’مائع سونا‘: قدیم روم جہاں پیشاب دانت چمکانے اور کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہوتا اور اس کی خرید و فروخت پر ٹیکس تھا،تصویر کا ذریعہWikimedia Commons
،تصویر کا کیپشنعوامی بیت الخلا جہاں پیشاب اکھٹا کیا جاتا اور پھر اس کی خرید و فروخت ہوتی

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی و محقق
  • 2 گھنٹے قبل

’کیا اِس سے بُو آتی ہے؟‘روم کے شہنشاہ ویسپاسیئن نے سونے کا ایک سکہ اٹھاتے ہوئے اپنے بیٹے ٹائٹس سے سوال کیا۔ٹائٹس نے کہا: ’نہیں۔‘ویسپاسیئن نے جواب دیا کہ ’سکے سے بُو نہیں آتی۔ حالانکہ یہ پیشاب (پر لگائے گئے ٹیکس) سے حاصل ہوتا ہے۔‘

رومی مؤرخ سیوٹونیئس کے مطابق باپ اور بیٹے میں یہ مکالمہ آج سے لگ بھگ دو ہزار سال پہلے تب ہوا تھا جب ٹائٹس نے اپنے والد ویسپاسیئن کے پیشاب کی تجارت پر لگائے گئے ٹیکس کو ’کراہت آمیز‘ قرار دیا۔یہ ٹیکس پہلی صدی عیسوی میں، پانچویں رومی شہنشاہ نیرو (جن کے دور میں روم جلا) نے پیشاب جمع کرنے اور اس کے استعمال دونوں پر متعارف کروایا لیکن پھر اسے ختم کر دیا تھا۔

پیشاب قیمتی کیسے ہوا؟

،تصویر کا ذریعہWikimedia commonsاو ایف رابنسن نے ’اینشنٹ روم: سٹی پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن‘ میں لکھا ہے کہ روم میں 144 عوامی بیت الخلا یا پبلک ٹوائلٹ تھے۔’عوامی پیشاب خانے بالٹیوں پر مشتمل ہوتے جنھیں ’ڈولیا کرٹا‘ کہا جاتا۔ ان بالٹیوں میں جمع ہونے والے مواد (پیشاب) کو باقاعدگی سے جمع کیا جاتا تھا اور ایسا کرنے میں تاخیر پر (اس ڈیوٹی پر معمور اہلکاروں کو) جرمانہ ہوتا۔‘سائنسی موضوعات کی لکھاری موہی کمار کے مطابق پیشاب نائٹروجن پر مبنی نامیاتی مرکب یوریا کا ایک بڑا اور بھرپور ذریعہ ہے اور اگر اسے لمبے عرصے تک ذخیرہ کیا جائے تو یوریا امونیا میں بدل جاتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ پانی میں امونیا ایک کاسٹک کے طور پر کام کرتا ہے۔’اس کا اعلیٰ پی ایچ نامیاتی مواد کو توڑ دیتا ہے۔ اسی لیے پیشاب جانوروں کی کھالیں نرم کرنے اور ٹیننگ کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پیشاب میں جانوروں کی کھالیں بھگونے سے چمڑے کا کام کرنے والوں کے لیے جلد سے بال اور گوشت کے ٹکڑوں کو ہٹانا بھی آسان ہو گیا۔‘،تصویر کا ذریعہWikimedia Commons

،تصویر کا کیپشنشہنشاہ ویسپاسیئن کے دور میں رائج سِکے
‘گندگی اور چکنائی جو کہ قدرے تیزابی ہوتی ہیں، امونیا کے استعمال سے بے اثر ہو جاتی ہیں۔ پیشاب نہ صرف سفیدی میں چمک لاتا بلکہ رنگوں کو بھی نکھار دیتا۔‘رابنسن کے مطابق پیشاب کو کچھ دنوں کے لیے دھوپ میں رہنے دیا جاتا جب تک کہ یہ امونیا نہ بن جاتا، جو بلیچ میں ایک فعال جزو ہے۔نکولس سوکک کی تحقیق ہے کہ امونیا ہی کی وجہ سے قدیم رومی اپنے دانت چمکانے کے لیے پیشاب کو ماؤتھ واش کے طور پر استعمال کرتے تھے۔لیکن ڈاکٹر مائیک بشپ کہتے ہیں کہ ’تمام رومی ایسا نہیں کرتے تھے‘ اور یہ کہ شاعر ’کیٹلس اپنی ایک نظم میں ایسا کرنے پر کسی کا مذاق اڑاتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہWikimedia Commonsتاریخ دان جوشوا جے مارک لکھتے ہیں کہ قدیم روم کے دھوبی کپڑوں کی صفائی اور ان میں چمک لانے کے لیے پیشاب کو قدرتی بلیچنگ ایجنٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔’رومی گھر میں نہ نہاتے تھے اور نہ کپڑے دھوتے تھے۔ اس لیے شہر کے ہر آزاد فرد کو اپنے کپڑے صاف کرنے کے لیے ’فُلرز‘ کہلوانے والے دھوبیوں کے پاس لانا ہوتے۔‘’پیشاب کو پانی میں ملا کرکپڑوں کے ساتھ ایک بڑے برتن میں ڈالا جاتا اور دھوبی کپڑے پر چلتے اور داغوں اور بدبو کو دور کرنے کے لیے اسے اسی طرح پٹختے جیسے جدید دور کی واشنگ مشین کرتی ہے۔ ’یہ افراد رومی سلطنت کے زوال کے بعد جب تک صابن نے پیشاب کی جگہ نہ لے لی، کپڑوں کی صفائی اسی طرح کرتے رہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنپیشاب کرنے کے لیے عوامی بیت الخلا
پیشاب کو ’مائع سونا‘ قرار دیتے ہوئے، سائمون ورنیز اور سارہ بیسٹ نے لکھا ہے کہ ’یہ چمڑے کی پروسیسنگ اور ٹیکسٹائل اور اونی کپڑے کی صفائی اور رنگائی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔‘’پیشاب 1850 کی دہائی تک ٹیکسٹائل کو رنگنے اور صاف کرنے کے لیے امونیا کا ایک قیمتی ذریعہ رہا۔‘تاریخ دان بی کے ہاروے کا تبصرہ ہے کہ دھوبیوں کو اپنے کام میں پیشاب کے استعمال کی وجہ سے حقارت سے دیکھا جاتا تھا لیکن دوسری جانب وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے پیشہ ور افراد میں سے تھے۔’بہت سے دھوبی آرام دِہ زندگی بسر کرتے اور اپنا معاوضہ خود طے کرتے۔‘’اُن کے لیے پیشاب اتنا قیمتی تھا کہ اس کے استعمال پر ٹیکس لگا دیا گیا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنشہنشاہ ویسپاسیئن کا فرضی خاکہ
نیرو نے پیشاب پر عائد یہ ٹیکس ختم کیا لیکن ویسپاسیئن نے اس کو دوبارہ لاگو کر دیا۔کرٹ رِیڈمین نے لکھا ہے کہ نیرو نے پیشاب کی فروخت پر عائد ٹیکس کو جلد ہی منسوخ کر دیا کیونکہ اس سے عام لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا تھا۔تاہم نیرو کے بعد آنے والے شہنشاہ ویسپاسیئن نے اسے دوبارہ لاگو کر دیا۔سیموئیل میکاؤکس نے لکھا ہے کہ نیرو نے اپنی پالیسیوں کی بدولت سلطنت کو دیوالیہ کر دیا تھا۔ سینیٹ نے نیرو کو ’عوام کا دشمن‘ قرار دے دیا تو انھوں نے خودکشی کر لی اور روم میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔’اس افراتفری سے ویسپاسین اُبھرے۔ وہ ایک عام سرکاری ملازم تھے جو اپنی مالی ذمہ داری اور فوجی مہمات کے لیے جانے جاتے تھے۔ شہنشاہ بنے تو ویسپاسین نے دیکھا کہ شاہی خزانہ خالی ہو چکا ہے۔‘ رِیڈمین کے مطابق ’اپنی ایک دہائی کی مستحکم حکومت میں وہ روم کے مالیاتی نظام میں اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘ویسپاسیئن کا کہنا تھا کہ ’انھیں ریاست کی ٹیکس آمدن تین گنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے انھوں نے نیرو کی طرح اسے منسوخ نہیں کیا۔‘اس ٹیکس کے مخالف وہی تھے جو پیشاب سے پیسہ کماتے تھے۔ چمڑا رنگنے والوں، ٹیکسٹائل ورکرز، اور لانڈری آپریٹرز کو اتنا غصہ تھا کہ انھوں نے عوامی بیت الخلا کا نام ’ویسپاسیئن‘ رکھ دیا۔ ویسپاسیئن ہی کے نام پر اب بھی عوامی پیشاب خانوں کو اٹلی میں ’ویسپاسیانو‘ اور فرانس میں ’ویسپاسیئن‘ پکارا جاتا ہے۔79 عیسوی میں جب ویسپاسیئن کی موت ہوئی تو روم مالا مال تھا۔ ان کے اطالوی زبان میں کہے الفاظ ’پیکیونیا نان اولے‘ آج بھی یہ بیان کرنے کو استعمال ہوتے ہیں کہ پیسے کی قدرو قیمت پر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کہاں سے آیا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}