- مصنف, گریگور اتانیسیاں
- عہدہ, بی بی سی روسی سروس
- 2 گھنٹے قبل
رواں صدی کے پہلی دہائی کے وسط تک عجائب گھروں اور نجی طور پر نوادرات جمع کرنے کے شوقین افراد نے روس اور یوکرین کے آرٹ ورک یعنی فن پارے خریدنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے لیکن گذشتہ سال نوادرات جمع کرنے کرنے والے ایک شخص کی موت نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ نوادرات کے بازار میں جعلسازی کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔بیٹریس گمپل میکنلی کے والدین کا نام سوئٹزرلینڈ کے آرٹ جمع کرنے والوں میں کافی معروف تھا۔ اُن کے والد روڈولف بلم 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے دوران روس، یوکرین اور بیلاروس میں بنائی جانے والی جدید پینٹنگز اور مجسمے پر فدا تھے۔اس زمانے کی پینٹگ کی تحریک روسی پیٹنگ کے پیشرو کے نام سے مشہور ہوئی اور اس میں دنیا کے سب سے مہنگے فن پارے شامل ہیں۔بیٹریس نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں جو کچھ بھی پسند آیا اسے بڑے پیمانے پر خریدا۔ اس کے لیے انھوں بہت سارا ہوم ورک کیا، فنکاروں کو مدعو کیا اور بات چیت کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کچھ انھوں نے خریدا وہ ہمیشہ اول درجے کا تھا۔‘
ان کے مجموعے میں بہت سے شاہکار شامل تھے لیکن ان کے پاس ایل لیستزکی کا ایک قیمتی فن پارہ بھی تھا۔ لیستزکی ایبسٹریکٹ یا تجریدی فن کے ماہر تھے اور انھیں تاریخ کے سب سے نمایاں روسی فنکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔جب بیٹریس کے والد سنہ 2005 میں اپنی بینائی سے محروم ہوگئے تو ان کی والدہ لیونور نے خاندانی کلیکشن میں اضافہ جاری رکھا۔ وہ اس وقت بھی نوادرات اکٹھا کر رہی تھیں جبکہ انھیں ڈیمنشیا یعنی بھولنے کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ بیٹریس کہتی ہیں کہ ’انھیں اپنی بہترین چیز کو پرکھنے کی صلاحیت پر بہت فخر تھا۔‘لیکن سنہ 2009 میں روڈولف کی موت کے بعد جب ماہرین کو ان کے نوادرات کی قدرو قیمت کا تعین کرنے کے لیے بلایا گیا تو سب بکھر گیا۔بیٹریس یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب ماہرین میں سے ایک نے کہا کہ پینٹنگز کی ایک پوری رینج مشکوک ہے تو ہم حیران رہ گئے۔‘نوادرات جمع کرنے والے اس سوئس خاندان نے اپنا زیادہ تر کلیکشن زیورخ میں آرلینڈو گیلری سے خریدا تھا۔ اس گیلری کو سوزان آرلینڈو چلاتے ہیں۔ یہ فن پاروں کے قدردانوں کے لیے ایسی گیلری تھی جس پر بلمز بھروسہ کرتے تھے اور یہ آج بھی قائم ہے۔خاندانی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عام طور پر ایک پینٹنگ کے لیے چار لاکھ سوئس فرانک (یا ساڑھے چار لاکھ امریکی ڈالر) سے زیادہ ادا کرتے رہے۔بیٹریس کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کے خیال میں ’سوزین آرلینڈو ان کی دوست ہیں اور وہ انھیں اصلی اور مستند فن پارہ ہی دیں گی۔‘بہر حال اب ماہرین نے ان فن پاروں کو بیکار قرار دیا ہے۔گیلری نے اس متعلق بی بی سی کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔بیٹریس کی والدہ کو جب یہ پتا چلا کہ انھیں دھوکہ دیا گيا ہے تو وہ دم بخود رہ گئیں۔ اور پھر ان کی موت کے بعد ہی بیٹریس مزید تحقیق کرنے اور یہ جاننے کے قابل ہوئی کہ ان کے والدین نے جو ذخائر اکٹھا کیے وہ مستند بھی تھے یا نہیں۔،تصویر کا ذریعہBeatrice Gimpel McNally
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.