شمالی کوریا کا زیرِ سمندر جوہری ہتھیاروں کے نظام کا تجربہ کرنے کا دعویٰ،تصویر کا ذریعہRODONG SHINMUN

  • مصنف, فرانسس ماؤ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس نے جنوبی کوریا، امریکہ اور جاپان کی مشترکہ مشقوں کے جواب میں زیرِ سمندر جوہری ہتھیاروں کے نظام کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔سرکاری میڈیا کے مطابق شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل پر زیرِسمندر ایک ایسے ڈرون کا تجربہ کیا ہے جو کہ جوہری ہتھیار فائر کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔شمالی کوریا کی جانب سے یہ تجربہ کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ماضی میں جنوبی کوریا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کے حریف ملک کے پاس موجود ڈرونز کی صلاحیتیں بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے نظام کے اس تجربے کو ’اشتعال‘ دلانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔

جنوبی کوریا کی وزارتِ دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے یہ تجربہ ’جزیرہ نما کوریا اور پوری دنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر شمالی کوریا ہمیں براہِ راست اشتعال دلاتا ہے تو ہماری طرف سے اصولی طور پر ایک فوری اور سخت ردِعمل دیا جائے گا۔‘شمالی کوریا کی جانب سے ماضی میں بھی اپنے ’ہائل فائیو 23‘ نظام کا تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن اس کا دوبارہ تجربہ کرنے کی خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب شمالی کوریا نے اپنی فوج کو متحرک کر رکھا ہے۔کورین زبان میں ’ہائل‘ کا مطلب سونامی ہے۔گذشتہ اتوار کو شمالی کوریا کے حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کی جانب سے ملک میں ’سولڈ فیولڈ میزائل‘ نصب کر دیے گئے ہیں۔اس سے قبل شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریا کے سمندری سرحد کے قریب مشقیں بھی کی گئیں تھیں۔،تصویر کا ذریعہREUTERSحالیہ مہینوں میں شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن اپنی ملک کی پالیسی کو جارحانہ سمت میں لے جاتے ہوئے نظر آئے ہیں اور ان کی طرف سے ایسے متعدد معاہدے ختم کیے گئے ہیں جن کا مقصد خطے میں امن کو برقرار رکھنا تھا۔جمعے کو شمالی کوریا کی خبر رساں ایجنسی ’کے سی این اے‘ نے رپورٹ کیا کہ شمالی کوریا نے زیرِسمندر ہتھیاروں کا تجربہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کی مشقوں کے جواب میں کیا ہے۔شمالی کوریا کا مزید کہنا ہے کہ ان مشترکہ مشقوں سے ’خطے کی صورتحال مزید غیر متوازن‘ ہو گی جس سے شمالی کوریا کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہے۔دوسری جانب امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کی گئی مشقوں کا مقصد شمالی کوریا کو کسی بھی فوجی کارروائی سے باز رکھنا ہے۔تاہم کِم جونگ اُن نے یہ مؤقف اپنایا ہے کہ ان کی حکومت اور فوج کی تیاریاں دراصل ایک متوقع جنگ کی تیاری ہے ’جو کہ کبھی بھی چِھڑ سکتی ہے۔‘اسی ہفتے شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کو اپنا ’سب سے بڑا دشمن‘ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک کِم جونگ ان کی جانب سے متعدد ایسے بیانات دیے گئے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا حالیہ دنوں میں مزید جارحانہ مزاج اختیار کر رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters

گذشتہ برس ستمبر میں شمالی کوریا کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ اس نے ایک ایسی آبدوز تیار کرلی ہو جو کہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔شمالی کوریا کی جانب سے جن ہتھیاروں کو بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں ان سے متعلق بہت ہی کم معلومات منظرِعام پر آئی ہیں۔شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کا اپنے ہتھیاروں کے بارے میں کہنا تھا کہ نئی تیار کردہ آبدوز اور ڈرون دشمن ممالک کے سمندروں میں گھسنے اور زیرِ سمندر بڑے دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔شمالی کوریا پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر شمالی کوریا کے ہتھیار ان کے دعوؤں کے مطابق کام بھی کرتے ہیں تب بھی ان کی اہمیت وہ نہیں جو کہ اس ملک کے جوہری میزائلوں کی ہوگی۔ورلڈ انسٹٹیوٹ فار نارتھ کوریا سٹڈیز سے منسلک محقق آہن چن اِل نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’شمالی کوریا کا دفاعی سائنسی نظام اور ہتھیار اب بھی شروع کے مراحل میں ہے اور ابھی ہم اس مرحلے میں داخل نہیں ہوئے جہاں اس سے کوئی بڑا خطرہ لاحق ہو۔‘گذشتہ برس شمالی کوریا کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کی جانب سے خلا میں جاسوس سیٹلائٹ بھیجی گئی ہے۔ یہ سیٹلائٹ کام کر رہی ہے یا نہیں اس حوالے سے آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔دوسری جانب جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا خلا میں اپنی سیٹلائٹ روس کی مدد سے بھیجنے میں کامیاب رہا ہے۔جنوبی کوریا کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ روس نے جنوبی کوریا کی مدد کے بدلے یوکرین جنگ میں استعمال کے لیے ہتھیار حاصل کیے ہیں۔شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ ان گذشتہ پرس روسی صدر ولادیمیر پوتن اور وزیرِ دفاع سرگئے شوئگو سے بھی ملے تھے، جبکہ شمالی کوریا کے وزیرِ خارجہ پچھلے ہفتے موسکو میں موجود تھے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}