کیا واقعی جاپان پولیس نے 50 برس قبل ’بم دھماکوں میں ملوث‘ شخص پکڑ لیا ہے؟،تصویر کا ذریعہNational Police Agency
،تصویر کا کیپشنماضی میں اس گروہ سے تعلق ہونے کے الزام میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا
57 منٹ قبلدہائیوں سے جاپان بھر کے تھانوں میں ایک انتہائی مطلوب شخص کے پوسٹرز چسپاں تھے جس پر ایک مسکراتی ہوئی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔پوسٹر پر موجود یہ تصویر ستوشی کیریشیما کی تھی جس کے بارے میں جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ شخص 49 برس بعد ان کی گرفت میں آ گیا ہے۔جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے قریب ایک ہسپتال میں داخل ہونے والے ایک مریض نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہی ستوشی ہیں اور وہ اس عسکری گروہ کے رُکن ہے جس نے 1970 کی دہائی میں ملک میں متعدد بم دھماکے کیے تھے۔پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں اس شخص کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار ہے تاکہ اس کی شناخت کی حتمی طور پر تصدیق کی جا سکے۔ اس شخص کو ہسپتال میں ایک مختلف نام سے داخل کروایا گیا تھا۔

ستوشی کا تعلق ایسٹ ایشیا اینٹی جاپان آرمڈ فرنٹ سے ہے۔ یہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک عسکری گروہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے شدت پسندوں نے 1972 سے 1975 کے درمیان جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں متعدد کمپنیوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا تھا۔جاپانی اخبار جاپان ٹائمز کے مطابق ماضی میں اس گروہ سے تعلق ہونے کے الزام میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جس میں سے چھ افراد کو عدالت کی جانب سے سزا سنا دی گئی تھی جبکہ ایک ملزم نے خودکشی کرلی تھی۔متشوبشی ہیوی انڈسٹریز میں اس گروہ کی جانب سے کیے گئے ایک بم دھماکے میں 1974 میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔اپنی ویب سائٹ پر جاپان کی نیشنل پولیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ستوشی نے ‘دھماکہ خیز مواد سے متعلق قوانین’ کی خلاف ورزی کی تھی اور وہ ’کمپنیوں پر ہونے والے سیریل بم حملوں‘ کے کیسز میں مطلوب ہیں۔ستوشی پر الزام ہے کہ انھوں نے 18 اپریل 1974 کو ٹوکیو کے ضلع گینزا میں گھر میں تیار کردہ ایک بم کو نصب کرنے اور اسے پھاڑنے میں مدد کی تھی۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس حملے میں بلڈنگ کا ایک حصہ تباہ ہوگیا تھا۔اب 49 برس کے بعد بالآخر ستوشی کو ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ ان کی عمر اب تقریباً 70 برس ہوگی۔ جاپان کے شہر کاماکورا میں ہسپتال میں داخل ہوتے وقت انھوں نے حکام کو اپنا نام غلط بتایا تھا۔اطلاعات کے مطابق لیکن بعد میں انھوں نے ہسپتال کے حکام کو بتایا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنا ’اصلی نام‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس جینے کے لیے اب کچھ ہی مہینے بچے ہیں۔پولیس اب ان کی شناخت کی تصدیق کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کا انتظار کر رہی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}