیاسی مشکلات کا شکار ہیں اور ان کے مخالفین پر ملک کی حفاظت میں ناکامی کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنمظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بنیامین نیتن یاہو بطور وزیرِاعظم استعفیٰ دیں
اسرائیل میں لاکھوں افراد سمجھتے ہیں کہ اسرائیل ایک انصاف پر مبنی جنگ لڑ رہا ہے لیکن انھیں بنیامین نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل وزیرِاعظم احتساب سے بچنے کے لیے جنگ کو طول دے رہے ہیں، وہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کروانے میں ناکام رہے ہیں اور انھوں نے صدر بائیڈن سمیت اسرائیل کے اتحادیوں کو ناراض کر دیا ہے۔اس میں یہ بات بھی شامل کر لیں کہ چھ مہینے گزر جانے کے باوجود بھی حماس جنگ جاری رکھنے کے قابل ہے اور غزہ میں اس کے سینیئر رہنما یحییٰ سنوار ابھی بھی زندہ ہیں۔شام کے دارالحکومت دمشق میں سینیئر ایرانی جرنیل کی ہلاکت نے مشرقِ وسطیٰ میں نیا بحران پیدا ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے اور ایران میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیلی فضائیہ نے کی ہے۔یہ ان اسرائیلی خفیہ اداروں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے جو چھ مہینے پہلے حماس کے حملوں کو روکنے میں ناکام ہوئے تھے۔ اس سے خطے میں جاری جنگ میں شدت آ سکتی ہے۔اس کے نتائج شاید وہاں بھی نظر آئیں جہاں (گولان ہائٹس کے قریب) میں بیٹھا ہوا یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ یہ جنوبی شام کا وہ حصہ ہے جس پر1967 کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کیا تھا۔دمشق یہاں سے تقریباً 50 میل دور ہے جبکہ لبنان کی سرحد بھی پاس ہی ہے۔ رات میں اکثر یہاں اسرائیلی فضائیہ متحرک نظر آتی ہے، کبھی جنگی جہاز دھاڑ رہے ہوتے ہیں یا لبنان اور شام پر بم برسا رہے ہوتے ہیں۔غزہ میں جاری جنگ کے علاوہ یہاں گذشتہ برس اکتوبر سے ایک اور جنگ بھی جاری ہے۔ اس جنگ کی ابتدا لبنان کی سیاسی اور عسکری تنظیم حزب اللہ سے ہوئی جس نے غزہ میں حماس کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کیا۔یہ اس طرز کے حملے نہیں تھے جس کی توقع حماس کی قیادت کر رہی تھی کیونکہ حزب اللہ اور ایرانی قوتیں اسرائیل اور اس کے حامی امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ایسا امریکہ بھی نہیں چاہتا تھا اور اس لیے اس نے اسرائیل کو پوری قوت استعمال کرنے سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی۔لیکن اس کے باوجود بھی حزب اللہ نے ہزاروں اسرائیلی فوجیوں کو تنگ کر کے رکھ دیا اور سرحدی علاقوں سے تقریباً 80 ہزار افراد کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیل نے ماضی کے مقابلے میں حزب اللہ کے حملوں پر محدود ردِ عمل دیا لیکن اس کے باجود بھی لبنان کے سرحدی علاقوں میں مقیم افراد کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔گذشتہ برس سے جنگ میں اسرائیل کی طرف سے کمی یا شدت لائی جا رہی تھی اور لبنان اور شام میں حملے کیے جا رہے تھے۔ لیکن رواں ہفتے کے آغاز میں شامی دارالحکومت میں ایرانی سفارتخانے پر ہونے والے حملے میں ہلاکتوں نے اس تنازع کا منظر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے
شمالی اسرائیل میں انٹرویوز کے دوران نہ صرف حکام بلکہ رہائشی بھی ایرانی جرنیل کو ہلاک کرنے کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اس بات کے بھی حامی ہیں کہ حزب اللہ کو تباہ کرنے کے لیے جنوبی لبنان پر حملہ کیا جائے اور اس کے عسکریت پسندوں کو سرحد سے دور دھکیلا جائے۔بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں اسرائیل نے اپنے شمالی علاقوں کی حفاظت کرنے کے لیے جنوبی لبنان کی ایک وسیع پٹی پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی لبنانی فورس بھی تیار کی تھی۔لیکن اسرائیل کو سنہ 2000 میں اس پٹی کا قبضہ چھوڑنا پڑا کیونکہ حزب اللہ نے ان کی نام میں دم کر کے رکھ دیا تھا۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے فیصلہ کیا تھا جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے سے اسرائیل مزید محفوظ نہ ہو سکا اور اس دوران ان کے فوجیوں کی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔میں پچھلے دنوں شراب کے ایک کارخانے کے کھنڈر کے پاس سے گذرا تھا جسے گذشتہ ہفتے حزب اللہ کی کارروائی میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے مالک شلومی بیتون نے مجھے اس کھنڈر کا دورہ کروایا۔ان کی عمر 47 برس ہے اور وہ شمالی اسرائیل کے علاقے اویوم میں پیدا ہوئے تھے جو کہ اب جنگ کے سبب تقریباً خالی ہو چکا ہے۔ انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے دوران لبنان میں جنگ بھی لڑی تھی اور اب ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل میں انسانی زندگیاں محفوظ بنانے کا واحد حل لبنان میں حزب اللہ کے خلاف فیصلہ کُن جنگ ہے۔انھوں نے مجھے بتایا کہ ’اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ورنہ ہمارر برادری اس علاقے میں دوبارہ رہنے آئے گی۔ شاید مجھ جیسے چند پاگل لوگ یہاں آ جائیں لیکن بچے واپس نہیں آئیں گے۔‘کریت شمونا بھی ایک اسرائیلی سرحدی قصبہ ہے جہاں ایک وقت میں 25 ہزار لوگ رہا کرتے تھے لیکن اب صرف 3 ہزار افراد رہ گئے ہیں جن میں بڑی تعداد فوجیوں اور سرکاری کارکنان کی ہے۔یہاں کے میئر نے مجھے سُنسان علاقے اور تباہ شدہ عمارتیں دکھائیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے شمال میں حزب اللہ کے خطرے کو ختم کر سکتا ہے اگر وہ وہاں بھی غزہ کی طرز پر فیصلہ کُن جنگ کا آغاز کر دے۔
،تصویر کا کیپشنکریت شمونا بھی ایک اسرائیلی سرحدی قصبہ ہے جہاں ایک وقت میں 25 ہزار لوگ رہا کرتے تھے
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس حزب اللہ کے تقریباً 10 ہزار جنگجوؤں نے شمالی اسرائیل پر قبضہ کرنے کی مشقیں کی تھیں۔میئر اویچن سٹرن کا کہنا ہے کہ ’غزہ کی طرح ایسا یہاں بھی ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ بیروت میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی تیاری نہیں کر رہے تھے، ان کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ لبنان کے اندر جا کر جلد از جلد از خطرے کا خاتمہ کیا جائے۔‘اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحدی علاقے بہار کے موسم کے ابتدائی چند ہفتوں میں انتہائی خوبصورت لگتے ہیں۔ ان اوقات میں یہاں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ پیدل چلتے وقت پاؤں تلے پھول آتے ہیں نہ کہ گولیوں کے خول اور بم۔ایران اور حزب اللہ اس وقت یہ فیصلہ کرنے میں مصروف ہیں کہ دمشق میں ایرانی سفارتخانے میں ہونے والی ہلاکتوں پر کیا ردِعمل دیا جائے۔ دونوں کی جانب سے کوئی ایسا ردِعمل دینے کی کوشش کی جائے گی جس سے ایک باقاعدہ جنگ سے بچا جا سکے۔اسرائیل بھی ایران اور حزب اللہ کے ساتھ باقاعدہ جنگ نہیں چاہتا۔ ایسے میں ایران ایسا ردِعمل دینے کی کوشش کرے گا جس سے اسرائیل کو مستقبل میں ایسے حملے کرنے سے روکا جا سکے، اور یہ ردِ عمل ایسا ہو سکتا ہے جس سے اسرائیل حیران رہ جائے۔اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ایران اپنا ردِعمل دینے کے لیے اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں آباد لوگوں کو نشانہ بنانے کا انتخاب کرے۔ وہ کسی اور ملک میں کسی اسرائیل ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حملے کے لیے میزائلوں کے بجائے سائبر ہتھیاروں کا استعمال کرے، یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کی جانب سے اس کا جوہری پروگرام مزید تیز کر دیا جائے۔اس دوران اموس ہوچسٹین نامی ایک امریکی سفارتکار اقوامی متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک پُرانی قرار داد کو زندہ کرنے کی کوشش کر ر ہے ہیں جس کے سبب 2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔وقت کے اس چوراہے پر اسرائیل، ایران اور حزب اللہ تینوں ہی جنگ نہیں چاہتے کیونکہ اس کے سنگین نتائج ہوں گے، لیکن کوئی بھی فریق اس چوراہے کی طرف سفر روکنے کو تیار نہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}