ماسکو حملے کے تاجک ملزم کے گاؤں میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟ ’اسے اتنا مارا گیا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو بھی تیار ہو سکتا ہے‘
- مصنف, سہراب ضیا
- عہدہ, بی بی سی فارسی
- 9 منٹ قبل
بی بی سی فارسی کے نامہ نگار سہراب ضیا نے تاجکستان کے اس گاؤں کا دورہ کیا ہے جہاں ماسکو حملے کے مشتبہ افراد میں سے ایک کا گھر ہے اور ان لوگوں سے بات کی جو ملزم فریدونی شمس الدین کو جانتے تھے۔ انھوں نے روس جانے والے تاجک تارکین وطن سے بھی بات کی۔ماسکو کے کانسرٹ ہال پر کیے جانے والے حملے کے چار ملزمان کو اتوار کے روز روس کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ عدالتی کارروائی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تاجکستان سے تعلق رکھنے والے چاروں ملزمان پر تشدد کیا گیا تھا اور وہ زخمی حالت میں تھے۔ ان چاروں ملزمان پر گذشتہ جمعے کو کروکس سٹی ہال پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے جس میں کم از کم 139 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ عدالت میں ہونے والی سماعت کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چاروں ملزمان، جن کے نام دلیردزون مرزویف، سید اکرمی مراد علی رجب علیزادے، شمس الدین فریدونی اور محمد صابر فیاضوف ہیں۔ وہ کمرہ عدالت میں تکلیف کے باعث دوہرے (جھکی ہوئی حالت) میں دکھائے گئے۔
روسی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ملزمان پر تفتیش کے دوران کیے جانے والے شدید تشدد کی ویڈیوز بھی ممکنہ طور پر لیک کی تھیں، جس میں رپورٹس کے مطابق کم از کم ایک شخص کو بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے۔25 سالہ شمس الدین فریدونی کاچہرہ بری طرح سوجا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ شمس الدین پر پیر کو گرفتار کیے جانے والے دو دیگر افراد کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا بھی الزام ہے۔بی بی سی فارسی کے نامہ نگار سہراب ضیا نے تاجکستان میں اس علاقے کا دورہ کیا جہاں شمس الدین کا خاندان رہتا ہے۔شمس الدین کا تعلق تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے تقریباً 40 کلومیٹردور شمال مغرب میں واقع لیوب نامی گاؤں سے ہے۔لیوب ایک پہاڑی گاؤں ہے جہاں زمین خشک ہے اور وہاں کی آب و ہوا معتدل ہے اور آس پاس کوئی دریا نہیں ہے۔ گاؤں کے نوجوان بنیادی طور پر زراعت اور تعمیرات یا مقامی بازار میں کام کاج کرتے ہیں۔سنیچر کے روز تاجک سکیورٹی فورسز کو علاقے میں دیکھا گیا تھا جو ملزم کے والد کو مبینہ طور پر پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔گاؤں کے ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ شمس الدین کا بیٹا پہلی بار چھ ماہ قبل گاؤں کے درجنوں افراد کی طرح روس چلا گیا تھا۔شمس الدین روس منتقل ہونے والے ہزاروں افراد میں سے ایک ہے۔ بہت سے تاجک ملک میں کم اجرت اور بے روزگاری کی بلند سطح کے باعث روس کا سفر کرتے ہیں۔تاجک حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال چھ لاکھ 52 ہزار سے زائد افراد روس چلے گئے لیکن روسی حکام کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔اس مقامی شخص نے مزید بتایا کہ تین ماہ کے بعد شمس الدین روس سے ترکی گیا جہاں سے اس کی واپسی مارچ کے اوائل میں ہوئی۔،تصویر کا ذریعہReuters
ایشیائی ممالک کے لوگوں کے لیے ویزا فری انٹری کو ختم کرنے کی تجویز
روس میں کام کرنے والے تاجک شہریوں کو جمعہ کے حملے کے بعد سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ماسکو میں ایک تاجک تارکین وطن کارکن نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنے علاقے میں سکیورٹی کی موجودگی میں اضافہ دیکھا ہے، اور پولیس ایشیائی چہرے والے افراد کی دستاویزات کا معائنہ کرتی ہے جبکہ بغیر کاغذات کے ڈی پورٹ ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی پریشان دکھائی دیے۔ انھوں نے بتایا کہ ’چونکہ حملے کے مجرموں کی شناخت تاجکستان کے شہریوں کے طور پرہوئی ہے، اس سے روسیوں کی تاجکوں کے لیے نفرت مزید بڑھ سکتی ہے۔‘تاجکستان میں تقریباً ہر خاندان کے ایک یا زیادہ افراد روزگار کے لیے روس چلے گئے ہیں۔ تاجک تارکین وطن کی طرف سے گھر بھیجی گئی رقم کو اس چھوٹے سے غریب وسطی ایشیائی ملک کی معیشت میں استحکام کا ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے اور اس سے تاجکستان میں ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔تعمیراتی کام سے وابستہ 40 سالہ ایراج اشوروف اپنے دو بھائیوں اور اپنے بیٹوں کے ساتھ کام کے لیے اکثر روس جاتے ہیں۔وہ حال ہی میں تاجکستان میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے وطن واپس آئے لیکن وہ اس بارے میں پریشان ہیں کہ وہ ماسکو میں ہونے والے قتل عام کے بعد اب واپس روس جائیں یا نہیں۔’میں ایک ماہ قبل روس سے واپس آیا تھا اور دوبارہ ماسکو جانے والا تھا۔ لیکن اس حالیہ واقعے کے بعد میں اپنے بھائیوں کی قسمت کے بارے میں فکر مند ہوں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عام طور پر ایسے معاملات میں نقل مکانی کر کے آنے والے افراد پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔‘ولادیمیر پوتن کے اہم اتحادی روسی سیاست دان سرگئی میرونوف نے’قومی سلامتی کو مضبوط بنانے‘ کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کے لوگوں کے لیے ویزا فری انٹری کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ان کا خیال ہے کہ روسی حکومت کو دہشت گردی کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نقل مکانی کے عمل پر کنٹرول سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
داعش تاجکوں کو کیسے بھرتی کرتی ہے؟
،تصویر کا ذریعہAFP
افغانستان کا کردار
تاجکستان کی سرحد جنوب میں افغانستان سے ملتی ہے اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگست2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں آئی ایس اور القاعدہ جیسی تنظیموں اور گروپوں کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کی تازہ ترین رپورٹ میں، افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی زیادہ تعداد کو اب بھی علاقائی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا ایک عنصر بتایا گیا ہے۔کلیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او)، روس کی قیادت میں ایک فوجی بلاک، جس میں بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، آرمینیا (جس نے حال ہی میں اپنی رکنیت معطل کر دی ہے) اور تاجکستان شامل ہیں، نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اس نے آئی ایس کے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے۔ اور دیگر اسلامی عسکریت پسند تاجکستان کی جنوبی سرحدوں پر موجود ہیں۔تنظیم کے مطابق ان گروپوں کے تربیتی کیمپوں کا نیٹ ورک بھی پھیل رہا ہے اور ان کے غیر ملکی جنگجوؤں کی اکثریت تاجکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے شمالی علاقوں میں مرکوز ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.