’ماما فائر فائٹرز‘: انڈونیشیا کی وہ خواتین جو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کسانوں کی مدد کر رہی ہیں،تصویر کا ذریعہVictor Fidelis Sentosa

  • مصنف, آسنتی لیوی
  • عہدہ, بی بی سی فیوچر
  • 50 منٹ قبل

جنگل کے قریب واقع اپنے لکڑی سے بنے گھر میں بیٹھیں سیتی نورینی گھر میں چاول اور باریک پسے ہوئے پان کے پتے سے تیارکردہ سنسکرین کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہم اس کا استعمال نہ کریں تو تیز چلچلاتی دھوپ ہمیں جلا کر رکھ دے۔‘نورینی انڈونیشیا کے علاقے بورنیو کے ضلع کیتاپانگ، مغربی کلیمانٹن میں ایک رضاکار فائر فائٹر کے طور پر اپنی پیٹرولنگ کی ڈیوٹی کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ نورینی ’پاور آف ماما‘ گروہ کی کوآرڈینیٹر ہیں، جو کہ سنہ 2022 میں مقامی برادری کی صحت، معاش اور ماحولیات کے تحفظ میں مدد کے لیے خواتین پر مشتمل ایک فائر فائٹنگ گروہ ہے۔نورینی کہتی ہیں کہ ’ہم ہر سال آگ لگنے کے واقعات کا تجربہ کرتے ہیں، دھواں اتنا خراب ہو گیا ہے کہ رہائشیوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اور سکولوں کو بھی بند کرنا پڑا۔ بہت سے بچے سانس کی تکلیف کا شکار ہوئے۔‘

نورینی کے گاؤں پیماتانگ گاڈونگ سے متصل جنگل انڈونیشیا کی سب سے بڑی اورنگوتان آبادی کا گھر ہے۔ یہ ایک نباتی گل کی زمین والا علاقہ بھی ہے، جو اسے ایک اہم کاربن جذب کرنے والا بناتا ہے۔ جب کہ یہ عالمی سطح زمین کا صرف تین فیصد ہیں، پیٹ لینڈز یعنی نباتی زمین والے علاقے دنیا کے تمام جنگلات سے دوگنا زیادہ کاربن ذخیرہ کرتے ہیں۔گذشتہ صدی کے دوران جنگلات اور زرعی زمین کی بڑھتی ہوئی مانگ دنیا بھر میں پیٹ لینڈز کو کم یا ختم کرنے کی وجہ بنی ہے۔ انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ کاربن والے پیٹ لینڈز کا گھر ہے۔ ان پٹ لینڈز کی اکثریت دنیا کو پام تیل کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے شدید تنزلی کا شکار ہو چکی ہے۔جب نباتی زمین کے یہ علاقے خشک ہو جاتے ہیں تو ان میں آگ لگنے کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جس سے جنگلی حیات اور ارد گرد میں بسنے والے انسانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پیماتانگ گاڈونگ کا علاقہ دو پیٹ لینڈز یا نباتی زمین کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ہر سال خشک موسم کے دوران یہاں کے باسیوں کو ایک خطرہ لاحق رہتا ہے۔نیورینی کہتی ہیں کہ ’آگ اکثر ان خشک علاقوں سے شروع ہوتی ہیں اور زمین کے اس حصے تک پہنچ جاتی ہیں جہاں پانی ہوتا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہVictor Fidelis Sentosa

پاور آف ماما نامی فائر فائٹر گروپ

جب 2022 میں پاور آف ماما نامی فائر فائٹنگ گروپ قائم ہوا تو 44 خواتین رضاکارانہ طور پر اس کا حصہ تھیں مگر اب اس گروپ میں چھ مقامی دیہاتوں سے 92 خواتین ہیں، جن کی عمریں 19 سے 60 کے درمیان ہیں۔ زیادہ تر اراکین گھریلو خواتین ہیں، لیکن حال ہی میں کام کرنے والی کم عمر خواتین نے بھی اس یونٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔نورینی صبح سویرے سے جاگ رہی ہیں، چاول پکا رہی ہیں اور گھر کو صاف کر رہی ہیں۔ صبح کے ساڑھے نو بجے وہ چھ دیگر خواتین کے ساتھ اپنی موٹر سائیکل پر جنگل کی طرف جاتی ہیں۔ انھوں نے لمبی آستینوں والا بھورے رنگ کا حجاب پہن رکھا ہے، جس پر ’دی پاور آف ماما‘ کے الفاظ درج ہیں اور انھوں نے گھٹنوں تک ربڑ کے جوتے پہن رکھے ہیں۔یہ برسات کا موسم ہے اس لیے فی الحال آگ کم لگی ہے۔ خواتین پیٹرولنگ ڈیوٹی پر ہیں اور پھلیاں، کیلے، مرچیں، گوبھی اور کدو اگانے والے کسانوں سے ملنے جاتی ہیں۔ یہ کسان فصل کاٹنے کے بعد باقیات وغیرہ تلف کرنے کے لیے زمینوں کو آگ لگاتے ہیں تاکہ کاشت کے لیے زمین کو دوبارہ صاف کیا جا سکے۔ مقامی حکومت کی طرف سے کاشتکاری کے اس طریقہ کار کی اجازت ہے، جب تک کہ یہ 20,000 مربع میٹر سے کم رقبے پر پھیلے ہوئے علاقے میں ہو۔پاور آف ماما فائر فائٹرز گاؤں کے حکام کے ساتھ مل کر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کون سے کسان اپنی زمین کو آگ لگا کر صاف کر رہے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ جلتی ہوئی زمین کو کنٹرول میں رکھیں۔،تصویر کا ذریعہVictor Fidelis Sentosa

پاور آف ماما گروہ کی کسانوں کی مدد

پاور آف ماما کسانوں کو زمینوں کو جلا کر صاف کرنے کے بجائے، نائٹروجن کو مٹی میں واپس لانے اور فصل کی نشوونما کو بڑھانے کے لیے نامیاتی کھاد کے استعمال کی ترغیب دے کر ان کی زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں بھی مدد کر رہی ہیں۔نورینی کہتی ہیں کہ یہ طرز عمل نہ صرف ہمارے ماحول کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہوئے کاشتکاری کی طویل مدت کو بھی یقینی بناتے ہیں۔‘پاور آف ماما کی سب سے بڑی عمر کی رکن ساٹھ سالہ جوریا کہتی ہیں کہ ’ہم خواتین کسانوں کو اپنی زمین کا انتظام کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں، جیسے قدیم زمانے میں لوگ کرتے تھے۔‘وہ کہتی ہیں کہ اس کا مقصد یہ ہے کہے نباتی زمین یا گیلی زمین کو تیزابیت سے بچانا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ کسان اپنی فصلوں کو کھاد ڈالنے کے لیے شکر، انناس، کیکڑے کے پیسٹ، چوکر اور ٹیپیو کا کا مرکب استعمال کر سکتے ہیں۔یہاں خشک موسم کے دوران فصلوں کو آگ لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ماما فائر فائٹرز ہر روز گشت کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ممکنہ آگ کا جلد سے جلد پتہ چل جائے۔ انھیں اکثر گاؤں کے ایسے لوگوں سے رپورٹس موصول ہوتی ہیں، جو ماحول کے تحفظ کے لیے ماما گروپ کے کام پر یقین رکھتے ہیں۔ بعض اوقات یہ رپورٹس انھیں ان علاقوں کی طرف لے جاتی ہیں جہاں تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔جب یہ خواتین آگ کا سامنا کرتی ہیں تو نورینی دوسری خواتین کو آگ بجھانے کے لیے پائیپوں کو اٹھانے اور پانی پمپ کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ دوپہر کے وقت، خواتین نورینی کے گھر پر سادہ لنچ کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ سہہ پہر ساڑھے تین بجے تک گشت جاری رکھیں گی۔پاور آف ماما گروہ انڈونیشین نیچر ری ہیبلیٹیشن انیشیشن فاؤنڈیشن (یاری) نے قائم کیا تھا، جو ایک غیر منافع بخش بین الاقوامی جانوروں کے بچاؤ کا ادارہ ہے۔یاری کی ڈائریکٹر کرمیلے لانو شانچیز نے بورنیو کی پہلی تمام خواتین پر مشتمل فائر فائٹنگ سکواڈ بنانے کا فیصلہ کیا تھا جب ایک مقامی کسان نے زمین کے ایک حصے کو صاف کرنے کے لیے آگ لگا دی تھی اور یاری کے عملے نے اس شخص کو آگ بجھانے کے لیے کہا تھا لیکن اس نے انھیں نظر انداز کر دیا۔ ایسا ہی اس وقت بھی ہوا تھا جب انھوں نے مقامی حکام سے مداخلت کرنے کو کہا تھا۔وہ بتاتی ہیں کہ لیکن پھر ہم نے اس کی بیوی کو بتایا، جس نے بعد میں اسے آگ بجھانے کو کہا اور اس نے آگ بجھا دی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس تجربے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خواتین آگ سے بچاؤ کے حوالے سے کمیونٹیز کے رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ یاری پاور آف ماما کی خواتین اراکین کو آگ سے لڑنے، ڈرون چلانے اور پیٹ لینڈ میں لگنے والی آگ کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے عوامی مذاکرے پیش کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔سانچیز کا کہنا ہے کہ پیٹ لینڈ کے علاقے میں رضاکار فائر فائٹر بننا آسان نہیں ہے۔ پیٹ لینڈ میں لگنے والی آگ کا پتہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ زیر زمین واقع ہوتی ہیں اور اس لیے ہمیشہ فوری طور پر نظر نہیں آتی۔سانچیز کا کہنا ہے کہ اس میں صحت کے سنگین خطرات بھی ہیں کیونکہ خواتین کو بہت زیادہ دھوئیں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ جلتی ہوئی جگہ میں پھنس سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان خطرات سے بچنے کے لیے خواتین حفاظتی ماسک پہنتی ہیں اور انھیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ پانی کے اوض کو محفوظ فاصلے سے کیسے چھڑکنا ہے۔نورینی کہتی ہیں کہ آج تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم کچھ خواتین کو چوٹیں ضرور آئی ہیں، خاص طور پر جب وہ کچے علاقوں میں گاڑی چلاتے ہوئے اپنی موٹر سائیکلوں سے گری تھیں۔سانچیز کہتی ہیں کہ ’برسات کا موسم اپنے چیلنجوں کا ایک مجموعہ لاتا ہے: پاور آف ماما کی اراکین کشتیوں میں گشت کرتے ہوئے، سیلاب زدہ علاقوں کو عبور کرتی ہیں۔‘خواتین کے حقوق اور مغربی کلیمانتن سے ماحولیاتی کارکن لیلیٰ خیرنور کہتی ہیں کہ خواتین اپنی کمیونٹی میں ماحولیاتی بیداری کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔لیلیٰ کہتی ہیں کہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کمیونٹی کی سطح پر پروگراموں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین بنیادی فائدہ اٹھانے والی ہیں، اس لیے کسی پروگرام کی ملکیت کا احساس ہی ان کی شمولیت کی بنیاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ایک پروگرام کو اچھی طرح سے چلانے کا مطلب اپنی مدد کرنا ہے۔‘

’جب خواتین پاور آف ماما میں شامل ہوئیں تو ان کا مذاق اڑایا گیا‘

،تصویر کا ذریعہVictor Fidelis Sentosaنورینی کا کہنا ہے کہ جب خواتین پاور آف ماما میں شامل ہوئیں تو ابتدا میں ان کا مذاق اڑایا گیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’یونیفارم پہننے اور گشت میں شامل ہونے پر ہمارا مذاق اڑایا گیا۔‘ وہ یاد کرتی ہیں کہ ’گاؤں کے مرد ہمارا مذاق اڑاتے اور ایسی باتیں کہتے کہ عورتیں گشت کر رہی ہیں؟ واقعی؟ عورتیں کیوں گشت کریں گی، کیا آپ کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور بہتر کام نہیں ہیں؟‘جوریا کو بھی ایک ناخوشگوار تجربہ یاد ہے۔ گذشتہ برس آگ بجھانے کی کوشش میں ایک کسان نے اس پر انناس چوری کرنے کا جھوٹا الزام لگایا۔ اس بات سے پریشان ہو کر وہ کھیت چھوڑ کر چلی گئی۔ تاہم، جب آگ اسی علاقے میں دوبارہ واپس آئی تو گاؤں والوں نے جوریا کو مدد کے لیے پکارا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں جب پانی پمپ کرنے والی مشین لے کر اس کے کھیت میں گئی تو اسے شرم محسوس ہوئی۔‘سانچیز کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو ماما گروہ کا مذاق اڑاتے تھے اب انھیں گاؤں کی محفلوں میں مدعو کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ’رویے کو بدلنا مشکل ہے، لیکن گاؤں کی سطح پر چھوٹی تبدیلیاں ایک اچھی شروعات ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک طویل عرصے تک خواتین کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ لیکن اب سب کو احساس ہے کہ وہ معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔‘ذکریا، قریبی سنگائی بیسر گاؤں کے مالیاتی امور کے سربراہ ہیں۔ وہ ماما گروپ کو ’مقامی ہیرو اور کمیونٹی کے اہم کردار‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گاؤں کے حکام کے ساتھ ماما کے قریبی تعاون کی وجہ سے پچھلے سال گاؤں میں کوئی آگ نہیں لگی تھی۔نومبر 2023 میں پاور آف ماماز کو مقامی کمیونٹیز کے لیے صاف ہوا کو یقینی بنانے میں ان کے کام کے لیے انڈونیشیا کا کلین ایئر چیمپئن شپ ایوارڈ 2023 ملا۔نورینی کہتی ہیں کہ پاور آف ماما کے ساتھ ان کی شمولیت نے انھیں فائر فائٹنگ سے زیادہ کچھ سکھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ماحولیات، جانوروں کی حفاظت اور ایسی چیزوں کا مقابلہ کرنے کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے، جو جنگل یا دریا کے ماحولیاتی نظام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ وہ چیزیں جو ہم نے سکول میں سیکھی ہیں، لیکن اس بار یہ بہت زیادہ تفصیلی ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’میری ایک پانچ سالہ بیٹی ہے اور اب میں اسے جانوروں اور فطرت کی دیکھ بھال کے بارے میں سکھا رہی ہوں۔‘سانچیز کے لیے یہ صرف آگ سے لڑنے کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ان خواتین کو مزید پراعتماد ہوتے ہوئے اور اپنے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بارے میں ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}