غزہ 101: جنگ کی ہولناکیوں کے عینی شاہد، ’میرے والد کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا‘،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami
،تصویر کا کیپشناس ایمبولینس کی تصویر جس میں محمود کے والد سوار تھے

  • مصنف, ایتھر شلیبے
  • عہدہ, بی بی سی عربی
  • 53 منٹ قبل

انتباہ: اس مضمون میں پیش کی جانے والی تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔یہ خبر دوپہر 2 بجے کے قریب آئی۔ غزہ میں طبی عملے کے رُکن محمود المصری اور اُن کی ٹیم کے ارکان شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال میں ایمرجنسی کال کا انتظار کر رہے تھے۔اس دوران اعلان کیا گیا کہ ’ایمبولینس 5-15 کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘ یہ وہی ایمبولینس تھی کہ جس میں محمود کے والد اور اُن کی ٹیم کے ارکان سوار تھے۔ محمود کے والد بھی طبی عملے کے رُکن تھے۔محمود اور اُن کے ساتھی یہ دیکھنے کے لیے اُس جانب نکل پڑے کہ آخر ہوا کیا ہے۔

جب وہ وہاں پہنچے، تو انھوں نے دیکھا کہ ایمبولینس سڑک کے کنارے متعدد ٹُکڑوں میں بکھری پڑی تھی۔ محمود گاڑی کے ملبے کی طرف بھاگے، لیکن اس ایمبولینس کے اندر موجود تمام افراد ’بُری طرح جل چُکے تھے اور اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے‘ ہو چُکے تھے۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے پہلے مہینے میں غزہ میں موجود طبی عملے کے کام پر مبنی بی بی سی عربی کی ایک دستاویزی فلم میں محمود کے اُس ردعمل کو دکھایا گیا ہے جو انھوں نے اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کی موت کے موقع پر دیا۔محمود نے روتے ہوئے کہا کہ ’اُن کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami

،تصویر کا کیپشنمحمود (دائیں) کا ردعمل جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کے والد ہلاک ہو چکے ہیں
یہ اسرائیل، غزہ جنگ شروع ہونے کے پانچ دن بعد یعنی 11 اکتوبر کی بات ہے۔ محمود کے والد یوسری المصری کا بے جان جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا اور اسی کے ساتھ اُن کا خون آلود ہیلمٹ بھی پڑا تھا۔جنازے کے موقع پر جب محمود نے اپنے والد کی میت کے پاس گھٹنے ٹیک دیے اور وہ سر ہلاتے ہوئے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے تو ایسے میں اُن کے دوست اور ساتھی اُن کے قریب جمع ہو گئے۔ان کی کہانیوں کو غزہ کے ایک مقامی صحافی فراس الاجرامی نے دستاویزی فلم ’غزہ 101: ایمرجنسی ریسکیو‘ کے لیے بھی فلمایا تھا۔اپنے والد کی موت کے بعد، 29 سالہ محمود، جن کے اپنے تین بچے ہیں، نے چند ہفتوں کی چھٹی لے لی۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ گہرے دُکھ کے باوجود وہ کام پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’میری سب سے بڑی خواہش فلسطینی عوام کی خدمت کرنا ہے۔‘انھوں نے اپنے فون کے وال پیپر پر اپنے والد کی تصویر لگا رکھی ہے صرف اس لیے تاکہ ’وہ اپنے والد کے چہرے کو دن رات دیکھ سکیں۔‘،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami
،تصویر کا کیپشنمحمود کے والد، یوسیری بھی طبی عملے کے رُکن تھے
محمود کی اپنے والد سے آخری ملاقات اُن کی ہلاکت سے چند گھنٹے قبل ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے محمود سے ایک کپ کافی کی فرمائش کی تھی جو انھوں نے دوپہر کی نماز سے قبل پی لی تھی۔ اس کے بعد ایمبولینس سینٹر میں محمود کے والد یوسری کی ایمبولینس کا نمبر پُکارا گیا اور انھیں زخمیوں کو طبی امداد دینے کے لیے روانہ ہونا پڑا۔ اس واقعے سے صرف دو دن پہلے محمود خود بھی زخمی ہوئے تھے اور اُنھیں سٹریچر پر ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ ایک حملے کے دوران محمود کی گردن اور پیٹھ میں چھرے لگے تھے۔ اُس وقت کو یاد کرتے ہو محمود نے نے کہا کہ ’ان کے والد شدید پریشانی کے عالم میں اُن کے پہلو میں کھڑے رو رہے تھے اور وہ بہت پریشان تھے۔‘مگر اب چند ہفتے گُزر جانے کے بعد محمود کو اپنے والد کی تباہ شدہ ایمبولینس کو دیکھنے کے لمحات پریشان کر دیتے ہیں۔محمود نے کہا کہ ’جب بھی میں اکیلا بیٹھتا ہوں، میں انھیں یاد کرتا ہوں۔ میں ایمبولینس کی طرف بھاگ رہا تھا، میں اپنے والد کی طرف بھاگ رہا تھا، میں ان کے جسم کے ٹکڑے دیکھ کر نیم بے ہوشی کے عالم تک پہنچ چُکا تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میرے والد کے ساتھ کیا ہوا؟ میں حواس باختہ ہو چُکا تھا۔‘ محمود سات سال سے طبی عملے کے رکن ہیں اور اِس وقت فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) کی ٹیم کے حصے کے طور پر شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں مقیم تھے۔اس دستاویزی فلم میں 7 اکتوبر کے ایک ماہ بعد اس یونٹ سے ایمبولینس کے عملے کا مشاہدہ کیا، جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا جس میں 1200 افراد ہلاک اور تقریبا 250 یرغمال بنائے گئے، اور اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی کی اور جنگ شروع ہوئی۔،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami
،تصویر کا کیپشنرامی کا کہنا ہے کہ ایک کمرے میں تین لڑکیوں کو مردہ حالت میں دیکھ کر انھیں اپنی بیٹیوں کی یاد آ گئی
حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 27 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔اس دستاویزی فلم میں طبی عملے کے اراکین کو قریب سے اس دورانیے میں فلمایا گیا جب وہ اندھیری گلیوں سے گزر رہے تھے اور زخمی بچوں کی لاشوں کو جمع کر رہے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کس طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔ اس سب صورتحال نے اس صدمے کو ظاہر کیا جس کا انھیں سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر جب انھیں بچوں کی لاشوں سے نمٹنا پڑا۔جنگ کے ان ابتدائی دنوں میں طبی عملے کے ایک اور رُکن رامی خمیس اپنی ایمبولینس کے سٹیرنگ ویل کے سامنے بیٹھے روتے ہوئے دکھائی دیے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایک ایسے گھر کی جانب بلایا گیا کہ جو اس کے اپنے ہی مکینوں پر آن گرا تھا، اور اس گھر میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہی موجود تھے۔ جب وہ اس تباہ حال گھر کے ایک کمرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے وہاں تین لڑکیوں کو مردہ حالت میں پایا اور انھیں یہ منظر دیکھ کر اپنی بیٹیوں کا خیال آیا۔وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا، میں یہ دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔‘ یہ وہ وقت تھا کہ جب رامی کی روتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔گذشتہ برس اکتوبر کے آخر میں ٹیم کے ایک اور رکن علاء الحلبی کو ایک رشتہ دار کی طرف سے ایک ایمرجنسی کال موصول ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

علاء نے کہا کہ ’ان کے چچا کے گھر کو دو روز قبل اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا لیکن ہلاک ہونے والے کچھ افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے کزن کی لاش نکال لی گئی تھی اور وہ اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش میں تھے۔‘جیسے ہی وہ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے، جہاں لوگوں کا ایک گروپ کنکریٹ کے ڈھیر کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، ایک رشتہ دار نے انھیں بتایا کہ ’ایک لڑکی ہے، یا تو اس کا آدھا یا پورا جسم ہے۔‘وہ رک گئے، ایک گہری سانس لی، اُن کا چہرہ جزوی طور پر ان کے میڈیکل ماسک کے پیچھے چھپا ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ ’لڑکی کے اعضا اس کے ساتھ ہی رکھ دیں۔‘اسی دن علاء ایک ایسے گھر میں پہنچے جہاں بُری طرح جھلسے ہوئے پانچ مردہ بچوں کو رکھا گیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹیم کو ہدایت کی کہ بچوں کو پلاسٹک کے کفن میں اُن کی ایمبولینس میں رکھ دیں۔انھوں نے کہا کہ جب آپ کسی بچے کے جسم کے اعضا کو پکڑتے ہیں تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ آپ کے اپنے بچے ہوتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami

،تصویر کا کیپشنعلاء کو اس کے چچا کے گھر بلایا گیا، جہاں انھوں نے ایک ہلاک ہونے والی بچی کی باقیات اکھٹی کیں
جنگ کے ایک ہفتے بعد اسرائیل نے غزہ کے شمال میں موجود شہریوں کو حفاظت کی غرض سے جنوب کی جانب نقل مکانی کرنے کا حکم دیا تھا۔ خاندانوں کو وہاں سے نکال لیا گیا مگر طبی عملے کے رکن وہیں موجود رہے تھے۔طبی عملے کے یہ اراکین فون پر یا ریڈیو نیٹ ورک پر ہونے والی گفتگو کے ذریعے وہ اپنے بیوی بچوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ رامی دو دہائیوں سے طبی عملے کے رُکن کے طور پر کام کر رہے ہیں اور انھوں نے کہا کہ جب بھی غزہ میں تشدد کا کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو اُن کی بیٹیاں ان سے چپک جاتی ہیں اور ان سے کام پر نہ جانے کی بھیک مانگتی ہیں۔علاء نے یہ بھی کہا کہ جب وہ بچوں کی بات نہ مانتے ہوئے کام پر چلے جاتے ہیں تو اُن کے بچے روتے ہیں۔ایک اور واقعے میں، جب طبی عملے کے چند اراکین العودہ ہسپتال کے باہر اپنی گاڑی میں انتظار کر رہے تھے تو ایک بڑے دھماکے نے انھیں ہلا کر رکھ دیا۔اس حملے میں کم از کم دو ایمبولینسوں کو نقصان پہنچا۔ طبی عملے کے ایک رُکن نے بتایا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں ہسپتال کے قریب واقع ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے اس مقام کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اس سے چند سو میٹر کے فاصلے پر حماس کے ایک فوجی ہدف کو نشانہ بنایا تھا۔پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں اس کی ٹیموں کے 11 ارکان ہلاک ہو چکے ہیں۔تنظیم کی ترجمان نیبل فرسخ کا کہنا ہے کہ ’ہر مشن میں ہماری ٹیموں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ڈیوٹی کے دوران ہمارے عملے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جن حالات میں ہم کام کر رہے ہیں وہ خطرناک اور خوفناک ہیں۔‘پی آر سی ایس ایک غیر سرکاری انسانی تنظیم ہے اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) کی رکن ہے۔بین الاقوامی قانون کے تحت ریڈ کراس اور ہلال احمر کی علامتوں کو طبی اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں کی نشاندہی کے لیے تسلیم کیا جاتا ہے، جنھیں جنیوا کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہے۔،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami
،تصویر کا کیپشنپیرا میڈکس کو اکثر زخمی بچوں کو بچانا پڑتا تھا۔
فرسخ کا کہنا ہے کہ یہ نشان تنظیم کی ایمبولینسوں کے اوپری حصوں کے علاوہ ان کے اطراف پر بھی بنائے جاتے ہیں، جس میں ایمبولینس 5-15 بھی شامل ہے، جس میں محمود کے والد ہلاک ہوئے تھے۔پی آر سی ایس کا ماننا ہے کہ اسے اسرائیلی افواج نے براہ راست نشانہ بنایا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے دوران استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ اسے دیکھا ہی نہیں گیا۔‘اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ وہ ’پی آر سی ایس کے عملے سمیت طبی کارکنوں کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنا رہی۔‘ایمبولینس 5-15 کے معاملے میں، اُن کا کہنا ہے کہ اس نے ’چند سو میٹر دور ایک فوجی ہدف کو نشانہ بنایا‘ اور ایمبولینس کی جگہ کو ’نشانہ نہیں بنایا گیا۔‘اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فضائی حملوں میں عام طور پر اس حد تک جانی نقصان نہیں ہوتا جس حد تک بیان کیا گیا ہے۔‘اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کی فوج ’شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہے۔‘آئی ڈی ایف نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور طبی مراکز میں چھپ رہی ہے۔ اس نے ان سرنگوں کی فوٹیج شیئر کی ہے جن کے بارے میں اسرائیلی فورسز کا کہنا ہے کہ انھیں ہسپتالوں کے قریب اور ان کے نیچے سے ملنے والی سرنگوں کے ساتھ ساتھ طبی مراکز سے ملنے والے ہتھیار بھی ملے ہیں۔اسرائیلی فوج نے حماس پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ جنگجوؤں اور ہتھیاروں کی نقل و حمل کے لیے ایمبولینسوں کا استعمال کرتی ہے۔پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے جاری لڑائی کی وجہ سے اس کی اپنی 16 گاڑیاں ناکارہ ہو چکی ہیں اور غزہ بھر میں مجموعی طور پر 59 ایمبولینسیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔فرسخ کہتی ہیں کہ ’پی آر سی ایس کو کبھی بھی فلسطینی جنگجوؤں کی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’زمین پر ہمارا کام صحت اور انسانی ہمدردی کی خدمات فراہم کرنا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajramy
،تصویر کا کیپشنمحمود المصری اپنے والد کی ہلاکت سے دو دن قبل گردن اور پیٹھ میں چھرے لگنے سے زخمی ہوئے تھے
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے اصول بین الاقوامی ریڈ کراس اور بین الاقوامی ہلال احمر کی طرح ہی ہیں۔‘دسمبر کے اواخر میں، پی آر سی ایس نے شمالی غزہ میں اپنی کارروائیوں کو کم کر دیا تھا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی افواج نے جبالیہ میں اس کے اڈے پر حملہ کیا تھا۔‘آئی ڈی ایف نے کلینک میں یا اس کے اندر فائرنگ کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ’ریڈ کریسنٹ کلینک میں حماس کے متعدد دہشت گردوں کے ایک سیل کا سراغ لگایا تھا، جن میں سے کچھ ہلال احمر کی وردی اور جیکٹیں پہنے ہوئے پائے گئے تھے۔‘فرسخ کا کہنا ہے کہ ’اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے اور کلینک میں صرف ایمبولینس کا عملہ، رضاکار اور بے گھر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے زخمی افراد موجود تھے۔‘علاء، رامی اور محمود سبھی جنوب کی طرف چلے گئے، اور خان یونس کے علاقے میں طبی عملے کے اراکین کے طور پر کام کرتے رہے، حالانکہ رامی حال ہی میں شمال کی طرف لوٹے ہیں۔جنوری کے اواخر میں، جب خان یونس کے ارد گرد لڑائی میں شدت آئی، محمود نے اپنی بیوی اور بچوں، 6 سالہ محمد، 5 سالہ لیلیٰ اور 3 سالہ لیان کو ساحلی صحرائی علاقے المواسی میں ایک خیمے میں رہنے کے لیے منتقل کر دیا، جسے پہلے اسرائیل نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا۔اپنے والد کی موت کے چار ماہ بعد بھی وہ کہتے ہیں کہ بیماروں اور زخمیوں کی مدد کرنے کا ان کا عزم جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ میرے والد کا پیغام اور مشن تھا اور مجھے اسے جاری رکھنا ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}