- مصنف, مائلز بونر اور کیلم میک کے
- عہدہ, بی بی سی سکاٹ لینڈ
- ایک گھنٹہ قبل
جیڈ سکیا ایک کم عمر لڑکی تھیں جب وہ پہلی مرتبہ سحرانگیز تاجر کِم ایوس سے ملیں لیکن انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ ملاقات انھیں تقریباً ایک دہائی پر محیط ایک رشتے سے جوڑ دے گی جس میں ان پر نہ صرف پابندیاں لگائی جائیں گی بلکہ انھیں تشدد بھی سہنا پڑے گا۔جیڈ کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ موت کا جھوٹا ڈرامہ، ایوس کی گرفتاری کے لیے بین الاقوامی چھاپے اور عدالتی کارروائیاں بھی اس کہانی کا حصہ ہوں گی۔پہلی بار جیڈ یہ کہانی سُنا رہی ہیں کہ کیسے انھوں نے اور دیگر خواتین نے ایوس کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔جیڈ کے لیے یہ کہانی 2000 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جب ایوس سکاٹ لینڈ کے شہر اینورنس میں جیولری کا ایک سٹال لگایا کرتے تھے، جہاں جیڈ اور ان کی دوستیں اکثر جایا کرتی تھیں۔
جیڈ کہتی ہیں کہ ایوس اس وقت فلاحی کاموں کے لیے مشہور تھے اور وہ اکثر مقامی میڈیا کی خبروں کی زینت ہوا کرتے تھے۔جس وقت جیڈ 18 برس کی عمر کو پہنچیں تو 40 برس کے ایوس اور ان کی ملاقاتیں بھی بڑھنے لگیں۔جیڈ کا کہنا ہے کہ ’وہ دیگر بڑے عمر کے افراد کی طرح نہیں تھے بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہم میں سے ہی ایک ہیں۔‘جب ان دونوں کا رشتہ سنجیدگی اختیار کر گیا تو ایوس نے جیڈ کو ان کے خاندان اور دوستوں سے دور کر دیا۔جیڈ کا کہنا ہے کہ ’اب جب میں ماضی کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے تنہا کر دینا ان (ایوس) کے منصوبے کا حصہ تھا۔‘
جیڈ کا پولیس سے رابطہ
ابھی ان دونوں کا رشتہ تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ جیڈ کو ایوس کی شخصیت کا سیاہ رُخ بھی نظر آنے لگا۔ ’وہ ایک رات مجھ سے ملنے آئے اور ان کا برتاؤ عجیب سا تھا۔ وہ کسی بات پر ناراض تھے۔‘جیڈ کہتی ہیں کہ ’وہ ٹریلر کے باہر ایک میز پر چڑھ گئے اور بھیڑیے اور دیگر جانوروں کی عجیب سی آوازیں نکالنے لگا۔‘ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ایوس نے پہلی بار ان کا ریپ کیا۔اس کے بعد ایوس نے ’ولف ڈین‘ کے نام سے مشہور اپنے گھر میں جیڈ کو متعدد مرتبہ نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ان کا ریپ بھی کیا۔جیڈ کے مطابق ’مجھے یاد ہے کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ سب کبھی ختم نہیں ہو گا اور میری زندگی ہمیشہ ایسی ہی گزرے گی۔‘لیکن 2015 میں یہ سب کچھ جیڈ کی برداشت سے باہر ہو گیا اور انھوں نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا۔جیڈ کہتی ہیں کہ ’ایوس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ میں ان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروا دوں گی۔ وہ شاید اس بات پر کافی حیران بھی ہوں گے۔‘جیڈ کے پولیس کے پاس پہنچنے کے بعد تین مزید خواتین بھی سامنے آئیں اور انھوں نے بتایا کہ کس طرح سے ایوس دہائیوں تک ان کا ریپ اور ان پر تشدد کرتے رہے۔ان میں سے دو خواتین، اس وقت کمسن بچیاں تھی جب ایوس نے ان کا ریپ کیا۔جیڈ کے مطابق ’جب مزید لوگ بھی سامنے آئے تو اس وقت ایوس کو لگا کہ ان کی زندگی میں زلزلہ سا آ گیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہRobin Gillanders
ملزم کا موت کا ڈرامہ
اس کے بعد ایوس پر ریپ اور تشدد کے متعدد مقدمات درج کیے گئے اور انھیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے مقدمات کی سماعت مارچ 2019 میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور انھیں ضمانت پر رہا کردیا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ایوس دوبارہ عدالت کے سامنے پیش ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ایوس نے فوراً اپنا گھر 2 لاکھ 45 ہزار پاونڈ میں فروخت کردیا، ٹکٹ خریدے اور امریکی ریاست کیلیفورنیا فرار ہو گئے۔جہاں ایوس رہ رہے تھے اسے مقامی لوگ ’مورچوری بیچ‘ کہتے تھے کیونکہ وہاں لوگوں کے ڈوبنے کے واقعات اکثر رونما ہوا کرتے تھے۔ یہ ہی جگہ تھی جہاں ایوس نے پولیس اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ رچایا۔جیڈ کہتی ہیں کہ ’اس وقت ایوس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔ جب اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہو گا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔‘ایوس کا سب سے بڑا بیٹا ان کے ساتھ امریکہ میں ہی تھا اور اس نے پولیس کو اپنے والد کی گمشدگی کی اطلاع دی۔ لیکن تین دن کی تلاش کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ ڈوبنے کی اطلاع صرف ایک جھوٹ تھی اور متعدد ریپ کا ملزم اب بھی قانون سے فرار کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔کیلیفورنیا میں مقامی پولیس کے پاس موجود دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گمشدگی کی اطلاع ملنے کے تین بعد ایوس کو کیلیفورنیا کے ساحل پر دیکھا گیا تھا۔ایک عینی شاہد نے پولیس کو بتایا کہ ایوس ’پاگل سکاٹ مین‘ کی طرح لگ رہا تھا جبکہ ایک دوسرے عینی شاہد کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ کیسے حال ہی میں گمشدہ شخص مونٹانا جا رہا ہے جہاں اس نے اپنے لیے گھر خریدا ہے۔
ایوس کیسے قانون کی گرفت میں آیا؟
کچھ مہینوں کے بعد ایک مشکوک سا شخص کولاراڈو سپرنگز میں ایک سٹال پر آیا جہاں پتھر اور نگینے فروخت کیے جا رہے تھے۔ یہ مقام اس جگہ سے تقریباً 13 سو کلومیٹر دور تھا جہاں ایوس گمشدہ ہوئے۔اس شخص نے اپنا تعارف کیمرون میک گریگر کے نام سے کروایا اور اس سٹال پر تقریباً تین ہزار ڈالر خرچ کیے۔سٹال کی ماملک اینجی کہتی ہیں کہ ’اس کی شخصیت مبہم سی تھی، مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔‘یہ شخص خود کو سکاٹش شہری بتا رہا تھا اور اس کی پُشت پر بھیڑیے کا نامکمل ٹیٹو بھی بنا ہوا تھا۔اینجی کا کہنا ہے کہ اس شخص کے پاس ہر وقت خطیر رقم موجود ہوتی تھی۔’وہ ہمیشہ پیسے خرچ کر رہا ہوتا تھا۔ وہ ہر کسی کو کھانا کھلا رہا ہوتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کہ وہ دوست خرید رہا ہو۔‘اس نے اینجی کو یہ بھِی بتایا کہ وہ امریکی شہری ہے۔انیجی کہتی ہیں کہ ’میں نے اسے کہا کہ مجھے اپنا پاسپورٹ دِکھاؤ اور اس بات پر وہ غصے میں آگیا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.