- مصنف, فراس کیلانی اور مرسی جما
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 57 منٹ قبل
سوڈان کی خانہ جنگی میں پھنسے لوگوں نے بی بی سی کو ریپ، نسلی تشدد اور کھلے عام قتل کیے جانے کے واقعات بتائے ہیں۔ ہمارے صحافی دارالحکومت خرطوم کے قریب محاذِ جنگ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اس تنازعے کو ’چُھپی ہوئی جنگ‘ قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں ملک کو حالیہ تاریخ کے بدترین ڈراؤنے خواب‘ جیسے حالات سے گزر رہا ہے جبکہ دیگر حکام نے خبردار کیا ہے کہ یہ دنیا میں بھوک کے سب سے بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کے مغرب میں واقع دارفور کے علاقے میں، 20 سال پہلے کے ان حالات کا اعادہ ہو سکتا ہے جسے امریکہ نے نسل کشی قرار دیا تھا۔انتباہ: یہ مضمون جسمانی اور جنسی تشدد کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔———————————————————————————————-اچانک اومدرمان میں ایک زبردست دھماکے سے سڑک ہل جاتی ہے۔ لوگ چیختے ہیں اور ادھر اُدھر یہ چیختے ہوئے بھاگتے ہیں: ’واپس جاؤ، واپس جاؤ، ایک اور دھماکہ ہو سکتا ہے‘۔ گاڑھا دھواں ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔کچھ لمحے پہلے اس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر راہ گیر ان دکانوں سے چاول، روٹی اور سبزیاں خرید رہے تھے، جو حال ہی میں دوبارہ کھلنا شروع ہوئی تھی۔ فروری کے وسط میں، سوڈانی فوج نے اس شہر پر دوبارہ قبضہ کیا جو دریائے نیل کے کنارے ان تین میں سے ایک علاقہ ہے جو مل کر سوڈان کا وسیع دارالحکومت خرطوم بناتے ہیں۔ عام شہریوں نے اب واپس آنا شروع کر دیا ہے، لیکن جیسا مارٹر گولہ اس مرکزی سڑک کے بیچوں بیچ گرا، ویسے اب بھی روزانہ گرتے ہیں۔عالمی میڈیا کے لیے، گذشتہ اپریل میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی کوریج کرنے کی اجازت حاصل کرنا مشکل تھا لیکن بی بی سی محاذِ جنگ کی صفِ اوّل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایک زمانے میں چہل پہل کے لیے مشہور اومدرمان ایک تنگ بےآباد بنجر زمین لگ رہا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC
’انتقام کا ہتھیار‘
،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC
- سوڈان میں گینگ ریپ کے واقعات: ’ان تینوں نے باری باری میرا ریپ کیا، پھر مجھے سڑک کنارے پھینک دیا‘31 جولائی 2023
- سوڈان میں خانہ جنگی: ’سڑکوں پر پڑی ڈھیروں لاشوں کا کیا کیا جائے؟‘11 جون 2023
- ’یہ ملک چھوڑ دیا تو کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘: وہ پاکستانی جو جنگ زدہ سوڈان کو چھوڑنے پر تیار نہیں27 اپريل 2023
امینہ کی کہانی عام شہریوں کے خلاف حملوں کی بہت سی شہادتوں میں سے ایک ہے جو چار نومبر کے آس پاس ہوئے جب آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے اردماتا میں سوڈانی فوجی چھاؤنی پر قبضہ کیا تھا۔اس کے بعد 2024 کے شروع میں تشدد کا آغاز ہوا۔ بی بی سی نے اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ دیکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اپریل 2023 سے اب تک اس علاقے میں دس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔اقوام متحدہ نے ملک بھر میں اس تنازعے سے متعلقہ جنسی تشدد کے تقریباً 120 متاثرین کے بارے میں معلومات کو دستاویزی شکل دی ہے، جو اس کے بقول ’حقیقت کی بہت کم نمائندگی‘ ہے۔اس کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کی وردی میں ملبوس مرد اور اس گروپ سے وابستہ مسلح افراد 80 فیصد سے زیادہ حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ، سوڈانی فوج کی طرف سے جنسی حملوں کی کچھ خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔،تصویر کا ذریعہMarek Polaszewski / BBC
‘اگر آپ مسالیت ہیں تو وہ آپ کو مار دیں گے’
،تصویر کا ذریعہ.
قحط کے دہانے پر
تقریباً ایک سال بعد، اب امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ کچھ گروہ قحط کا شکار ہونے کے دہانے پر ہیں۔ تین سالہ مناسیک ان لاکھوں بچوں میں سے ایک ہیں جو پہلے ہی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ وہ چلنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور وہ بمشکل اپنا سر اٹھا سکتی ہیں۔ان کی والدہ اکرام نے انھیں بحیرہ احمر کے کنارے واقع شہر پورٹ سوڈان کے ایک یونیسیف ہسپتال میں پالا ہے جہاں خرطوم میں لڑائی سے فرار ہونے والے ہزاروں افراد نے پناہ حاصل کی ہے اور جہاں زیادہ تر سرکاری ادارے اور انسانی تنظیمیں بھی منتقل ہو چکی ہیں۔وہ نہیں جانتی کہ آیا مناسیک کو کوئی بیماری ہے یا نہیں اور وہ یہ معلوم کرنے کی خاطر طبی جائزے کے لیے رقم بھی ادا کرنے کے قابل نہیں۔’ہم نے اپنی زندگی کھو دی۔ ہم نے اپنی ملازمتیں کھو دیں‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کھیتی باڑی کا کام تلاش کرنے کے لیے شمالی سوڈان گئے ہیں اور خوراک کی قیمتیں کس طرح پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ وہ سر جھکا کر آنسو بہا رہی ہیں اور مزید کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ہم نے پورٹ سوڈان میں ایک سکول کا دورہ کیا۔ وہ کلاس روم جہاں کبھی شاگرد سیکھتے تھے اب مایوس خاندانوں سے بھرے پڑے ہیں۔صحن کے کنارے سے گندے پانی کا نالا بہتا ہے، جہاں بچے ننگے پاؤں کوڑے کے ڈھیروں پر کھیلتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہاں پانچ افراد ہیضے سے مر چکے ہیں۔زبیدہ عمار محمد، جو آٹھ بچوں کی ماں ہیں، کھانستے ہوئے ہمیں بتاتی ہیں کہ انھیں لیوکیمیا ہے اور اپریل سے شدید درد کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس دوا نہیں۔ جب جنگ شروع ہوئی اور ان کا خاندان خرطوم کے علاقے سے فرار ہوا تو وہ مزید دوا حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔،تصویر کا ذریعہDany Abi Khalil / BBC
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.