’دی بِگ فراسٹ‘: انگلینڈ میں شدید سردی کے اُس موسم کی کہانی جسے ’خدا کا قہر‘ لکھا گیا،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشندریائے تھیمز کا ایک منظر جس کے پس منظر میں لندن برج نظر آ رہا ہے

  • مصنف, بیتھنی بیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

یہ تقریباً ساڑھے تین سو سال پہلے کی بات ہے، جب برطانیہ میں موسمِ سرما میں اتنی سردی پڑی کہ آج بھی اس واقعے کو ’دی بِگ فراسٹ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو برطانیہ کی تاریخ کا ’سخت ترین موسمِ سرما‘ کہا جاتا ہے۔اُس وقت کے درست درجہِ حرارت تعین کرنا تو مشکل ہے کیونکہ اس زمانے کے درجہِ حرارت کا باقاعدہ ریکارڈ نہیں ملتا۔ لیکن لندن کے کرائسٹ ہسپتال کے ڈاکٹر جان ڈاؤنس کا کہنا ہے کہ اس سال موسمِ سرما کے دوران، گھر کے اندر کا درجہِ حرارت تقریباً منفی 4 سینٹی گریڈ جبکہ باہر کا درجہِ حرارت منفی 12 تک چلا گیا تھا جبکہ اس زمانے میں کم سے کم درجہِ حرارت منفی 30 ریکارڈ کیا گیا تھا۔اس دوران کئی خاندان سردی اور بھوک سے مارے گئے، اشیائے خورد و نوش اور ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں جبکہ مال مویشی اور دیگر جانور کھڑے کھڑے اپنی جگہوں پر مر گئے تھے۔صحافی چارلس میکے لکھتے ہیں کہ ’اتنی سردی تھی کہ درختوں کے تنے اتنی زور سے پھٹتے جیسے کسی نے مسکیٹ رائفل چلائی ہو۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن1683-4 میں لگے برف میلے کی منظرکشی
تاریخ دان جان ایولین لکھتے ہیں کہ سردی کی شدت سے مرغوں کے پنجوں میں پھنسے اُن کے شکار تک جم گئے تھَے۔ایک راہب نے لکھا کہ ایسی بھی صورتحال دیکھی گئی کہ سوپ کو ہلاتے ہوئے وہ غلطی سے جب گرا، تو گرتے ہی فوراً جم گیا جبکہ دوسری طرف پیالے میں موجود سوپ سے اس وقت بھی دھواں نکل رہا تھا۔سنہ 1986 میں شائع ہونے والی کتاب ’دی ورلڈ آف ونڈرز‘ کے مطابق اس برس اتنی سردی پڑی تھی کہ تقریباً تمام ہی پرندے غائب ہو گئے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنبرف پر پھسلنے کے خطرات بھی تھے
دریائے تھیمز 30 سینٹی میٹر موٹی برف کی تہہ سے ڈھکا ہوا تھا اور جہازوں کے ذریعے سامان کی ترسیل تقریباً دو مہینے تک بند رہی کیونکہ دریا مکمل طور پر جم گیا تھا۔جن افراد کی زندگی کا دار و مدار دریا پر تھا،ا ن کے لیے گزر بسر کرنا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ایک نیوز شیٹ، جس کی ایک کاپی آج بھی برٹش میوزیم میں محفوظ ہے، نے قیاس آرائی کرتے ہوئے اس شدید موسم کو ’خدا کا قہر‘ لکھا تھا۔

دریائے تھیمز پر سجا برف کا میلہ

دریائے تھیمز اچانک نہیں جما تھا۔ نومبرکے وسط سے، دریا میں تھوری بہت برف جمنا شروع ہو چکی تھی دریا کے مکمل طور پر جمنے کا عمل دسمبر میں مکمل ہوا۔دسمبر سے قبل دریا کے درمیانی حصے میں برف بہتی ہوئی دکھتی تھی مگر دریا پھر بھی بہہ رہا تھا مگر دسمبر کے اختتام تک بالآخر وہ بھی جم گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجمے ہوئے دریائے تھیمز پر گالف کھیلی جا رہی ہے
کچھ ہی وقت میں دریا اس حد تک جم گیا کہ وہ انسانوں کا وزن برداشت کرنے قابل ہو گیا۔جنوری 1684 کے پہلے ہفتے میں، ایک شرط کو پوری کرنے کے ایک بگی اور چھ گھوڑوں نے برف سے جمے دریا کو عبور کیا۔ جیسے جیسے درجہ حرارت مزید گرا اور ٹھنڈ شدت اختیار کرتی گئی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سرد ہوا ہڈیوں سے گوشت اُتار رہی ہو۔ اس ہی دوران، لندن والوں نے دریائے تھیمز پر سٹالوں کی قطاریں لگا کر برف پر میلے کا سا ماحول بنا دیا۔گو اس سے پہلے بھی دریائے تھیمز پر برف میلے لگا کرتے تھے مگر 1683 میں پہلی مرتبہ ایسا شاندار میلہ لگا تھا جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا۔

کمائی کے نئے مواقع

کتابچے اور اشتہارات چھاپے گئے جن میں نقشوں کے ساتھ جمے ہوئے دریائے تھیمز کے بارے میں تفصیلات شائع کی گئیں۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندریائے تھیمز پر لگے میلے کا ایک منظر
بالآخر بیروزگار کشتی والوں اور ملاحوں کو برف پر سیاحوں کی رہنمائی کر کے پیسے کمانے کا موقع ملا۔ کچھ نے اپنی چھوٹی کشتیوں کے نیچے سکیٹس لگا کر اس پر لوگوں کو منجمد دریا پر سواری کروانی شروع کی۔جان ایولین نے اپنی ڈائری میں منجمد دریا پر منعقد میلے میں ہونے والی ریسوں، کٹھ پتلیوں کے تماشے اور کھانے پینے کے متعدد سٹالز کے بارے میں لکھا ہے۔ ایک بار تو وائٹ ہال کے قریب برف پر ایک پورا بیل بھی بھونا گیا تھا۔جلدی ہے وہاں تحائف بھی بکنے شروع ہو گئے جن میں کندہ شدہ چاندی کے چمچوں سے لے کر ٹکٹوں تک موجود تھے جو کہ وہیں برف پر چھاپے جاتے تھے۔4 فروری 1684 کو ایک اور تاریخ دان اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جب وہ اس میلے میں گئے تو اس وقت وہاں برف پر چار پرنٹنگ پریس لگے ہوئے تھے۔ان کے مطابق ان پریس مالکان نے تو اس سارے عمل میں بہت پیسہ بنایا مگر ان دنوں غریبوں کی حالت ابتر ہو گئی تھی۔برف کی نقل و حمل کرنے والے ملاحوں کو اب اپنے زمینی ہم عصروں سے مقابلہ کرنا تھا کیونکہ اب وہ بھی جمے ہوئے دریا کو اپنے کاروبار کی توسیع کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ان میں سے کچھ ملاح، دریا پر کشتی کو اسکیٹس لگا کر دھکیل کر روزی کمانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دوسری جانب گھوڑوں سے چلنے والی گاڑیاں بھی دستیاب تھیں۔بالآخر، کشتی والوں نے دریا میں ریڑھیوں کے گزرنے پر پابندی کے لیے عدالت میں درخواست دینے کا فیصلہ کیا لیکن 5 فروری کو جب درخواست پیش کی جانی تھی،اس دن برف پگھلنا شروع ہو گئی۔آنے والے برسوں میں بھی میلے لگے لیکن کوئی بھی اتنا بڑا یا دیرپا نہیں ہوا۔ آخری مرتبہ تھیمز پر برف میلہ 1814 میں لگا جو صرف چار دن جاری رہ سکا۔ اس کے بعد سے دریائے تھیمز کا بہاؤ کبھِی نہیں جما۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}