نوکریوں کی منڈی میں لچک اور کھربوں ڈالر کے وظیفے۔۔۔ امریکہ کی معیشت نے یورپ کو کیسے پیچھے چھوڑا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ایرن ڈیلمور
  • عہدہ, نامہ نگار برائے کاروبار، نیو یارک
  • 2 گھنٹے قبل

دنیا بھر کے ممالک نے عالمی وبا کے دوران معاشی چیلنجز کا سامنا کیا مگر ایک ملک سب سے مضبوط بن کر ابھرا۔ امریکہ نہ صرف تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے جہاں مزدوروں کی مانگ ہے بلکہ ملک میں مہنگائی کی شرح بھی کم ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ نے یورپ اور دنیا بھر کے دوسرے امیر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ میں 2023 کی چوتھی سہہ ماہی کے دوران مجموعی قومی پیداوار کی شرح 3.3 فیصد ریکارڈ کی گئی جو ماہرینِ معیشت کی دو فیصد کی توقع سے کافی زیادہ ہے۔ 2023 کے دوران امریکہ کی جی ڈی پی 2.5 فیصد رہی۔ اس نے تمام ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑا اور 2024 میں امریکہ ایسا دوبارہ کر سکتا ہے۔

آکسفورڈ اکنامکس کے چیف معیشت دان رائن سویٹ نے کہا کہ ’امریکہ دیگر ممالک سے کافی بہتر کارکردگی دکھا پایا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ امریکی معیشت کا انجن رواں دواں رہتا ہے جبکہ دوسروں کا رُک جاتا ہے۔‘ماہرین نے امریکی معیشت کی اس بہتر کارکردگی کی کچھ وجوہات بتائی ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images

1. ملک چلانے کے لیے کھربوں ڈالر کے وظیفے

کووڈ 19 کے دوران لوگوں کا کام اور سماجی زندگی رُک گئی تھی۔ کئی ملکوں کی جانب سے گھر بیٹھے لوگوں کو سپورٹ دیا گیا۔ ان میں سے کئی وہ لوگ تھے جن کا روزگار چھن گیا تھا۔ مارچ 2020 کے دوران کانگریس نے 2.2 ٹریلین (22 کھرب) ڈالر کا بل منظور کیا جس کے تحت امریکی ملازمین، خاندانوں اور کاروباروں کے لیے رقوم کے وظیفے دیے گئے۔ دو مزید قوانین لائے گئے تاکہ چھوٹے کاروبار بند فعال رہیں اور لوگ بے روزگار نہ ہوں۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا رکھنے کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کی گئی۔ قریب پانچ ٹریلین (50 کھرب) ڈالر انفرادی سطح پر جاری کیے گئے جس میں بے روزگاروں کو ہفتہ وار اضافی 600 ڈالر ملے۔ جبکہ مسافروں کی قلت سے پریشان مقامی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بھی اس سے مدد کی گئی۔ گلاس ڈور کے چیف اکنامسٹ ایرن ٹیرازاس نے کہا ہے کہ ’2008 اور 2009 میں پالیسی سازوں کی ایسی نسل پیدا ہوئی جسے سبق ملا تھا کہ اگر آپ بڑے فیصلے نہیں کرتے تو مسائل دیر تک رہتے ہیں۔‘’اگر آپ ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں تو نقصان بھی دیر پا ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اسی وجہ سے اس بار مضبوط مالیاتی ردعمل دیکھنے کو ملا۔‘

اس طرح امریکی معیشت میں قوت خرید کو مستحکم رکھا گیا جو کہ ملک کی معاشی سرگرمیوں کا ستر فیصد حصہ ہے۔ امریکی معیشت اس لیے ڈوبنے سے بچی کیونکہ شدید مہنگائی کے باوجود لوگوں میں قوت خرید تھی۔ رائن سویٹ کہتے ہیں کہ خاندانوں کو ملنے والی کچھ اضافی آمدن ان کی بچت کا باعث بنی۔ جس نے اس جنگ میں ہتھیار کا کام کیا۔امریکہ میں ہنگامی بنیادوں پر کیا گیا یہ معاہدہ جاپان، جرمنی اور کینیڈا سے کئی گنا بڑا تھا۔ یورپی ممالک میں امریکہ میں کافی بہتر سوشل سکیورٹی نیٹ ہے۔ انھوں نے اخراجات بڑھائے بغیر موجودہ پروگرامز میں ترامیم کیں لیکن یہ قلیل مدتی فائدہ لوگوں کی ضرورت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images

2. روزگار کی منڈی میں لچک

شدید مہنگائی بہت سے امریکیوں کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہے اور اس سے معیشت کے بارے میں خیالات تبدیل ہوئے ہیں مگر جاب مارکیٹ کی مضبوطی سے اضافی آمدن حاصل ہوسکی اور اس طرح قوت خرید کا انجن رواں دواں رہا۔ فروری 2022 سے امریکہ میں بے روزگاری کی شرح چار فیصد سے کم رہی ہے۔ یہ تاریخی اعتبار سے کم سے کم شرح کی فہرست ہے۔ایک طرف قیمتوں میں اضافے ہوئے تو دوسری طرف تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں۔ کم آمدن والے بعض گھرانوں کی آمدن میں سب سے مضبوط انداز میں بہتری لائی گئی۔ 2023 میں امریکی پیداوار میں گذشتہ کئی برس کے مقابلے بڑی تیزی آئی۔زیپ ریکروٹر نامی کمپنی کی چیف اکنامسٹ جولیا پولاک کا کہنا ہے کہ لچکدار لیبر قوانین کی مدد سے کمپنیوں نے عالمی وبا کے آغاز میں ملازمین نکالے۔ قلیل مدتی نقصان کے بعد کمپنیوں نے اپنی پوزیشن کو تبدیل کیا اور نئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی۔ وہ ہوٹلوں کی مثال دیتی ہیں جنھوں نے ملازمین کو نکالا اور پھر عالمی وبا سے پہلے کی سطح پر انھیں دوبارہ بھرتی کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے خود کو کافی تبدیل کیا۔ سیلف چیک آؤٹ اور موبائل چیک اِن جیسے فیچر متعارف کرائے گئے۔ انھوں نے کمروں کی صفائی کی فریکیوئنسی کم کی اور روم سروس ختم کر دی کیونکہ اب صارفین اکثر اوبر ایٹس کا استعمال کرتے ہیں، کھانے کا خود آرڈر دیتے ہیں اور ڈیلیوری پکڑتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ہوٹلوں نے اپنے اخراجات کم کیے جس سے وہ طویل مدت میں اپنے ملازمین کو زیادہ مراعات دینے کے قابل ہوئے۔ امریکہ کو ایک اور معاملے میں فوقیت حاصل ہے: یہ اپنی لیبر مارکیٹ کو دوبارہ بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بیبی بومر جنریشن (20ویں صدی کے وسط میں پیدا ہونے والے افراد) کی ریٹائرمنٹ سے آبادی کی پیداوار کم ہوئی۔ اس دوران امیگریشن کے ذریعے جاب مارکیٹ کو دوبارہ بھرا گیا۔یورپی حکمت عملی کے تحت ان کمپنیوں کو مراعات ملیں جنھوں نے لاک ڈاؤن کے باوجود ملازمین کو نوکریوں سے نہیں نکالا۔ برطانوی فارلو سکیم کے تحت 18 ماہ سے زیادہ عرصے تک ملازمین کو ان کی 80 فیصد تنخواہیں دی گئیں۔ امریکہ کو شدید بے روزگاری کا سامنا تھا تو یوں بے روزگار افراد کے لیے مراعات بڑھا دی گئیں جن کے لیے مزید بے روزگار افراد کو اہل بنایا گیا۔ اس سے انھیں براہ راست کیش ہینڈ آؤٹس یعنی وظیفے ہاتھ میں دیے گئے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

3. توانائی کے شعبے پر انحصار

امریکہ مجموعی طور پر توانائی کا برآمد کنندہ ہے۔ اس نے امریکی معیشت کو مضبوط رہنے کی صلاحیت دی۔ جب فروری 2022 کے دوران روس نے یوکرین میں مداخلت کی تو توانائی کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ امریکہ کے مقابلے اس سے یورپ کو کئی گنا نقصان ہوا۔ یورپ میں پیداواری لحاظ سے بڑا ملک جرمنی اپنے اور روس کے درمیان نارڈ سٹریم پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس درآمد کرتا ہے۔ اس کی پیداوار کو شدید دھچکہ لگا۔ توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے یورپ میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا۔ ماہرین نے عالمی وبا اور یوکرین جنگ کو ’ڈبل شاک‘ کہا ہے۔ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ (او ای سی ڈّی) کے لیے امریکی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہر بین ویسٹ مور نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں پر یوکرین جنگ کا امریکہ کے مقابلے یورپ پر زیادہ بُرا اثر تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 2021 اور 2022 کے اوائل میں یورپ میں گیس کی قیمتوں میں 20 فیصد تک کا اضافہ ہوا جبکہ اسی دوران امریکہ میں گیس کی قیمتوں میں تین سے چار فیصد اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں نہ صرف قیمتوں میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا بلکہ اس کا زیادہ تر بوجھ عام صارفین نے اٹھایا، نہ کہ کاروباروں نے۔ ’ان دونوں عوامل کی بدولت دوسرے ممالک، خاص کر یورپ، کے مقابلے امریکہ تیزی سے مہنگائی پر قابو رکھنے میں کامیاب رہا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}