ایک دوسرے کی جان بچانے والے دو اجنبی جو اب ’سگے بھائیوں‘ کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, شیرون باربور اور نیٹلی رائٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

سٹیم سیل عطیہ کے ذریعے ماریئس ورنر نے ایک برطانوی ڈاکٹر کی جان بچائی، جس کے بعد اس نوجوان جرمن کا کہنا ہے کہ اس عمل نے ان کی بھی جان بچائی کیونکہ وہ خود کشی کرنا چاہتے تھے۔خون کے کینسر کی ایک نایاب قسم کے ساتھ، ڈاکٹر نک ایمبلٹن کی واحد امید بون میرو کے ذریعے ٹرانسپلانٹ تھا اور برطانیہ میں کوئی میچ تلاش کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے انھوں نے دنیا بھر میں یہ تلاش شروع کی تھی۔ دو سال بعد، بی بی سی نیوز اور خیراتی ادارے انتھونی نولن نے پہلی بار ان دونوں کو ایک دوسرے کو تلاش کرنے میں مدد کی۔

’میں مر سکتا ہوں‘

نک دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نیو کاسل میں بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں کام کر رہے ہیں لیکن 2021 میں انھیں خود ایک ڈاکٹر کی ضرورت تھی۔

ہسپتال کے برآمدے میں چلتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ انھیں ’اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے پوری طرح معلوم تھا کہ میں مر سکتا ہوں، اس لیے میں نے وصیت کی۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے یہ خبر اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو دی۔ میں اپنے بچوں کی وجہ سے سب سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے والد کے بغیر بڑے ہوں۔‘اس ٹرانسپلانٹ کے ذریعے خراب خون کے خلیوں کو صحت مند خلیوں سے تبدیل کیا جاتا ہے لیکن جسم خود بخود انھیں مسترد کر دیتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے میچ نہ کریں۔انتھونی نولن چیریٹی سے تعلق رکھنے والی شارلٹ ہیوز کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سب سے پہلے برطانیہ میں رجسٹر لوگوں کو تلاش کرنا شروع کیا اور ہمیں یہ امید بھی تھی کہ یہاں سے میچ مل جائے گا۔‘

دو اجنبیوں کی ملاقات

عطیہ دہندہ اور مریض اس وقت تک اپنی شناخت ظاہر نہیں کر سکتے جب تک کہ ٹرانسپلانٹ کامیاب نہ ہو جائے۔ نک نے دو سال بعد بی بی سی نیوز کو بتایا کہ وہ اس شخص کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ آج زندہ ہیں۔انتھونی نولن کے ساتھ کام کرتے ہوئے بی بی سی نیوز نے جرمنی کے شہر چیمنیز سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ ماریئس کی شناخت کی۔ماریئس برطانیہ جانے اور نک سے ملنے پر راضی ہو گئے۔جیسے ہی یہ دونوں گلے ملے، ماریئس نے کہا کہ ’میں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوں، میں کانپ رہا ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’خوش آمدید‘

نک نے انھیں بتایا کہ ’کینسر کے تمام خلیات ختم ہو چکے ہیں۔ جب وہ میرے خون کی جانچ کرتے ہیں، تو وہ تمام خون کے خلیات آپ کے ہیں۔‘ ’اگر آپ نہ ہوتے تو میں مر چکا ہوتا۔ میرے چار بچے ہیں ان کے والد آج نہ ہوتے۔ میرا مطلب ہے کہ میں واقعی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شکریہ۔‘جس کے جواب میں ماریئس نے جذبات سے لبریز ہو کر کہا کہ ’آپ کا خیر مقدم۔‘ان دونوں کے چہروں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ نک نے پھر کہا کہ ’آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘

’نک نے بھی میری جان بچائی‘

ماریئس کہتے ہیں کہ جب انھیں پتا چلا کہ ٹرانسپلانٹ کامیاب رہا اور مریض زندہ بچ گیا ہے تو اس خبر کے ملنے کے بعد ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔انھوں نے مزید کہا ’میں اس وقت اپنے کام کے لیے جا رہا تھا اور مجھے اپنی گاڑی پارک کر کے باہر نکلنا پڑا۔ ایسے میں، میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔‘اس کے بعد ماریئس نے انکشاف کیا کہ وہ خود کشی کی کوشش کر چکے ہیں اور ایک طرح سے نک نے ان کی جان بچائی۔وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی پوری زندگی 13 سال کی عمر سے ہی ذہنی مسائل کے ساتھ گزاری۔‘انھوں نے کہا کہ اب ’میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کچھ صحیح کیا ہے۔‘اور اپنی رگوں میں ایک جیسا خون بہنے کے ساتھ یہ دونوں اجنبی اب ’سگے بھائیوں‘ کے طور پر رابطے میں رہنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}