- مصنف, کیالا اپسٹین
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 58 منٹ قبل
امریکی ریاست الاباما کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد کہ منجمد جنین (ایمبریو) کو بچہ سمجھا جائے اور یہ کہ کسی شخص کو حادثاتی طور پر انھیں ضائع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، امریکہ میں تولیدی علاج کے حوالے سے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔جنوبی امریکی ریاست میں ایک بڑے فرٹیلٹی کلینک نے اس فیصلے کے تناظر میں تولیدی عمل کے ان وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) طریقہ علاج کو اس خدشے کے پیش نظر روک دیا ہے کہ کہیں وہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں مجرمانہ عمل کے مرتکب نہ ہو جائیں۔یونیورسٹی آف الاباما برمنگھم نے کہا کہ وہ خواتین کے بیضہ دانی سے انڈوں کی بازیافت جاری رکھے گی۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ یہ آئی وی ایف عمل کے اگلے مرحلے کو روک دے گا، جس میں انڈوں کو بچہ دانی میں رکھنے سے پہلے نطفے سے فرٹیلائز کیا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف الاباما برمنگھم جو ریاست کی معروف طبی سہولیات میں سے ایک ہے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ یہ ہمارے مریضوں کی آئی وی ایف کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کی کوشش کو متاثر کرے گا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہےکہ ’لیکن ہمیں اس بات کا اندازہ بھی لگانا چاہیے کہ ہمارے مریضوں اور معالجین کے خلاف آئی وی ایف طریقہ علاج اختیار کرنے پر ممکنہ طور پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا انھیں قانونی طور پر نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘طبی ماہرین اور تولیدی عمل کے حامی گروپوں نے متنبہ کیا کہ اس فیصلے کے الاباما اور دیگر ریاستوں میں فرٹیلیٹی سے متعلق طریقہ علاج پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔قدامت پسند گروپوں نے الاباما کی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ سب سے چھوٹا جنین بھی قانونی تحفظ کا مستحق ہے۔
یہ مقدمہ کیوں دائر ہوا اور عدالت نے کیا حکم دیا
یہ مقدمہ تین جوڑوں کی طرف سے دائر کیے گئے قتل کے ایک غلط مقدمے سے شروع ہوا، جن کے ایمبریو 2020 میں ایک فرٹیلٹی کلینک میں ضائع ہو گئے تھے۔ دراصل ایک مریض اس جگہ چلا گیا تھا جہاں ایمبریو رکھے گئے تھے، اس نے انھیں اٹھایا اور غلطی سے گرا دیا۔ جس کے نتیجے میں جنین ضائع ہو گئے تھے۔جوڑوں نے سنٹر فار ری پروڈکٹیو میڈیسن اور موبائل انفرمری ایسوسی ایشن کے خلاف غلطی سے موت کے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ یہ قانون جنین سے متعلق ہے، لیکن آئی وی ایف کے عمل کے نتیجے میں جنین سے متعلق نہیں تھا۔اس سے قبل ایک ذیلی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ جنین کو ایک شخص یا بچے کے طور پر سمجھا نہیں جا سکتا لہٰذا غلطی سے موت کا مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ الاباما سپریم کورٹ نے پھر یہ سوال اٹھایا کہ آیا یہاں قانون لاگو ہوتا ہے۔رواں ہفتے عدالت نے جوڑوں کا ساتھ دیا لیکن گذشتہ جمعے کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جنین کو ’بچے‘ سمجھا جاتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غلطی سے موت کا قانون ’تمام غیر پیدا ہونے والے بچوں پر لاگو ہوتا ہے، چاہے ان کا مقام کچھ بھی ہو۔‘یعنی اس فیصلے میں جنینوں کا حوالہ دیا گیا جو اکثر کرائیوجینک فریزر میں محفوظ کیے جاتے ہیں اور جنھیں ایکسٹراؤٹرائن بچے کہا جاتا ہے۔اکثریتی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے چیف جسٹس ٹام پارکر نے فیصلے میں لکھا کہ ’پیدائش سے پہلے ہی تمام انسانوں کے پاس خدا کی شبیہ موجود ہے، اور ان کی زندگیوں کو اس کے جلال کو متاثر کیے بغیر ضائع نہیں کیا جا سکتا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
فیصلے کے فرٹیلٹی کے مریضوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس فیصلے میں آئی وی ایف طریقہ علاج پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ درحقیقت جن جوڑوں نے یہ مقدمہ عدالت میں دائر کیا تھا انھوں نے خود یہ طریقہ علاج منتخب کیا۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ لیکن اس فیصلے سے کچھ ابہام پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا آئی وی ایف کے کچھ پہلو الاباما کے قانون کے تحت قانونی ہیں۔ اگر ایک ایمبریو کو ایک شخص سمجھا جاتا ہے، تو اس سے یہ سوالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ کلینک کو ان کے استعمال اور ذخیرہ کرنے کی اجازت کیسے دی جاتی ہے۔سینٹر فار ری پروڈکٹیو رائٹس میں ریاستی پالیسی کی ڈائریکٹر الزبتھ سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آئی وی ایف میں تمام ایمبریو استعمال نہیں کیے جاتے اور نہ ہی وہ ہو سکتے ہیں۔‘’جنین کو قانونی طور پر ایک شخصیت قرار دینے کی قانون سازی سے آئی وی ایف طریقہ علاج کے استعمال پر تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسی سائنس جس پر بہت سے لوگ اولاد کے لیے انحصار کرتے ہیں۔‘قانون سے متعلق ابہام کا شکار مریض بھی ہو سکتے ہیں اور اس بارے میں فکرمند رہ سکتے ہیں کہ آیا یہ طریقہ علاج قانونی ہے بھی یا نہیں۔امریکی ریاست الاباما کی میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس فیصلے کی اہمیت تمام شہریوں کو متاثر کرتی ہے اور ممکنہ طور پر کم بچے پیدا ہوں گے کیونکہ ان لوگوں کے لیے فرٹیلیٹی اور تولید کے آپشنز محدود ہو گئے ہیں جو ایک خاندان یا کنبے کے خواہشمند ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
فیصلے کا امریکہ میں اسقاط حمل کی بحث سے کیا تعلق ہے؟
جب امریکی سپریم کورٹ نے 2022 میں اسقاط حمل کے ملک گیر حق کو ختم کر دیا تھا تو اس نے ریاستوں کے لیے اس مسئلے پر اپنے اپنے قوانین بنانے کا راستہ کھول دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد سے ڈیموکریٹک کنٹرول والی ریاستوں نے اسقاط حمل تک رسائی کو بڑھا دیا ہے جبکہ ریپبلکن کنٹرول والی ریاستوں نے اسے محدود کر دیا ہے۔امریکی ریاست الاباما میں حمل کے تمام مراحل پر پہلے ہی اسقاط حمل پر مکمل پابندی ہے۔وائٹ ہاؤس نے اس ہفتے اسقاط حمل کے حقوق سے متعلق ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’الاباما کی عدالت کا فیصلہ بالکل ویسا ہی ہے جیسی ہمیں توقع تھی کیونکہ یہ ویسا ہی تباہ کن ہے جیسا سپریم کورٹ نے رو وی ویڈ کے مقدمےکو مسترد کرتے ہوئے سیاست دانوں کو ان افراد کے چند انتہائی ذاتی فیصلوں کے متعلق حکم دینے کی اجازت دی جو خاندان کی خواہش رکھتے ہیں۔‘اسقاط حمل کے مخالفین بھی اس حکم کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ سوال کہ جب ایک جنین یا جنین کو قانونی طور پر ایک شخص سمجھا جاتا ہے تو بہت سی ریاستی اسقاط حمل کی پابندیوں کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔الائنس ڈیفنڈنگ فریڈم، ایک قدامت پسند مسیحی قانونی گروہ نے الاباما کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’زندگی کی زبردست فتح‘ قرار دیا ہے۔ اس کی خاتون ترجمان ڈینس برک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حالات جیسے بھی ہوں تمام انسانی زندگی سے حاملہ ہونے کا لمحہ قیمتی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم شکر گزار ہیں کہ عدالت نے صحیح فیصلہ کیا کہ الاباما کا قانون اس بنیادی سچائی کو تسلیم کرتا ہے۔‘اسقاط حمل کے مخالف دیگر کارکنوں نے کہا کہ آئی وی ایف طریقہ علاج اتنا واضح نہیں تھا کہ اخلاقی طور پر ان کے لیے حمل کو ختم کرنے جیسا مسئلہ ہو۔ایک وکیل ایرک جانسٹن جنھوں نے 2018 میں اسقاط حمل پر الاباما کی آئینی زبان کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کی تھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بڑے پیمانے پر زندگی کی حامی کمیونٹی کہے گی کہ فرٹیلائزڈ انڈوں کو تحفظ کی ضرورت ہے۔‘لیکن وہ مانتے ہیں کہ اسقاط حمل کے مخالف جوڑے جنھوں نے آئی وی ایف کا استعمال کیا ہے کہتے ہیں کہ وہ کبھی اس کی مذمت نہیں کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک مخمصہ ہے اور ایک مخمصہ ایسی چیز ہے جہاں آپ کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔‘
دیگر ریاستوں میں اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
امریکی ریاستیں اکثر ایک دوسرے کی قانون سازی کو نقل کرنے کا رجحان رکھتی ہیں اور امریکہ میں دیکھا گیا ہے کہ اس طرز کو اسقاط حمل کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر ریاستیں ایک دوسرے سے اس بارے میں اشارے لیتی ہیں کہ کون سے قوانین یا پالیسیوں کو قانون سازوں نے منظور کیا ہے یا قانونی چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے۔اگرچہ الاباما کی سپریم کورٹ کا حکم صرف ریاست کے اندر لاگو ہوتا ہے مگر ناقدین نے متنبہ کیا کہ اگر دوسری ریاستیں قانون سازی کی کوشش کرتی ہیں یا دیگر مدعی مقدمہ دائر کرتے ہیں تو اس کے اثرات اسی طرح کے ہو سکتے ہیں۔لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ خاص کیس امریکی سپریم کورٹ میں ختم نہیں ہوگا، جیسا کہ اسقاط حمل کا معاملہ تھا، کیونکہ الاباما کے فیصلے کی ابتدا ریاستی عدالت سے ہوئی تھی نہ کہ وفاقی نظام سے۔سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق 2021 میں آئی وی ایف کے علاج کے نتیجے میں امریکہ میں 97,128 بچے پیدا ہوئے۔
اس فیصلے سے امریکی سیاست پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
اسقاط حمل کے حقوق ڈیموکریٹس کے لیے ایک اہم مسئلہ رہا ہے جب سے امریکی سپریم کورٹ نے رؤ مخالف ویڈ مقدمے کو مسترد کیا ہے۔ جس نے جنین کے تقریباً 23 سے25 ہفتوں تک اسقاط حمل کے آئینی حق کی ضمانت دی تھی۔ڈیموکریٹک امیدوار انتخابی مہم کے دوران اب پورے امریکہ میں فرٹیلٹی کے علاج تک رسائی کے تحفظ کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ جبکہ رپبلکن سیاست دان اکثر مذہبی قدامت پسندوں کا ساتھ دیتے ہیں جو امریکہ میں اسقاط حمل پر پابندی چاہتے ہیں۔ رپبلکن صدارتی امیدوار نکی ہیلی نے جمعرات کو الاباما سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کی۔انھوں نے کہا کہ ’میرے لیے ایمبریو، بچے ہیں۔ جب آپ ایک ایمبریو کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو آپ میرے لیے یہ زندگی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور اس لیے جب وہ اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ یہ کہاں سے آرہا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.