تاریخ کا دھارا موڑنے والے اُس عالمی رہنما کی رہائی کی کہانی جنھیں ’دنیا کی نظروں سے چھپا کر‘ 27 سال قید رکھا گیا،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, میلس برک
  • عہدہ, بی بی سی کلچر
  • 2 گھنٹے قبل

مقامی وقت کے مطابق شام چار بج کر 12 منٹ پر نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کی ’وکٹر ورسٹر جیل‘ سے اپنی اُس وقت کی اہلیہ وینی کا ہاتھ تھامے 27 برس کی قید کاٹنے کے بعد جیل سے باہر نکلے تھے۔ وہ 11 فروری 1990 کا دن تھا۔ہزاروں لوگوں کا مجمع شدید گرمی میں کئی گھنٹوں سے جیل سے باہر کھڑا ان کا منتظر تھا تاکہ وہ اُن کی ایک جھلک دیکھ سکے۔ نیلسن منڈیلا کو ان کی اسیری کے 27 برسوں کے دوران کم ہی لوگوں سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔حکومت نے قید کے دوران اس امید کے ساتھ اُن کی کوئی تصویر جیل سے باہر نہیں نکلنے دی تھی کہ اُن کی سزا کے بعد انھیں ملنے والی مقبولیت کو دبایا جا سکے اور لوگوں کے ذہنوں سے ان کی شبیہ کو محو کیا جا سکے۔

ان تمام تر اقدامات کے باوجود سزا ملنے کے بعد وہ نسلی امتیاز برتنے والی ریاست کے خلاف ایک مزاحمت کی علامت بن گئے تھے جو جنوبی افریقہ کی سیاہ فام آبادی پر ظلم کرتی تھی۔ سنہ 1990 تک انھیں تقریباً ایک افسانوی مقام مل چکا تھا۔جیل کے باہر سڑک پر اُن کے ہزاروں حامی جمع تھے اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے سبز، سنہرے اور کالے رنگ کی پٹیوں والے جھنڈے تھامے ہوئے تھے جو کہ افریقن نیشنل کانگرس (اے این سی) کا پارٹی پرچم تھا۔ اس جماعت پر بھی پابندی تھی مگر منڈیلا کی رہائی سے کچھ عرصہ قبل یہ پابندی اٹھا لی گئی تھی۔ جیسے ہی نیلسن منڈیلا اور اُن کی اہلیہ جیل سے باہر نکل کر منظر عام پر آئے تو لوگوں کا جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا۔ منڈیلا 27 سال کی قید کے بعد بھی پُرعزم نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے ہوا میں مُکا لہرایا جو اُن کی جانب سے فتح کا پیغام تھا۔ اس دن ان کی جیل سے رہائی بظاہرایک تاریخی دن تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جنوبی افریقہ کے مشرقی صوبے کیپ میں سنہ 1918 میں پیدا ہونے والے نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کے نسلی امتیاز والے قوانین کے خلاف ’اے این سی‘ کی قیادت کی تھی۔ یہ ایسے قوانین تھے جنھوں نے نسلی درجہ بندی کو نافذ کیا اور سیاہ فام اکثریت کو محکوم بنا دیا تھا۔یہ قوانین جنھیں ’پاس لاز‘ کہا جاتا تھا سیاہ فام جنوبی افریقی باشندوں کی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی تھے۔ یہ قوانین افراد کی نقل و حرکت کو محدود کرتے تھے اور اُن کے بنیادی انسانی حقوق کو رد کرتے تھے۔اس وجہ سے نیلسن منڈیلا ہر سفید فام حکومت کا ہدف بنے رہے تھے جو ان کی حکومت کے خلاف بائیکاٹ اور ہڑتالوں کی کوششوں کو کمزور کرنے کے لیے انھیں ہراساں کرتی، ڈراتی اور اُن کو گرفتار کرتی تھی۔YouTube پوسٹ نظرانداز کریںGoogle YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ YouTube کے مواد میں اشتہارات ہو سکتے ہیں۔YouTube پوسٹ کا اختتاممواد دستیاب نہیں ہےYouTube مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.

ان کے لیے اہم موڑ سنہ 1960 کے واقعہ ’شارپ ول‘ تھا جب ’پاس لاز‘ کے خلاف احتجاج کرنے والے 69 سیاہ فام افراد کو پولیس نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ سنہ 1990 میں نیلسن منڈیلا نے بی بی سی کے جان بیکویل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’لوگوں نے محسوس کیا کہ ہم نے اب قوانین کے خلاف اپنے پاس موجود تمام آپشنز اور اپنی تمام قوت استعمال کی مگر اس سے نہ صرف ہماری زندگیوں کے حالات میں کوئی بہتری آئی بلکہ حکومت نے ہمارے عدم تشدد کے عزم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید سخت ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں ہم نے تشدد کے راستے کا فیصلہ کیا۔‘اس کی وجہ سے اے این سی کی طرف سے اقتصادی تخریب کاری کی مہم شروع کر دی گئی جس نے لوگوں کے بجائے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا اور نیلسن منڈیلا کی گرفتاری کا باعث بنی۔ منڈیلا سمیت دیگر افراد پر تخریب کاری، غداری اور پرتشدد سازش کے الزامات عائد کیے گئے۔ کمرہ عدالت میں تقریر کرتے ہوئے منڈیلا نے اپنے بنیادی عقائد کو یقین اور بغیر خوف کے بیان کیا۔انھوں نے کہا ’میں ایک جمہوری اور آزاد معاشرے کے تصور کو پسند کرتا ہوں جس میں تمام افراد ہم آہنگی اور مساوی مواقع کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ یہ ایک تصور ہے جسے میں جینے اور پا لینے کی خواہش کرتا ہو۔ لیکن یہ ایک ایسا تصور ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے میں مرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘

قید کے سخت حالات

سنہ 1964 میں نیلسن منڈیلا کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ انھوں نے کہا ’اگرچہ ہمیں سزا سنائی گئی اور جیل بھیج دیا گیا، لیکن ہم نے محسوس کیا کہ ہم نے حکومت پر اخلاقی برتری حاصل کر لی ہے۔ ہمارا دفاع حکومتی پالیسی پر حملہ تھا، یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے ہم سے پوچھا ’کیا آپ قصوروار ہیں؟ اور ہم نے جواب دیا نہیں ہم قصوروار نہیں، قصوروار حکومت ہے۔‘ ’اور اسی لیے جب ہمیں جیل بھیجا گیا تو ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم جیت گئے ہیں۔ اور یہ کہ جو لوگ اصل میں ملزم تھے وہ حکومت ہی تھی۔‘نیلسن منڈیلا نے روبن آئی لینڈ کی جیل میں 18 سال گزارے۔ دن کے وقت وہ چونے کے پتھر کی کھدائی کا کام کرتے۔ ’آپ کو معلوم ہے چونے کے پتھر کو کھودنا بہت مشکل کام ہے، اس کی تہیں ہوتی ہیں۔ یہ پتھر کی تہوں کے درمیان ہوتا ہے۔‘انتظامیہ نے پوری کوشش کی کہ نیلسن منڈیلا کو دنیا سے چھپا کر رکھا جائے۔ سال میں ایک بار انھیں کسی سے ملنے دیا جاتا تھا، وہ بھی صرف 30 منٹ کے لیے۔ اس دوران اُن کی والدہ اور بیٹے کی وفات ہوئی اور انھیں ان کی آخری رسومات میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم وہ اپنے خطوط کو جیل سے باہر پہنچانے میں کامیاب رہے جس میں وہ اے این سی کی حمایت میں آواز بلند کرتے تھے۔سنہ 1982 میں انھیں کیپ ٹاؤن کی پولسمور جیل میں منتقل کیا گیا جہاں پر موجود نمی نے ان کی تپ دق کی بیماری میں اپنا حصہ ڈالا جس کی وجہ سے انھیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔قید کے دوران نسلی امتیاز برتنے والی جنوبی افریقہ کی حکومت نے اپنی شرائط پر انھیں رہا کرنے کی پیشکش کی لیکن انھوں نے اس سے انکار کیا۔ سنہ 1989 میں ایف ڈبلیو دی کلرک جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔ اس سے اگلے سال انھوں نے اے این سی سے پابندی ہٹانے اور نیلسن منڈیلا کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔10 فروری 1990 کو صدر نے نیلسن منڈیلا سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ اگلے دن ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ اور اس مرتبہ انھیں غیر مشروط رہائی دی جائے گی۔ وہ ایک بار پھرایک آزاد انسان ہوں گے۔ لیکن صدر حیران تھے کہ یہ سن کر نیلسن منڈیلا خاموش، خاموش محسوس ہو رہے تھے۔انھوں نے اپنی سوانح عمری ’لانگ واک ٹو فریڈم‘ میں لکھا ’میں نے صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شاید آپ کو محسوس ہو کہ میں شکر گزار نہیں ہوں، مگر میری خواہش ہو گی کہ مجھے ایک ہفتے کا نوٹس دیا جائے تاکہ میرے اہل خانہ اور میری تنظیم میری رہائی کی تیاری کر سکیں۔‘ صدر اس جواب کی توقع نہیں کر رہے تھے، وہ کچھ دیر بعد اپنے مشیروں سے مشاورت کرنے کے بعد واپس آئے اور انھوں نے اصرار کیا کہ وہ فیصلہ کیے گئے دن پر ہی جیل سے رہا ہوں گے۔ منڈیلا نے ان کی بات مان لی۔ اگلے دن انھوں نے آزادی کی جانب قدم اٹھائے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو گئے۔ تین سال بعد بطور اے این سی کے رہنما وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام جمہوری صدر بنے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}