’یوتھنیزیا‘: نیدرلینڈ کے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ نے اکٹھے موت کو گلے لگا لیا، ’70 برس کے ساتھ کا بےخوف اختتام‘،تصویر کا ذریعہNIEK T NISSEN / RADBOUD UNIVERSITY
،تصویر کا کیپشنوین اگٹ نے اپنی اہلیہ یوجین کے ہمراہ یوتھنیزیا کے ذریعے موت کو گلے لگا لیا
15 فروری 2024، 09:14 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 13 منٹ قبل’بے خوف اور متاثر کُن۔‘دی رائٹس فورم نے اپنے بانی اور نیدرلینڈ کے سابق وزیر اعظم ڈراس وان اگٹ کی موت کا اعلان اس بیان کے ساتھ کیا۔ وین اگٹ نے اپنی اہلیہ یوجین کے ہمراہ ’یوتھنیزیا‘ کے ذریعے رواں ماہ کے آغاز پر موت کو گلے لگایا ہے۔’یوتھنیزیا‘ ایسی موت کو کہا جاتا ہے جس میں لاعلاج مرض یا انتہائی تکلیف میں مبتلا شخص کی درخواست پر ڈاکٹر کسی مریض کی جان بغیر کوئی تکلیف دیے ممکن بناتا ہے۔

نیدرلینڈز میں سنہ 2002 سے ’یوتھنیزیا‘ اور خودکشی میں معاونت کی اجازت ہے۔ اس طرح سے موت کو گلے لگانے کی اجازت قانونی طور پر ہونے کے باعث کئی جوڑوں نے یوتھنیزیا کے ذریعے ایک ساتھ مرنے کی اپنی خواہش کو پورا کیا ہے۔ اس عمل کے دوران ڈاکٹر عموماً دوا کی ایک مہلک خوراک کے ذریعے موت کو یقینی بناتے ہیں۔نیدرلینڈ کے سابق وزیر اعظم ڈراس وان اگٹ اور ان کی اہلیہ کی عمریں 93 سال تھیں جب 5 فروری کو دونوں نے ’ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے‘ موت کو گلے لگایا۔ دی رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق ان دونوں کی صحت کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث انھوں نے موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وان اگٹ، ایک بااثر سیاست دان تھے جن کی طویل خدمات رہی ہیں۔ انہیں سنہ 2019 میں فالج کا دورہ پڑا جس سے وہ کبھی بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے جبکہ ان کی اہلیہ یوجین کی صحت بھی خراب تھی۔

سات دہائیوں کا ساتھ

اینڈریاس (ڈراس) وان اگٹ اور یوجین کریکلبرگ 70 سال پہلے اُس وقت ملے تھے جب دونوں آرٹ کے طالب علم تھے۔ تب سے دونوں ساتھ تھے۔ انھوں نے چند سال بعد شادی کر لی تھی اور پوری زندگی وہ ایک دوسرے کی پرچھائی بن کر رہے۔ سنہ 1931 میں پیدا ہونے والے ڈراس وان اگٹ کی پرورش کیتھولک ماحول میں ہوئی۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے زراعت، ماہی پروری اور انصاف کی وزارتوں میں بطور وکیل کام کیا۔ بعد ازاں انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔سنہ 1971 سے 1977 کے درمیان وہ وزیر برائے انصاف جبکہ 1982 میں وزیرِ خارجہ کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے 1977 سے 1982 کے درمیان ڈچ حکومت کی تین کابینہ میں بطور وزیر اعظم خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انھیں جاپان اور امریکہ میں یورپی یونین کا سفیر مقرر کیا گیا۔وان اگٹ کے وسیع سیاسی کیرئیر کے دوران، ان کی اہلیہ یوجین نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور ہر مقامی اور غیر ملکی تقریبات میں ان کے ساتھ نظر آئیں۔ تصاویر میں وہ لوگوں کو مبارکباد دیتے، انتخابات میں ایک ساتھ ووٹ ڈالتے یا کھل کر ایک دوسرے کے لیے اپنا پیار ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنوان اگٹ کو 1987 میں جاپان میں یورپی یونین کا سفیر مقرر کیا گیا تھا
یوجین تب بھی ان کے ساتھ تھیں جب انھوں نے سنہ 2009 میں دی رائٹس فورم کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پرامن حل تلاش کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔وان اگٹ سمجھتے تھے کہ فلسطینی عوام کے ساتھ ’ناانصافی‘ ہو رہی ہے اور اس بارے میں انھوں نے دو کتابیں اور متعدد مضامین لکھیں۔سنہ 2019 میں انھیں فالج کا دورہ پڑا جس سے وہ جزوی طور پر صحت یاب ہو گئے تھے۔دی رائٹس فورم کا کہنا ہے کہ اگرچہ انھوں نے فالج کے بعد بھی فلسطینی مسئلے کی پیروی جاری رکھی مگر وہ اپنی تخلیقی صلاحیت، ارتکاز اور تقریر کرنے کی صلاحیت کے متاثر ہوئے کی وجہ سے مایوس تھے۔اس ہی دوران، ان کی محبوب بیوی اور ابدی سہارے یوجین کی صحت بھی بتدریج خراب ہو رہی تھی اور یہ واضح تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہنا چاہتے تھے۔ لہذا دونوں نے 93 سال کی عمر میں 5 فروری کو ایک ساتھ یوتھنیزیا سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔نیدرلینڈز کے موجودہ قائم مقام وزیر اعظم مارک روٹے نے انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا جب کہ ڈچ شاہی خاندان نے ان کی ’حیرت انگیز شخصیت‘ کی تعریف کی۔انھوں نے سوگواروں میں تین بچے چھوڑے ہیں۔ وان اگٹ اور یوجین کو نجمگین میں دفن کیا گیا، جہاں وہ پہلی بار ملے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنسنہ 2019 میں سابق وزیراعظم کو فالج کا دورہ پڑا جس سے وہ جزوی طور پر صحت یاب ہو گئے

نیدرلینڈز میں یوتھنیزیا کا بڑھتا رجحان

یوتھنیزیا ریویو کمیٹیوں کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض کی اپنی زندگی ختم کرنے کی درخواست کی تعمیل کرتا ہے تو اسے یوتھنیزیا کہا جاتا ہے۔اگر ڈاکٹر مریض کی زندگی ختم کرنے میں مدد کرتا ہے تو اسے معاون خودکشی کہا جاتا ہے۔سنہ 2002 سے نیدرلینڈز میں دونوں طریقوں سے موت کو گلے لگانے کی اجازت ہے، لیکن قانون میں لکھے گئے ضوابط کے ذریعے اس کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔یوتھنیزیا کی درخواستیں اکثر ایسے مریضوں کی طرف سے آتی ہیں جو ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اور جن میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہوتی ہے۔یوتھنیزیا درخواست پوری سنجیدگی اور یقین کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ مریضوں کو یوتھنیزیا کا مکمل حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ڈاکٹرز اس پر عمل کرنے کے لیے مکمل طور پر پابند ہیں۔جوڑوں میں ایک ساتھ یوتھنیزیا کا رجحان حال ہی میں دیکھنے میں آیا ہے لیکن اب یہ عام ہوتا جا رہا ہے۔نیدرلینڈز میں سنہ 2022 میں تقریباً 9,000 افراد انفرادی یوتھنیزیا کے عمل سے گزرے۔ ان میں سے 29 جوڑے تھے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}