اسرائیل غزہ تنازعے کے درمیان میکڈونلڈز کی فروخت متاثر: ’جب تک جنگ جاری ہے بہتری کی امید نہیں‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنمیکڈونلڈزکے پانچ فیصد برانچ مشرق وسطی میں ہیں

  • مصنف, نتالی شرمن
  • عہدہ, بزنس رپورٹر، نیویارک
  • 2 گھنٹے قبل

امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی میکڈونلڈز نے انڈیا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے گاہک کھو دیے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ کمپنی کا بظاہر اسرائیل کی حمایت کرنا ہے جس کے باعث صارفین کی جانب سے ان کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔عالمی سطح پر معروف فاسٹ فوڈ چین نے اپنے بین الاقوامی کاروباری ڈویژن میں کم کاروبار کی وجہ سے تقریباً چار سالوں میں اپنی پہلی سہ ماہی کی فروخت میں کمی کی اطلاع دی۔کمپنی کے مالک اسرائیل غزہ تنازعے کے اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے کمپنی کے متعلق ’غلط معلومات‘ دیے جانے کا الزام لگایا ہے۔فروخت میں کمی کے اعلان کے بعد میکڈونلڈز کے حصص میں تقریباً چار فیصد کی کمی آئی ہے۔

میکڈونلڈز، سٹاربکس اور کوکا کولا سمیت ان متعدد مغربی کمپنیوں میں سے ایک ہے جن کے خلاف اسرائیل مخالف مہم چلانے والوں کی طرف سے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے اور احتجاج دیکھا گيا ہے۔میکڈونلڈز نے کہا کہ اسرائیل غزہ تنازع نے سنہ 2023 کی چوتھی سہ ماہی میں کچھ بیرون ملک منڈیوں کی کارکردگی کو ‘معنی خیز طور پر متاثر’ کیا ہے۔مشرق وسطیٰ، چین اور انڈیا میں موجود میکڈونلڈز کی برانچوں میں گذشتہ سال کی چوتھی سہ ماہی میں فروخت میں محض 0.7 فیصد کا اضافہ ہوا جو کہ مارکیٹ کی توقعات سے بہت کم ہے۔کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کرس کیمپزنسکی نے سوموار کو کہا کہ ملائیشیا، انڈونیشیا اور فرانس میں اس کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ اثر مشرق وسطیٰ میں محسوس کیا گيا ہے۔میکڈونلڈز کے باس نے مزید کہا کہ ’جب تک یہ جنگ جاری ہے۔۔۔ ہم (ان بازاروں میں) کسی خاص بہتری کی توقع نہیں کرسکتے ہیں۔‘میکڈونلڈز فرنچائز سسٹم پر انحصار کرتا ہے جس میں دنیا بھر میں ہزاروں لوگ اپنے 40 ہزار سے زیادہ سٹورز کے مالک ہیں اور آزادانہ طور پر اپنے کاروبار چلاتے ہیں۔ اس کمپنی کے تقریباً پانچ فیصد آؤٹ لیٹس مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سٹاربکس بھی متاثر

فاسٹ فوڈ کے خوردہ فروش کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب اسرائیل میں قائم اس کی فرنچائز نے کہا کہ اس نے اسرائیلی فوج کے ارکان کو ہزاروں مفت کھانے فراہم کیے ہیں۔اس بات نے غزہ کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی سے ناراض افراد کو مشتعل کیا اور انھوں نے اس برانڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔اس کے بعد کویت، ملائیشیا اور پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک میں میکڈونلڈز کی فرنچائز لینے والے مالکان نے کمپنی سے دوری کی بات کہی۔مسٹر کیمپزنسکی نے میکڈونلڈز کے خلاف اس ردعمل کو ’مایوس کن اور غلط بنیاد‘ پر مبنی قرار دیا اور اس کا الزام ’غلط معلومات‘ پر لگایا۔چوتھی سہ ماہی میں میکڈونلڈ کی عالمی فروخت میں چار فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا، جو کہ پچھلی سہ ماہی کے 8.8 فیصد سے نصف سے زیادہ کم ہے اور اس کی سالانہ اوسط سے بھی کم ہے۔لیکن دوسری جانب کارپوریشن کو قیمتوں میں افراط زر سے فائدہ ہوا ہے۔ امریکہ میں اس کی فروخت میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گيا جبکہ برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا میں بھی فروخت میں اضافہ دیکھا گيا ہے۔لیکن اس کے امریکی کاروبار میں بھی اس نے امید سے کم فروخت میں اضافہ دیکھا کیونکہ کم آمدنی والے صارفین نے کم کھانے کا آرڈر دیا اور مینیو میں سستی اشیا کا انتخاب کیا۔پچھلے ہفتے سٹاربکس نے اپنی سالانہ فروخت کی پیشن گوئی کو بھی کم کر دیا، جس کی وجہ مشرقِ وسطیٰ میں ان کے سٹورز پر صارفین کی کم تعداد ہے۔میکڈونلڈز نے پیر کو کہا کہ خطے میں تنازعات سے متاثر ہونے والے خاندانوں اور کمیونٹیز کے بارے میں وہ متفکر ہے۔اس نے کہا کہ وہ ’اپنے لوگوں اور مقامی برادریوں کی حمایت پر توجہ مرکوز رکھے گا‘ جہاں وہ کام کرتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}