مرینا کوپیل: پیر کا خون آلود نشان، انگوٹھی میں پھنسا بال اور سیکس ورکر کا قتل جو 30 برس تک معمہ بنا رہا،تصویر کا ذریعہFAMILY HANDOUTایک گھنٹہ قبللندن میں ایک شخص کو 30 برس قبل ہونے والے ایک قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی شناخت اس کے پیر کے خون آلود نشان اور انگوٹھی میں پھنسے بال سے کی گئی ہے۔ اگست سنہ 1994 میں 39 برس کی مرینا کوپیل کو ان کے شوہر نے مرکزی لندن میں ایک فلیٹ میں مردہ حالت میں پایا تھا۔ ان پر 140 مرتبہ چاقو کا وار کیا گیا تھا۔ عدالت کو معلوم ہوا کہ سنہ 2022 میں 51 سالہ سندیپ پٹیل اس وقت اس قتل کے ملزم بن گئے تھے جب سنہ 2008 میں ملنے والے بال کے ساتھ سنہ 2022 میں ان کا ڈی این اے میچ کر گیا تھا۔انھوں نے اس وقت قتل کے الزام کو مسترد کیا تھا تاہم بعد میں جیوری نے انھیں مجرم قرار دیا تھا۔

اس سے قبل مقدمے میں عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ شمالی لندن سے تعلق رکھنے والے پٹیل کے پیر کا نشان جائے وقوعہ پر پائے گئے پیر کے خون آلود نشان سے میچ کر گیا تھا۔ جیوری کو بتایا گیا کہ ان کا ڈی این اس بال کے ساتھ بھی میچ کر گیا تھا جو سنہ 2008 میں ایک فرانزک اہلکار کو کوپیل کی انگلی پر موجود انگوٹھی سے ملا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کوپیل کے دو بچے تھے جو کولمبیا میں ان کے آبائی علاقے میں موجود گھر میں رہتے تھے اور انھوں نے لندن میں فلیٹ کرائے پر اس لیے لیا تھا کیونکہ وہ بطور مالشی اور سیکس ورکر کام کرتی تھیں۔ جیوری کو بتایا گیا کہ ان کے شوہر جو خود نارتھ ایمپٹن میں رہتے تھے ان کے کام کو ’اچھا تو نہیں سمجھتے تھے‘ لیکن انھوں نے اسے ’تسلیم کر لیا تھا۔‘ان کے شوہر اس لیے اس فلیٹ تک ڈرائیو کر کے گئے کیونکہ ان کی بیوی جواب نہیں دے رہی تھیں اور انھیں ان کی لاش رات گئے ان کے بیڈروم میں فرش پر پڑی ملی جہاں وہ اپنے کلائنٹس سے ملتی تھیں۔جیوری کو بتایا گیا کہ ’ہر طرف‘ خون ہی خون تھا۔،تصویر کا ذریعہMET POLICE HANDOUTکوپیل کے شوہر سنہ 2005 میں وفات پا گئے تھے اور انھیں کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی اہلیہ کو کس نے ہلاک کیا۔کوپیل کی بھابھی اور بہنوئی میری اور مارٹن نے انھیں اس دوران خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’بہت روشن خیال، ذہین اور بااثر شخصیت تھیں جو جس بھی شخص سے ملتیں اس میں خیر کا پہلو ڈھونڈتیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ان کی فیملی اور دوست بہت خوش ہوتے اگر آج وہ زندہ ہوتیں۔‘پولیس اہلکار کیتھرین گوڈون نے انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری ہمدردیاں میرینا اور ان کی فیملی کے ساتھ ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آج کے فیصلے کے بعد انھیں سکون ملا ہو گا۔‘’حالانکہ پٹیل کو آج مجرم قرار دیا گیا ہے لیکن شاید ہمیں اس روز ان کی جانب سے کیے گئے عمل کی وجوہات کبھی معلوم نہ ہو سکیں۔‘،تصویر کا ذریعہMET POLICEمیٹ پولیس کے فرانزک محکمے کے سربراہ ڈین چیسٹر کا کہنا ہے کہ ’حل نہ ہونے والے قتل کے مقدمے پولیس کے لیے بہت مشکل ثابت ہوتے ہیں۔ ’لیکن آج کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ فرانزک سائنس، نئی ٹیکنالوجی اور مل کر کام کرنے سے مثبت اثر پڑ سکتا ہے اور ایک قاتل کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔‘جیوری نے اس پر تین گھنٹے اور 10 منٹ تک سوچ بچار کی اور بھر پٹیل کو مجرم قرار دیا۔ انھیں اسی عدالت میں جمعے کو سزا سنائی جائے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}