افغان طالبان کے زیر اثر علاقوں کا آنکھوں دیکھا حال: ’ہم جنگ جیت گئے ہیں، امریکہ ہار گیا ہے‘
- سکندر کرمانی اور محفوظ زبیدے
- بی بی سی نیوز، ضلع بلخ
طالبان کے زیرِ قبضہ علاقے تک پہنچنے میں اتنا وقت نہیں لگا۔ ملک کے شمالی شہر مزارِ شریف سے تقریباً 30 منٹ کی دوری پر بموں کی وجہ سے سڑک پر بننے والے گڑھے پار کر کے ہم اپنے میزبان، ضلع بلخ میں طالبان کے ’شیڈو میئر‘ حاجی حکمت سے ملے۔
انھوں نے کالی پگڑھی پہنی ہوئی ہے اور عطر لگا رکھا ہے۔ وہ طالبان کے سینیئر اراکین میں سے ایک ہیں جنھوں نے 1990 کی دہائی میں اس وقت اس گروہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی جب وہ ملک کے بڑے حصے پر قابض تھے۔
طالبان نے ہمیں اپنی طاقت دکھانے کا مکمل انتظام کیا ہوا ہے۔ گلی کے دونوں کناروں پر بھاری ہتھیاروں سے لیس افراد کھڑے ہیں، جن میں سے ایک نے تو راکٹ لانچر اٹھا رکھا ہے جبکہ ایک اور نے ایم فور اسالٹ رائفل اٹھا رکھی ہے، جو امریکی فورسز سے چھینی گئی تھی۔ کسی زمانے میں بلخ ملک کے مستحکم حصوں میں سے ایک ہوتا تھا، اب یہ ایک انتہائی پرتشدد علاقوں میں سے ایک بن گیا ہے۔
بریالائی، جو نہایت غصیلے ہونے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، ایک مقامی فوجی کمانڈر ہیں، سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سرکاری فوجیں مرکزی بازار کے قریب موجود ہیں لیکن وہ اپنے اڈے نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ علاقہ مجاہدین کا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
افغانستان کے بیشتر علاقوں میں ایسی ہی صورتِ حال ہے: حکومت شہروں اور بڑے قصبوں کو کنٹرول کرتی ہے، لیکن طالبان ان کے چاروں طرف گھیرا لگائے ہوئے ہیں، اور ملک کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں وہ ہی موجود ہیں۔
عسکریت پسندوں کی اتھارٹی سڑکوں کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ بنے ہوئے چیک پوائنٹس سے نظر آتی ہے۔ جس وقت طالبان عسکریت پسند کاروں کو روک کر پوچھ گچھ کر رہے تھے تو طالبان کی انٹلیجنس سروس کے مقامی سربراہ عامر صاحب اجمل نے ہمیں بتایا کہ وہ حکومت سے وابستہ لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو تشویش ہے کہ اگر طالبان برسرِ اقتدار آ گئے تو وہ لڑکیوں کی تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں ختم کر دیں گے
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم انھیں گرفتار کریں گے اور قیدی بنا لیں گے۔ پھر ہم انھیں اپنی عدالتوں کے حوالے کریں گے جو یہ فیصلہ کریں گی کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘
طالبان سمجھتے ہیں کہ فتح ان کی ہے۔ سبز چائے کا کپ پیتے ہوئے حاجی حکمت نے اعلان کیا کہ ’ہم جنگ جیت چکے ہیں اور امریکہ ہار گیا ہے۔‘ امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان میں موجود بقیہ امریکی افواج کے انخلا میں ستمبر تک تاخیر کرنے کے فیصلے پر طالبان کی سیاسی قیادت نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب امریکی افواج گذشتہ سال متفقہ طور پر یکم مئی کی طے شدہ آخری تاریخ کے بعد بھی ملک میں موجود رہیں گی۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح لگتا ہے کہ ہوا کا رخ شدت پسندوں کی طرف ہے۔
حاجی حکمت کہتے ہیں کہ ’ہم ہر چیز کے لیے تیار ہیں۔ ہم امن کے لیے تیار ہیں اور ہم جہاد کے لیے بھی مکمل طور پر تیار ہیں۔‘ ان کے ساتھ بیٹھے ایک فوجی کمانڈر کہتے ہیں کہ ’جہاد عبادت کا ایک عمل ہے۔ اور عبادت ایک ایسی چیز ہے کہ آپ اسے جتنا بھی کریں، آپ اس سے تھکتے نہیں۔‘
گذشتہ ایک سال سے طالبان کے ’جہاد‘ میں ایک واضح تضاد نظر آ رہا ہے۔ انھوں نے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بین الاقوامی فورسز پر حملے بند کر دیے، لیکن افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ تاہم حاجی حکمت اصرار کرتے ہیں کہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ’ہم ایک اسلامی حکومت چاہتے ہیں جو شریعت کے مطابق حکومت کرے۔ ہم اس وقت تک اپنا جہاد جاری رکھیں گے جب تک کہ وہ ہمارے مطالبات قبول نہیں کرتے۔‘
اس سوال کے جواب پر کہ کیا طالبان دوسرے افغان سیاسی دھڑوں کے ساتھ اقتدار میں حصہ لینے پر راضی ہوں گے، حاجی حکمت قطر میں گروپ کی سیاسی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بار بار کہتے رہے کہ ’وہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہو گا۔‘
طالبان کی باتوں میں اب بھی کافی تضاد نظر آتا ہے لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سے معاہدہ کرنے کے بعد بین الاقوامی فورسز پر حملے بند کر دینا لیکن افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھنے میں کوئی تضاد نہیں
طالبان اپنے آپ کو محض ایک باغی گروپ کے طور پر نہیں بلکہ آنے والی حکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنا تعارف ’اسلامی امارت آف افغانستان‘ کے طور پر کراتے ہیں، یہ وہ نام ہے جو انھوں نے 1996 میں اقتدار میں آنے کے بعد رکھا تھا۔ 9/11 کے حملوں کے بعد طالبان حکومت کو معزول کر دیا گیا تھا۔
اب ان کے پاس ایک پیچیدہ ’شیڈو سٹرکچر‘ موجود ہے جس میں ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں روزمرہ کی خدمات کی نگرانی کرنے والے عہدیدار موجود ہیں۔ طالبان کے میئر حاجی حکمت نے ہمیں علاقے کا دورہ کرایا۔
ہمیں ایک پرائمری سکول دکھایا گیا ہے جس میں نو عمر لڑکے اور لڑکیاں اقوام متحدہ کے تعاون سے دی ہوئیں نصابی کتب میں لکھ رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی تھی، اس کی وہ اب اکثر تردید کرتے ہیں۔ تاہم اب بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ کئی دوسرے علاقوں میں بڑی عمر کی لڑکیوں کو کلاسوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن کم از کم یہاں طالبان کہہ رہے ہیں کہ وہ اس کی بڑی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
حاجی حکمت کہتے ہیں کہ امریکہ ہار گیا ہے اور ہماری جیت ہوئی ہے
طالبان کے مقامی تعلیمی کمیشن کے مولوی صلاح الدین کہتے ہیں کہ ’جب تک وہ حجاب پہنتی ہیں، یہ ان لیے اہم کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیکنڈری سکولوں میں صرف خواتین اساتذہ کو (پڑھانے کی) اجازت ہے اور پردہ لازمی ہے۔ ’اگر وہ شریعت پر عمل کریں، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ‘
مقامی ذرائع نے ہمیں بتایا کہ طالبان نے نصاب سے آرٹ اور شہریت کی کلاسیں خارج کر دی ہیں، اور ان کی جگہ اسلامی مضامین شامل کیے ہیں، لیکن باقی سب وہی ہے جو قومی نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔
تو کیا طالبان اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجتے ہیں؟ صلاح الدین کہتے ہیں کہ ’میری بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے، لیکن جب وہ بڑی ہو گی، تو میں اسے سکول اور مدرسہ میں بھیجوں گا، جب تک کہ وہ حجاب اور شریعت کا اطلاق کرتے ہیں۔‘
عملے کی تنخواہیں تو حکومت دیتی ہے، لیکن طالبان ان کے انچارج ہیں۔ پورے ملک میں اس طرح کا ہائبرڈ نظام ہے۔
قریب ہی موجود ایک امدادی تنظیم کے زیر انتظام چلنے والے ہیلتھ کلینک کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ طالبان خواتین عملے کو کام کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں، لیکن ان کے پاس رات کے وقت ایک مرد نگہبان ہونا ضروری ہے، اور مرد اور خواتین مریضوں کو الگ الگ کیا گیا ہے۔ یہاں مانع حمل اور خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں معلومات آسانی سے دستیاب ہیں۔
خواتین کی اس ہیلتھ کلینک میں کام کرنے کی اجازت تو ہے لیکن رات کو کوئی مرد نگہبان کا وہاں رہنا بھی ضروری ہے
طالبان یقیناً چاہتے ہیں کہ ہم انھیں مثبت انداز میں دیکھیں۔ جب ہم گاڑی پر سوار جا رہے تھے تو ہم نے وہاں سکول کی طالبات کے ایک گروہ کو بھی گزرتے ہوئے دیکھا جو گھر جا رہی تھیں، حاجی حکمت نے ہمیں دیکھ کر بھرپور جوش و خروش سے اشارہ کیا، جس میں صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ طالبان کے متعلق ہماری توقعات کے منافی ہونے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم اب بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں طالبان کے خیالات پر تشویش برقرار ہے۔ اس گروپ میں خواتین کی نمائندگی بالکل نہیں ہے اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں خواتین کے گھر سے باہر کام کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔
بلخ ڈسٹرکٹ کے دیہاتوں سے گذرتے ہوئے، ہمیں بہت ساری خواتین نظر آئیں، اور ان میں سے سبھی نے ٹوپی والا برقع نہیں پہنا ہوا تھا اور وہ آزادانہ گھوم رہی تھیں۔ مقامی بازار میں تاہم، کوئی خاتون نہیں ہے۔ حاجی حکمت اصرار کرتے ہیں کہ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن وہ کہتے ہیں ایک قدامت پسند معاشرے میں وہ عام طور بازار میں نظر بھی نہیں آتیں۔
طالبان ہر وقت ہمارے ساتھ رہے، اور جن چند مقامی باشندوں سے ہم نے بات کی انھوں نے طالبان کے لیے اپنی حمایت کا دعویٰ کیا، اور سیکیورٹی میں بہتری اور جرائم میں کمی لانے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ایک بزرگ شخص نے کہا کہ ’جب حکومت کا کنٹرول تھا ، وہ ہمارے لوگوں کو جیل بھیجتے تھے اور انھیں آزاد کرنے کے لیے رشوت مانگتے تھے۔ ہمارے لوگوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے، اب ہم اس صورتحال سے خوش ہیں۔‘
اگرچہ طالبان کی انتہائی قدامت پسند اقدار دیہی علاقوں میں ان لوگوں کے ساتھ بہت کم متصادم ہیں، لیکن بہت سے دوسرے، خصوصاً شہروں میں رہنے والے لوگوں کو ڈر ہے کہ طالبان 1990 کی دہائی کی ظالمانہ اسلامی امارت کو بحال کرنا چاہتے ہیں، اور اس آزادی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں جو گذشتہ دو دہائیوں میں اکثر نوجوانوں کو ملی ہے۔
ایک مقامی رہائشی نے بعد میں شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ طالبان اس سے کہیں زیادہ سخت ہیں جتنا انھوں نے ہمارے ساتھ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دیہاتیوں کو داڑھی منڈوانے پر مارا پیٹا جاتا ہے، یا موسیقی سننے پر سٹیریوز کو توڑ دیا گیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ وہی کریں جو انھیں کہا جاتا ہے، یہاں تک کہ معمولی باتوں پر انھیں جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں۔ لوگ خوفزدہ ہیں۔‘
مقامی باشندے مسلح طالبان سے خوف کھاتے ہیں
حاجی حکمت 1990 کی دہائی میں طالبان کا حصہ تھے۔ اگرچہ ہمارے ارد گرد موجود نوجوان جنگجو خوشی خوشی تصاویر اور سیلفیز بنوا رہے ہیں، لیکن جب حاجی حکمت نے ہمارا کیمرہ دیکھا تو شروع میں اپنی پگڑی سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ بعد میں انھوں نے ہمیں اپنے چہرے کی تصویر بنانے کی اجازت دیتے ہوئے مسکرا کے صرف اتنا کہا کہ ’پرانی عادتیں‘۔ طالبان کی پہلے والی حکومت میں فوٹو گرافی پر پابندی تھی۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ان سے اقتدار میں ہوتے ہوئے غلطیاں سرزد ہوئی تھیں؟ کیا اب بھی وہ دوبارہ اسی طرح برتاؤ کریں گے؟
تو حاجی حکمت نے جواب دیا کہ ’پہلے والے طالبان اور اب کے طالبان ایک جیسے ہیں۔ لہذا اس وقت اور اب کا موازنہ کریں تو کچھ بھی نہیں بدلا۔‘ لیکن انھوں نے یہ ضرور کہا کہ ’یقینا لوگوں میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ سخت اور کچھ پرسکون ہوتے ہیں۔ یہ نارمل ہے۔‘
طالبان بظاہر جان بوجھ کر اس کے بارے میں مبہم نظر آتے ہیں کہ ان کی اس ’اسلامی حکومت‘ کا کیا مطلب ہے جو وہ بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سخت گیر اور زیادہ اعتدال پسند عناصر کے مابین داخلی تصادم سے بچنے کی یہ ایک دانستہ کوشش ہے ۔ کیا وہ دونوں مختلف نظریات رکھنے والوں کو ساتھ رکھ سکتے ہیں؟ اقتدار میں آنا ان کا سب سے بڑا امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔
چکن اور چاول کا دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے ہمیں دور سے کم از کم چار مختلف فضائی حملوں کی آوازیں سنائی دیں۔ حاجی حکمت آرام سے کھاتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پریشان نہ ہوں، وہ بہت دور ہیں۔‘
فضائی طاقت، خاص طور پر وہ جو امریکیوں نے فراہم کی تھی، کئی برسوں سے طالبان کی پیش قدمی روکنے میں انتہائی موثر ثابت ہوئی ہے۔ گذشتہ سال، طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد، امریکہ نے اپنی فوجی کارروائیوں کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے، اور بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان کے انخلا کے بعد طالبان ملک پر فوجی قبضہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
حاجی حکمت، افغان حکومت یا جسے طالبان ’کابل انتظامیہ‘ کہتے ہیں، کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بدعنوان اور غیر اسلامی ہے۔ یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ان جیسے آدمی ملک میں دوسروں کے ساتھ کس طرح صلح صفائی کے ساتھ رہ سکتے ہیں، جب تک کہ وہ ان کی شرائط پر زندگی نہ بسر کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ جہاد ہے، یہ عبادت ہے۔ ہم یہ طاقت کے لیے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے قانون کے لیے کرتے ہیں۔ اس ملک میں شریعت لانے کے لیے۔ جو بھی ہمارے خلاف کھڑا ہو گا ہم اس کے خلاف لڑیں گے۔‘
Comments are closed.