- مصنف, بیتھنی بیل
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
یہ تقریباً ساڑھے تین سو سال پہلے کی بات ہے، جب برطانیہ میں موسمِ سرما میں اتنی سردی پڑی کہ آج بھی اس واقعے کو ’دی بِگ فراسٹ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو برطانیہ کی تاریخ کا ’سخت ترین موسمِ سرما‘ کہا جاتا ہے۔اُس وقت کے درست درجہِ حرارت تعین کرنا تو مشکل ہے کیونکہ اس زمانے کے درجہِ حرارت کا باقاعدہ ریکارڈ نہیں ملتا۔ لیکن لندن کے کرائسٹ ہسپتال کے ڈاکٹر جان ڈاؤنس کا کہنا ہے کہ اس سال موسمِ سرما کے دوران، گھر کے اندر کا درجہِ حرارت تقریباً منفی 4 سینٹی گریڈ جبکہ باہر کا درجہِ حرارت منفی 12 تک چلا گیا تھا جبکہ اس زمانے میں کم سے کم درجہِ حرارت منفی 30 ریکارڈ کیا گیا تھا۔اس دوران کئی خاندان سردی اور بھوک سے مارے گئے، اشیائے خورد و نوش اور ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں جبکہ مال مویشی اور دیگر جانور کھڑے کھڑے اپنی جگہوں پر مر گئے تھے۔صحافی چارلس میکے لکھتے ہیں کہ ’اتنی سردی تھی کہ درختوں کے تنے اتنی زور سے پھٹتے جیسے کسی نے مسکیٹ رائفل چلائی ہو۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دریائے تھیمز پر سجا برف کا میلہ
دریائے تھیمز اچانک نہیں جما تھا۔ نومبرکے وسط سے، دریا میں تھوری بہت برف جمنا شروع ہو چکی تھی دریا کے مکمل طور پر جمنے کا عمل دسمبر میں مکمل ہوا۔دسمبر سے قبل دریا کے درمیانی حصے میں برف بہتی ہوئی دکھتی تھی مگر دریا پھر بھی بہہ رہا تھا مگر دسمبر کے اختتام تک بالآخر وہ بھی جم گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کمائی کے نئے مواقع
کتابچے اور اشتہارات چھاپے گئے جن میں نقشوں کے ساتھ جمے ہوئے دریائے تھیمز کے بارے میں تفصیلات شائع کی گئیں۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.