یورپ کا شہر جہاں سیلفی لینا معیوب سمجھا جاتا ہے،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کیٹ بیٹیس
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول
  • 8 منٹ قبل

رات کا ایک بج رہا تھا اور درجہ حرارت تقریباً دو ڈگری سنیٹی گریڈ تھا جبکہ بارش بھی ہو رہی تھی لیکن کیفے لوزیا بھیڑ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ برلن کے جدید کروزبرگ کا علاقہ جاگ رہا تھا جہاں شراب پی کر شور مچانے والے بڑی بڑی جیکٹوں میں لپٹے ہوئے گرافٹی والے شیشوں کے سامنے اونچی آواز میں بات کر رہے تھے اور موم بتیوں سے چپکے سے سگریٹ بھی جلا رہے تھے۔ہمارے کونے کی میز پر ایک لڑکی نے گروپ کی تصویر لینے کے لیے اپنا بازو بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’آئیے ایک سیلفی لیتے ہیں!‘ وہ پیرس سے پہلی بار جرمنی کے دارالحکومت آئی تھی۔ ہم مسکرانے لگے اور ان کی بات مانتے ہوئے فوٹو کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ جیسے ہم اس سے فارغ ہوئے اور اپنے گروپ میں مشغول ہو گئے تو برسوں سے یہاں آنے والے ہمارے ایک دوست نے کہا کہ ’یہ کافی مضحکہ خیز ہے؛ یہاں برلن میں واقعی سیلفی لینا پسند نہیں کیا جاتا ہے۔‘مجھے برلن آئے چھ ماہ ہو چکے تھے لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا جب میں نے ايسا سنا تھا۔ یہاں میں نے واضح طور پر بہت کم لوگوں کو اپنے فون کے کیمرے کے ساتھ عوامی مقامات پر پوز دیتے دیکھا ہے کیونکہ یہاں سیلفیز کو خود پسندی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ میرے آبائی شہر سڈنی میں اس کے عالمی شہرت یافتہ بندرگاہ اور لاتعداد دلکش ساحلوں کے ساتھ سوشل میڈیا کے لیے سیلفیز لینا روزمرہ کی ایک تفریح ہے۔ لیکن برلن میں یہ بہت نایاب چیز نظر آتی ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جرمنی کے لوگ اپنی پرائیویسی کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ ہوہن ہائیم یونیورسٹی کے رویوں، طرز عمل اور پرائیویسی کے نظریات پر سنہ 2017 کی تحقیق کے مطابق جرمن شہری ’شاذ و نادر ہی‘ ذاتی معلومات افشا کرتے ہیں۔ اور جب انسٹا گرام جیسے سوشل نیٹ ورکس پر اپنی تصاویر شیئر کرنے کی بات آتی ہے تو محققین نے پایا کہ ’صرف چند جرمنوں‘ کو ایسا کرنا ’سود مند‘ لگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیلفی لینے کا رحجان سب سے زیادہ سات فیصد ’سب سے کم عمر افراد‘میں پایا گیا۔،تصویر کا ذریعہHinterhaus Productions/Getty Images

،تصویر کا کیپشنسیلفی کو جرمنی میں خود ستائی میں شمار کیا جاتا ہے
2017 کی رپورٹ کے شریک مصنف اور ایمسٹرڈم کی ورجے یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر فلپ ماسور نے کہا: ’جرمنی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پرائیویسی کے خدشات کو کھل کر بیان کیاجاتا ہے۔‘وہ ڈیجیٹل کمیونیکیشن اور ہماری روزمرہ زندگی پر سوشل میڈیا کے اثرات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ (سابقہ) مشرقی جرمنی میں لوگوں کو پرائیویسی سے متعلق مسائل کے بارے میں قدرے زیادہ حساس بنا دیا ہے۔‘سنہ 1989 میں دیوار برلن کے گرنے تک جرمنی دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک مشرقی جرمنی جسے جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (جی ڈی آر) اور مغربی جرمنی یعنی فیڈرل ریپبلک آف جرمنی (ایف آر جی) کہا جاتا تھا۔ اس طرح برلن کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ جی ڈی آر کی جانب رہنے والے رہائشیوں کو وزارت برائے ریاستی سلامتی (جسے ستاسی بھی کہا جاتا ہے) کی طرف سے وسیع نگرانی کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے برلن کے بہت سے رہائشیوں سے بات کی اور ان کا کہنا تھا کہ ان کا ’سیلفی نہ لینے‘ کی ثقافت ان کے مشہور کلب پس منظر میں تیار ہوئی کیونکہ ان کے مقدس مقامات آن لائن رازداری کی فضا کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور فریقین کو لطف اندوز ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔جب میں پہلی بار اس شہر میں وارد ہوا تھا اور تقریباً تمام کلبوں میں کیمرے پر کراس کے نشانات دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔ لیکن مجھے اب اس حقیقت کی عادت ہو گئی ہے کہ میں اندر کی تصاویر نہیں لے سکتا۔ ایسے میں یا تو اپنے سمارٹ فون کو دور رکھوں یا اس کے لینس پر سٹیکر لگا دوں۔،تصویر کا ذریعہIain Masterton/Alamyاسی وجہ سے نہ صرف برلن کے کلب دنیا کی بہترین ٹیکنو موسیقی کا گھر ہیں بلکہ وہ یہاں آنے والوں کو وہ کچھ فراہم کرتے ہیں جسے بالکل مختلف مانا جاتا ہے یعنی کہ ایسی جگہ جہاں لوگ اس طرح کے کام کرنے کے لیے آزاد ہیں جسے عام طور پر عوام میں قبول نہیں کیا جاتا۔ یہ ان نائٹ کلبوں سے زیادہ واضح نہیں ہے جو خود کو محفوظ جگہوں کے طور پر مارکیٹ کرتے ہیں، خاص طور پر ہم جنس پرست برادریوں، کنک سین اور جنسی مثبت گروپوں سمیت کاؤنٹرکلچر کی نقل و حرکت سے لطف اندوز ہونے کے لیے بنائے گئے ہیں۔برغین، اباؤٹ بلینک اور سیسیفوس برلن میں عوامی مقامات پر فوٹو گرافی کو منع کرنے والے سب سے مشہور کلب رہے ہیں۔ اس معاملے میں ایک اور کلب کٹ کیٹ ہے۔ یہ مِٹّے میں ہے اور ایک مشہور سیکس پازیٹو کلب ہے۔ یہاں، مہمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ فیٹش، پیٹنٹ اور چمڑے، گلیمر کے کپڑے اور بہت کچھ پہنیں، اور انھیں وہاں سیکس کرنے کی اجازت بھی ہے۔جب میں نے ان سے انسٹاگرام پر یہ پوچھا کہ گنے چنے واقعات کو چھوڑ کر وہ اپنے ہاں تصویر لینے کی اجازت کیوں نہیں دیتے تو کٹ کیٹ کے آفیشل اکاؤنٹ سے کہا گيا کہ ’اس میں کوئی بہت اسرار نہیں۔ پابندی کی ایک وجہ ہمارے مہمانوں کا تحفظ ہے، اور دوسرا کلب کے ماحول اور تصور کا تحفظ بھی۔ اس کے بغیر زیادہ تر لوگ شاید مختلف طرح سے برتاؤ کریں۔‘مختصراً یہ کہ یہ وہاں آنے والے کو بیرونی دنیا میں ردعمل کے خوف کے بغیر اپنی خواہشات پر عمل کرنے کی اجازت دینے کے لیے ہ۔پرفارمنس آرٹسٹ اور برلن میں نو سال سے رہائش پزیر مارٹا لوڈولر کہتی ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ یورپ جیسے ایک بڑے شہر میں برلن ایک چھوٹے سے شہر کی طرح ہے جس میں مشترکہ مقامات پر اپنے انداز سے لطف اندوز ہونے کے لیے ’اعلیٰ سطح کی آزادی‘ میسر ہے۔انھوں نے کہا کہ ’آن لائن دنیا سے باہر بہت سی چیزیں ہیں جن کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ یہ صرف کلب نہیں ہیں جو یہاں آنے والوں سے تصاویر نہ لینے کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہے جہاں، اندر جانے والے لوگوں کے احترام میں یا خود جگہ کے احترام میں سیلفی لینے کی اجازت نہیں ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہMaremagnum/Getty Images

،تصویر کا کیپشنجنگ عظیم کی اس یادگار پر اگرچہ تصاویر لینا منع نہیں لیکن لوگ احتراماً نہیں لیتے ہیں
درحقیقت، کسی خاص لمحے میں جینے کی یہ خواہش ایک ایسی چیز ہے جو شہر کے دیگر مقامات پر بھی ظاہر ہوتی ہے۔ دریائے اسپری کے مشہور بیڈشِف پول پر دھوپ میں نہانے کے لیے موسم گرما کے اپنے اکثر دوروں میں، میں نے داخلے کی جگہ پر فوٹو گرافی کی اجازت نہیں ہے کہ نشانات دیکھے۔ یہ ایک عوامی ڈیجیٹل ڈی ٹوکس کی طرح ہے جس کا میں نے سڈنی کے ساحل پر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور ہر دوسرے شہر میں موسیقی کے مقامات کے برعکس آپ کو برلن میں کنسرٹ کرنے والے موسیقاروں کے لیے اپنے کیمرے اٹھائے ہوئے لوگوں کا ہجوم تقریباً کبھی نظر نہیں آئے گا۔‘اگرچہ وہاں پر تصویر لینے پر کوئی صریحاً پابندی نہیں ہے لیکن برلن جنگ عظیم کے بعد کے انتہائی پُرجوش مقامات کا گھر ہے اور مٹے میں تو یورپ کے قتل شدہ یہودیوں کی یادگار ہے لیکن فوٹو گرافی کو انتہائی نامناسب عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے حالانکہ وہ ممنوع نہیں ہے۔برلن میں مقیم ایک فوٹوگرافر اور دستاویزی فلم ساز کلاڈیا ہیمپٹن نے کہا کہ ’لندن میں، میں یقینی طور پر زیادہ لوگوں کو روزمرہ کی زندگی کی چیزوں کے بارے میں پوسٹ کرتے ہوئے دیکھتی ہوں۔‘ وہ اصل میں لندن کی رہنے والی ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ برلن میں یونہی چلتے چلتے اپنی ڈیجیٹل سٹوری بنانے کی وہ قدر نہیں کی جاتی جتنی برطانیہ میں کی جاتی ہے۔برطانیہ میں آپ لوگوں کو کتے سے ساتھ سیر کرتے ہوئے یا کسی پب میں شراب نوشی کرتے ہوئے بھی فوٹو یا تصاویر بناتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں لیکن مجھے (برلن میں) یہ سب کچھ اتنا زیادہ نظر نہیں آتا۔‘ہیمپٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ برلن کے رہائشیوں کو اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں پوسٹ کرنا نامناسب یا خودغرضی جیسا محسوس ہوتا ہے وہاں سیلفی لینا ایک قسم کی عجیب سی بات ہو سکتی ہے۔ ’لوگ سوچیں گے کہ یہ عجیب ہے، لیکن میں کبھی کبھی ایسا کرتی ہوں۔‘میرے ذہن میں ایک سوال نے سر اٹھایا کہ کیا برلن کی رازداری کی اقدار اور فوٹو گرافی سے آزادی کو دوسرے شہروں کے پیشہ ور افراد کی آن لائن موجودگی کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے خطرہ لاحق ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Imagesماسور کے مطابق درحقیقت جرمنی کے اندر رازداری کے خدشات دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہو رہے ہیں۔ ’میرے مفروضوں میں سے ایک یہ ہوگا کہ اس کا تعلق عالمگیریت کے فروغ سے جڑا ہے۔ ہم دوسرے لوگوں سے زیادہ کھلتے جاتے ہیں، یعنی ایک خاص حد تک (میل جول) بڑھتا جاتا ہے۔‘برلن میں مقیم فیشن سماجی اثر و رسوخ رکھنے والی اور کاروباری خاتون ایمیلی اسٹینسکو کو ہی لیں جو اپنے انسٹاگرام پر 64,000 فالوورز کے لیے اکثر اپنی سیلفیز پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔ جب ہم نے ان کے نو سال کے اپنائے ہوئے شہر اور اس کے اطالوی آبائی شہر کے درمیان سیلفیز کے حوالے سے مختلف سماجی رویوں کے بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’لوگ برلن میں بہت گھورتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ برلن اس مقام پر ہے جہاں عوام میں سیلفی لینا اب بھی قدرے غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔’مجھے نہیں لگتا کہ وہ گھور رہے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ آپ کچھ عجیب یا کچھ الگ بھی کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں وہ صرف یہ دیکھنے کے لیے گھور رہے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔‘لیکن وہ کہتی ہیں کہ عجیب و غریب کے باوجود وہ اب بھی اپنے چینلز کے لیے اور اپنے کام میں کامیاب ہونے کے لیے عوامی مقامات پر سیلفیاں لیتی ہیں۔’میں یہ کام کے لیے کرتی ہوں اور میں اس سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔ اپنی زندگی اور اپنے کریئر کے اس موڑ پر، میں اپنا کام کرتے وقت دوسرے لوگوں کے جذبات پر غور نہیں کر سکتی۔‘آج کی ترقی یافتہ بین الاقوامی دنیا میں یہ ایک قابل فہم اور عملی رویہ ہے کیونکہ کامیابی کے لیے اکثر اس میں خود کو ظاہری طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو کیا یہ تبدیلیاں اس آزاد پر جوش شہر کی سیلفیز سے نفرت کو کبھی ختم کر پائیں گی؟مجھے امید نہیں۔ میں برلن کے آزادانہ رویے سے محبت کرنے لگی ہوں، جس کے نتیجے میں مجھے اپنی رات کو دستاویزی شکل دینے یا دوسروں کو یہ ثابت کرنے کے لیے پوسٹ کرنے کا دباؤ محسوس نہیں ہوتا کہ میں واقعی میں مزے کر رہی ہوں۔ اس کے بجائے، میرے دن اور خاص طور پر میری راتیں پیاری جگہیں بن گئی ہیں جن میں یاد رکھنے کے قابل یادیں تخلیق کی جاتی ہیں، نہ کہ وہ جگہیں جہاں مجھے ایسا کرنے کے لیے تصاویر لینے کی ضرورت ہو۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}