ماضی میں دیکھی گئی اڑن طشتریوں کا معمہ: خلائی مخلوق یا امریکہ کے خفیہ تجربات؟،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, مائیک وینڈلنگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

سنہ 1950 اور 1960 کی دہائی میں دیکھی گئی غیر شناخت شدہ اشیا (یو ایف او) یا اڑن طشتریاں حقیقت میں جدید امریکی جاسوس طیاروں اور سپیس ٹیکنالوجی کے تجربات تھے۔یہ نتیجہ پینٹاگان کی رپورٹ میں شائع کیا گیا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا ’کوئی ثبوت نہیں‘ ہے کہ امریکی حکومت کا خلائی مخلوق کے ساتھ سامنا ہوا ہے۔جمعے کو امریکی کانگریس میں جمع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر ’یو ایف او‘ عام چیزیں تھیں۔تاہم اہلکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی تحقیق سے لوگوں میں خلائی مخلوق کے زمین پر آنے کا یقین ختم نہیں ہو گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے ’ٹیلی ویژن پروگراموں، کتابوں، فلموں، اور یو اے پی سے متعلقہ موضوعات پر مرکوز انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا مواد کی وسیع مقدار نے اس موضوع پر عوامی گفتگو کو متاثر کیا ہے اور آبادی کے کچھ حصوں میں ان عقائد کو تقویت دی ہے۔‘یہ رپورٹ امریکی حکومت کی طرف سے اڑن طشتریوں کی جانچ کرنے کی وسیع عوامی کوشش کا حصہ ہے۔ سرکاری سطح پر انھیں یو اے پی کہا جاتا ہے۔ناسا کے اہلکاروں کے ساتھ عوامی میٹنگ اور کانگرس میں سماعتیں اس کوشش کا حصہ ہیں۔اس رپورٹ کو پینٹاگون کے ’آل ڈومین اینوملی ریزولوشن آفس‘ (اے اے آر او) نے جاری کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس معاملے پر رائے عامہ کو پاپ کلچر نے متاثر کر دیا ہے۔محققین کہتے ہیں کہ ایک ’خاص طور پر مستقل بیانیہ‘ یہ ہے کہ حکومت نے اڑن طشتری اور خلائی مخلوق کی باقیات اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہیں اور ایک سازش کے تحت خلائی مخلوق پر ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔پینٹاگون کے ترجمان نے کہا ہے کہ اہلکاروں نے کھلے ذہن سے رپورٹ پر کام کیا لیکن اس کے باوجود انھیں خلائی مخلوق کے زمین پر آنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔میجر جنرل پیٹ ریڈر نے صحافیوں کو بتایا ’تمام حساس معلومات کی سطح پر کی گئی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا کہ زیادہ تر مشاہدات عام چیزیں اور مناظر تھے اور یہ سب غلط شناخت کا نتیجہ ہے۔‘2021 کے گیلپ پول کے مطابق 40 فیصد سے زیادہ امریکیوں کا خیال ہے کہ خلائی مخلوق نے زمین کا دورہ کیا ہے اس سے دو سال قبل یہ تناسب 33 فیصد تھا تو یہ ایک بڑا اضافہ ہے۔اے اے آر او نے سنہ 1945 سے لے کر اب تک کے حساس اور پرانے سرکاری دستاویزات اور تحقیقات کا جائزہ لیا۔محققین نے خلائی مخلوق کی افواہوں کے بارے میں تحقیق کی مثال کے طور پر 1961 میں لیک ہونے والا یو ایف او سے متعلق میمو غیر مستند تھا اور یہ یو اے پی پر تحقیق کرنے والی تنظیم کی طرف سے جمع کیا گیا۔ ’خلائی مخلوق کے طیارے‘ کا نمونہ غیر زمینی مواد کا نہیں بنا ہوا تھا بلکہ اس میں زیادہ تر میگنیشیم، زنک اور بسمتھ پائے گئے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES/NASA

،تصویر کا کیپشن1960 میں VZ-9 ایوروکار کیلیفورنیا میں ناسا کے ایمز ریسرچ سینٹر میں ٹیسٹنگ سے گزر رہا تھا
رپورٹ میں نئی ٹیکنالوجی کی فہرست دی گئی جس کے متعلق محققین کا ماننا ہے کہ ان کی وجہ سے 1950 اور 1960 کی دہائی میں یو اے پی کے دیکھے جانے کی اطلاعات میں بڑا اضافہ ہوا۔اس فہرست میں اونچائی پر اڑنے والے بیلون (غبارے) اور یو-2 جاسوس طیارہ تھا۔ 1947 میں ان غباروں میں سے ایک کے نیو میکسیکو میں گرنے کی وجہ سے یو ایف او کے بارے میں بڑے پیمانے پر قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔امریکہ کے حساس ادارے سی آئی اے کی جانب سے کیے گئے تجزیے کے مطابق اس وقت آدھے سے زیادہ یو ایف او کی اطلاعات اصل میں جاسوس جہازوں کی پرواز تھیں۔متعدد تحقیقاتی پروجیکٹس ایک ایسے طیارے کی تیاری سے متعلق تھے جو طشتری شکل کا تھا، اس کی شکل لوگوں کے ذہن میں موجود خلائی مخلوق کے طیارے سے ملتی ہے۔ ایک مثال کینیڈین VZ-9AV ایوروکار فائٹر بومبر ہے جسے عمودی طور پر پرواز اور لینڈ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔کئی دہائیوں پر محیط عرصے میں امریکی حکومت نے متعدد ریسرچ پروگرام چلائے تاہم خلائی مخلوق سے متعلق تحقیق کے بڑے حصے کو خفیہ رکھا گیا۔سرد جنگ میں ٹیکنالوجی کی بہت تیز ترقی ہوئی لیکن رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’پاپ کلچر میں UAP مواد اب پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہے‘ اور محقیقین کے مطابق اس وجہ سے لوگوں میں امریکی حکومت پر اعتماد کی کمی ہے اور انٹرنیٹ پر خلائی مخلوق سے متعلق مواد مقبول ہے۔اے اے آر او کے مطابق ہر مہینے یو اے پی کے 50 سے 100 مشاہدات کے دعوے سامنے آتے ہیں اور حکومت کی جانب سے اس بارے پراسرار خاموشی کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔سنہ 2023 میں سابق انٹیلی جنس افسر ڈیوڈ گرش نے کانگریس کی کمیٹی کے سامنے گواہی دی کہ ان کا خیال ہے کہ امریکی حکومت کے پاس خلائی مخلوق کی لاشیں اور ان کا طیارہ موجود ہے۔ ڈیوڈ گرش نے کہا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ان کے بیانات دستاویزات، ریکارڈنگ اور ساتھیوں کے ساتھ بات چیت پر مبنی ہیں۔اے اے آر او نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بعد کی تاریخوں میں گذشتہ عرصے میں ہونے والے مشاہدات کے بارے میں مزید رپورٹ جاری کریں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}