اغواکاروں سے مذاکرات: وہ شخص جو بغیر معاوضہ لیے ’نرم لہجے میں بات کر کے‘ یرغمالیوں کو رہا کرواتا ہے،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, پریا سپی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کرنے والے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ تاوان کی ادائیگی غیر قانونی ہو سکتی ہے لیکن شمالی نائیجیریا میں یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے بہت سے خاندان اپنے اغوا کیے گئے رشتہ داروں کی رہائی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔سلیمان (فرضی نام) کا تعلق ریاست کدونا سے ہے اور اس ریاست کے علاقے کوریگا کے ایک سکول سے حال ہی میں 280 بچوں کو اغوا کیا گیا۔ سلیمان اس متنازع اور خطرناک کردار میں غیر رسمی طور پر اس وقت سے کام کر رہے ہیں جب کچھ برس قبل ان کے کچھ رشتہ داروں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں بات کرنا ہوتی ہے۔ آپ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کر سکتے اور ایسا کرنے سے ہم اپنے پیاروں کی جانیں خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘

سلیمان 2021 میں پہلی بار اغوا کاروں کے ساتھ مذاکرات کا حصہ بنے اور اس سے صرف ایک سال قبل ہی نائجیریا میں تاوان کی ادائیگی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔سلیمان کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برس کے دوران وہ تقریباً 200 یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہونے والے مذاکرات کا حصہ بنے۔سلیمان کہتے ہیں کہ ’حکومت سمجھتی ہے کہ میں ڈاکوؤں (اغواکاروں) کی مدد کر رہا ہوں جبکہ اغوا کار سمجھتے ہیں کہ میں حکومت سے پیسے لے رہا ہوں۔ تو میں بھی اغوا کاروں کا ٹارگٹ بن جاتا ہوں۔‘وہ پہلی بار مذاکرات کا حصہ اس وقت بنے جب وہ اغوا کیے گئے اپنے دو رشتہ داروں کی رہائی کے لیے تقریباً ساڑھے بارہ ہزار ڈالر کا تاوان جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔سلیمان کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں صرف ڈاکوؤں سے بات کر رہا تھا اور ان کی منت سماجت کر رہا تھا۔‘لیکن اغواکاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کا صبر کام آیا اور آخر کار ان کے رشتہ داروں کو چھوڑ دیا گیا تاہم سلیمان کو تاوان کی رقم ادا کرنے کے لیے گاؤں میں اپنا ایک فارم بیچنا پڑا۔جب یہ بات باہر نکلی کہ سلیمان اپنے رشتہ داروں کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو بہت سے دوسرے متاثرہ خاندان ان کے پاس مدد کے لیے آئے۔ جلد ہی ان کا فون ہر وقت مصروف رہنے لگا۔وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے گاؤں میں تقریباً ہر خاندان سے ہی کوئی نہ کوئی شخص اغوا ہو چکا تھا‘ تاہم سلیمان کے مطابق وہ یہ کام بغیر کسی معاوضے کے کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہAFPاور تاوان کی ادائیگی غیر قانونی ہونے کے باوجود لوگ ان کے پاس مدد کے لیے آتے ہیں۔سلیمان مانتے ہیں کہ یہ واقعی بہت خوفزدہ کر دینے والا کام ہے: ’حکومت ڈاکوؤں کے ساتھ مذاکرات کرنا پسند نہیں کرتی اور ایسا کرنے والوں کو جیل بھیج سکتی ہے۔‘سلیمان کے مطابق نائیجیریا میں ہونے والے اغوا کے ان واقعات کی بنیادی وجہ غربت اور نوجوان طبقے میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بے روزگاری ہے۔مویشی پالنے والوں اور کسانوں کے درمیان زمین اور وسائل کے لیے مقابلے نے بھی اس مسئلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکثر اغوا کاروں کا تعلق ایسے گروہوں سے ہے جو ماضی میں مویشی پالتے رہے ہیں اور اب وہ ان دیہات کو نشانہ بناتے ہیں جہاں ہاؤسا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کسان رہتے ہیں۔سلیمان بتاتے ہیں کہ ’جب میں ڈاکوؤں سے بات کرتا ہوں تو میں ان لوگوں کو سمجھتا ہوں۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ مذاکرات ہاؤسا زبان میں ہوتے ہیں حالانکہ زیادہ تر اغوا کاروں کی مادری زبان فلفلدے ہے اور یہ فلانے لوگوں کی مقامی زبان ہے۔اغواکاروں کے یہ گروہ اکثر موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار افراد پر مشتمل ہوتے ہیں جو مخبروں کے کہنے پر مخصوص خاندانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ پیسہ کمانے کا بہت بڑا اور جدید آپریشن ہے۔نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ڈیموکریسی اینڈ ڈویلپمینٹ کے مطابق شمال مغربی نائیجیریا میں 100 سے زیادہ گروہوں میں تقریباً 30 ہزار ڈاکو کام کرتے ہیں۔سلیمان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اغواکاروں کے لیڈر پر ہوتا ہے۔ ’بہت سے اغوا کار تاوان کی رقم وصول کرنے کے باوجود بھی یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرتے لیکن کچھ تاوان کی ادائیگی کے فوری بعد ہی یرغمالیوں کو رہا کر دیتے ہیں۔`یہ عمل مشکل ہو سکتا ہے، ایک یرغمالی کی رہائی میں 50 دن لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے 20 سے 30 فون کالز کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سلیمان بتاتے ہیں کہ ’آپ کو نرم لہجہ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ بدتمیزی بھی کر سکتے ہیں لیکن آپ کو پُر سکون رہنا ہوتا ہے۔‘ نائیجیریا میں کرنسی نوٹوں کی کمی کے باوجود اغوا کار تاوان کی رقم کیش میں فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ بینک ٹرانسفر کے ذریعے ان کا پتا لگانا بہت آسان ہوتا ہے۔سلیمان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ادائیگی عام طور پر یرغمالیوں کے والدین یا کسی رشتے دار کے ذریعے کی جاتی ہے۔‘’ڈاکو انھیں فون کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کس جگہ آنا ہے۔ تاوان کی رقم لینے کے بعد ڈاکو ہر نوٹ کی گنتی کرتے ہیں۔‘کبھی کبھی ڈاکو تاوان کی مد میں موٹر سائیکل، شراب اور سگریٹوں کا مطالبہ بھی کرتے ہیںسلیمان نے بتایا کہ تاوان کی ادائیگی غیر قانونی ہونے سے قبل جب سلیمان کے ایک قریبی جاننے والے کو دیگر طالب علموں کے ساتھ ایک یونیورسٹی سے اغوا کیا گیا تھا تو حکومت نے ہر طالب علم کی رہائی کے لیے تقریباً 2,370 ڈالر ادا کیے تاہم سرکاری طور پر اس کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی۔ سلیمان کہتے ہیں کہ ’حکومت کبھی یہ تسلیم نہیں کرے گی کہ انھوں نے تاوان کی رقم ادا کی کیونکہ یہ اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے برابر ہو گا لیکن بطور اندرونی ذرائع ہم یہ جانتے ہیں کہ کیا ہوا کیونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔‘سلیمان ان مذاکرات میں شامل ہوئے اور ان کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں نے پہلے ہر یرغمالی کے لیے تقریباً 32 ہزارڈالر کا مطالبہ کیا تھا لیکن پھر انھوں نے بات چیت کے بعد پیسے کم کر لیے۔ان دنوں دیہات میں بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جو تاوان کی مد میں ادائیگی کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ وہ اکثر تاوان کی رقم جمع کرنے کے لیے ’کراؤڈ فنڈنگ‘ ​ کرتے ہیں حالانکہ تباہ حال معیشت میں اب یہ بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ڈاکو یا تو یرغمالیوں کو جان سے مار دیتے ہیں یا ادائیگی کی کوئی امید نہ ہونے پر انھیں چھوڑ بھی دیتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسلیمان کے مطابق حالیہ عرصے میں سکولوں میں بڑے پیمانے پر اغوا کا سلسلہ اور طالب علموں کو قتل کرنے کی دھمکیاں حکام کو نوٹس لینے کے لیے مجبور کرنے کی چال ہو سکتی ہے۔ایسی اطلاعات ہیں کہ حکام تاوان ادا کر دیتے ہیں تاہم حکام کی جانب سے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی جاتی ہے۔حال ہی میں اغوا کیے گئے بچوں کے لیے صدر بولا احمد ٹنوبو نے کہا ہے کہ ان کی رہائی کے لیے کوئی رقم نہیں ادا کی جائے گی اور سکیورٹی فورسز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان کی رہائی کو یقینی بنائیں۔سکیورٹی خطرات پر کام کرنے والی ایک فرم ایس بی ایم انٹیلیجنس کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 اور جون 2023 کے درمیان مسلح گروہوں نے تاوان کی مد میں 60 لاکھ ڈالر کا مطالبہ کیا۔سلیمان حکام کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تاوان کی ادائیگی جاری رکھنے سے اغوا کے اس کاروبار کو تقویت ملے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تاوان کی ادائیگی سے اغواکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ڈاکو صرف پیسے کی تلاش میں ہیں۔‘لیکن سلیمان کا ماننا ہے کہ فوجی قوت کا استعمال بھی اس کا حل نہیں۔ ’میرا حکام کو مشورہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے ملیں اور بات چیت کریں۔‘اس وقت تک سلیمان کو ڈر ہے کہ اگلی بار جب ان کے فون کی گھنٹی بجے گی تو یہ اغوا کے ایک اور کیس کے بارے میں ہو گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}