’کینیڈین تجربے‘ کی شرط پر پابندی کی تجویز، کیا کینیڈا میں نئے قانون سے تارکین وطن کو ملازمت کے بہتر مواقع ملیں گے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, برینن ڈوہرٹی
  • عہدہ, بی بی سی، ورک لائف
  • ایک گھنٹہ قبل

2023 میں کینیڈا کے حکام کے مطابق تین کروڑ 80 لاکھ افراد پر مشتمل ملک میں پانچ لاکھ 26 ہزار نئے ’پرماننٹ ریزیڈنٹس‘ یا نئے رہائشی آئے، جو ابھی اس کے شہری نہیں۔ اس کے مقابلے میں اس کی آبادی سے دس گنا زیادہ امریکہ نے صرف تقریباً دس لاکھ نئے افراد کو 2023 میں خوش آمدید کہا۔لیکن کینیڈا پہنچنے کے باوجود ان افراد کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب وہ اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق ملازمتوں کے لیے درخواست دیتے ہیں۔کینیڈا کا امیگریشن سسٹم زیادہ تر ہنر کی بنیاد کر ’پوائنٹس‘ سسٹم کے گرد گھومتا ہے جو اعلیٰ درجے کی ڈگریوں کے حامل بیرون ملک سے آئے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے لیکن پھر بھی ریسرچرز اور نئے آنے والے لوگ مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ کچھ تارکین وطن کو وہ مواقع نہیں مل رہے جن کے وہ اہل ہیں اور اس کی بجائے وہ کم اجرت والی ایسی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں، جو کبھی بھی ختم ہو سکتی ہیں۔

یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے منک سکول آف گلوبل افیئرز اینڈ پبلک پالیسی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ایزومی ساکاموتو تارکین وطن کا مطالعہ کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’کہانی کچھ یوں ہے کہ آپ کے پاس اچھا تجربہ اور تعلیم ہے لیکن آپ کے پاس اپنے مہارت والے موضوع میں کینیڈا میں کام کرتے ہوئے تجربہ نہیں تو ہم آپ کو ملازمت پر نہیں رکھ سکتے۔‘نومبر 2023 میں آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے انٹاریو کی حکومت نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ انھوں نے بل 149 متعارف کروایا، یہ ایسا قانون ہے جو آجر کے ملازمت کے اشتہار پر ’کینیڈین تجربے‘ کی شرط رکھنے پر پابندی لگاتا ہے۔اس بل نے 30 پیشہ وارانہ اسوسی ایشنز، ریگولیٹری اداروں کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ کینیڈین تجربے والی پالیسی کو ختم کریں۔ یہ ایسوسی ایشنز اور ادارے اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ طب اور تعلیم جیسے شعبوں میں کون کام کر سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چند مہینوں میں یہ بل منظور ہو جائے گا تاہم ان کے مطابق یہ اہم پیشرفت ہو گی جس سے ہنرمند تارکین وطن کی مدد ہو گی۔ ان لوگوں کو اس بنیاد پر کہ ان کی ڈگریاں کہاں کی ہیں اور کیا ان کا کینیڈا میں کام کرنے کا تجربہ ہے، مسلسل امتیاز اور نااہلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایزومی کہتی ہیں یہ ثابت کرنا کہ کسی قسم کا امتیازی سلوک ہوا ہے مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بھرتی کے طریقے بند دروازوں کے پیچھے ہیں۔ ہمیں عام طور پر ملازمت پر کچھ لوگوں کو نہ رکھنے کی وجہ نہیں بتائی جاتی۔‘ ،تصویر کا ذریعہAlamyکینیڈا میں آنے والے زیادہ تر تارکین وطن کام کرنا چاہتے ہیں۔ آنے ولے تین سال میں کینیڈا آنے والے لوگوں میں سے نصف کو ’معاشی تارکین وطن‘ مانا جا سکتا ہے‘ یعنی انھوں نے اپنا ملک اس لیے چھوڑا کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ کینیڈا میں انھیں زیادہ بہتر کام کرنے کے مواقع ملیں گے۔ وہ کینیڈا میں پیدا ہونے والے ہم منصبوں سے بہتر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔تاہم انٹاریو ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق کچھ ملازمتیں دینے والے واضح طور پر کینیڈا کے کام کرنے کے تجربے کا مطالبہ کرتی ہیں یا بیرون ملک سے اسناد یا تجربے کے ساتھ درخواست دہندگان کی خدمات حاصل نہیں کی جاتی ہیں۔ ایزومی نشاندہی کرتی ہیں کہ انٹاریو کی انجنیئرنگ سیکٹر کی ایسوسی ایشن ’پروفیشنل انجنیئرز انٹاریو‘ میں 2023 تک کینیڈا میں ملازمت کا تجربہ مانگا جاتا تھا جبکہ اس وقت کینیڈا میں ڈاکٹروں سے لے کر دیگر کئی شعبوں میں ہنر مند افراد کی کمی ہے۔لیبر وزیر ڈیوڈ پچینی کے مطابق انٹاریو میں 3 لاکھ آسامیاں خالی ہیں۔ انھوں نے گذشتہ نومبر میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ’بہت طویل عرصے سے، کینیڈا پہنچنے والے بہت سارے لوگوں کو ڈیڈ اینڈ ملازمتوں (ایسی ملازمتیں جن میں اجرت کم ہوتی ہے اور ترقی نہیں ہوتی) کی طرف راغب کیا گیا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ لوگ اچھے معاوضے اور فائدہ مند کیرئیر میں کام کر سکیں جس سے مزدوروں کی کمی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔‘طب، دندان سازی، اور جانوروں کی ادویات کے شعبے میں تارکین وطن کے لیے صورتحال خاص طور پر خراب ہے۔ کینیڈا کے 4.5 فیصد شہری ان ڈگریوں کے ساتھ اپنے شعبوں میں کام نہیں کر رہے ہیں جبکہ تارکین وطن کے لیے یہ تعداد 30 فیصد کے قریب ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہیلتھ فورس انٹاریو کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2020 میں کورونا کی وبائی مرض کے عروج پر تقریباً 13,000 بین الاقوامی تربیت یافتہ ڈاکٹر انٹاریو میں تھے، جو پریکٹس نہیں کر رہے تھے۔سماجی خدمات کی تنظیم ’لوتھر ووڈ‘ میں ملازمت کے متلاشی تارکین وطن کے ساتھ کام کرنے والے کارلوس مارٹنز بھرتیوں کے ماہر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے کچھ نرس بننے کا فیصلہ کرتے ہیں یا سپورٹ ورکر بھی۔‘لیکن سب تارکین وطن کی کہانی ایسی نہیں، کارلوس کا کہنا ہے ڈاکٹرز، دندان ساز اور حتیٰ کے وکلا کے مقابلے میں سافٹ ویئر انجینیئرز کو نوکری ملنا زیادہ آسان ہے۔‘گذشتہ ایک دہائی سے ایزومی اور نئے آنے والے تارکین وطن کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں نے انٹاریو ہیومن رائٹس کمیشن (او ایچ آر سی) پر دباؤ ڈالا کہ وہ کینیڈین ملازمت کے تجربے والے معاملے کا کچھ کریں۔2013 میں انسانی حقوق سے متعلق شکایتوں کو دیکھنے والے آو ایچ آر سی نے ایک پالیسی پیپر میں اعلان کیا کہ ان کے نزدیک ملازمت کے درخواست دہندگان کے لیے کینیڈا کے تجرے کو ضروری قرار دینے کو وہ امتیازی سلوک مانتے ہیں۔اس کے دس سال بعد انٹاریو کی حکومت نے ایسے قانون کا اعلان کیا ہے، جو اس رائے کو قانونی شکل دیتا ہے۔،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشنکینیڈا کو ڈاکٹروں سمیت مختلف شعبوں میں ہنر مند لوگوں کی کمی کا سامنا ہے

’ہارڈ اور سافٹ سکلز‘

ایزومی اورکارلوس دونوں کا ماننا ہے کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ نئے آنے والوں کو ملازمتیں ملنے میں کتنے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بل 149 ایک اچھی پیشرفت ہے تاہم یہ ثابت کرنا کہ ایک آجر صرف کینیڈین تعلیم یا کینیڈین تجربے والے درخواست دہندہ کو رکھنا چاہتا ہے، مشکل ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہو بھی جاتا ہے تو کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا وجود ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن یہ تارکین وطن درخواست دہندہ کے لیے ملازمت حاصل کرنے میں مشکل پیدا کر سکتی ہیں۔ایزومی ساکاموتو کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق کینیڈین ’ورک تجربہ‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔’ہارڈ سکلز‘ جو آپ کی درخواست پر نظر آتی ہیں جیسے کہ درخواست دہندہ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی، پیشہ وارانہ سرٹیفیکیشنز یا ان کا کام۔ وہ امید کرتی ہیں کہ بل 149 ’ہارڈ سکلز‘ پر مبنی امتیاز سے لوگوں کو بچائے گا۔تاہم سافت سکلز بھی بھرتی کرنے والے مینیجرز کے لیے اہم ہیں جس میں وہ دیکھتے ہیں کہ درخواست دہندہ ان کے ادارے کے ماحول میں ’فٹ‘ آ جائے گا یا نہیں۔ ایزومی کہتی ہیں کہ سافٹ سکلز سے مراد مختلف قسم کی صفات ہو سکتی ہیں مثال کے طور پر انڈسٹری کے کام کے ماحول میں فٹ ہونے اور کام پر موجود ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرنا اور عمومی طور پر ایک کینیڈین آفس میں کام کرنے کی صلاحیت۔ہارڈ سکلز کے برعکس درخواست دہندہ ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹس کے زریعے یہ نہیں ثابت کر سکتا کہ اس کے پاس سافٹ سکلز ہیں۔ یہ مہارتیں زیادہ تر دفتر میں گپ شپ اور بورڈ رومز میں کئی گھنٹے گزار کر حاصل کی جاتی ہیں۔ایزومی کہتی ہیں کہ کینیڈا اور پوری دنیا میں آجر بھرتیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سافٹ سکلز پر انحصار کر رہے ہیں۔ یہ بہترین تجربہ رکھنے کے باوجود اس بنیاد پر آنے والے نئے تارکین وطن کی درخواست کو مسترد کرنے کا طریقہ بھی فراہم کرتا ہے۔ ملازمت نہ دینے کی اصل وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آجر کو درخواست دہندہ کے بولنے کا لہجہ پسند نہیں آیا یا جو وہ لنچ لائے ہیں وہ انھیں پسند نہیں آیا لیکن اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔کارلوس خود اس ملک میں نئے آنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ وہ ایک دہائی پہلے برازیل سے یہاں آئے تھے۔ ان کا اور ان کے کلائنٹس کا تجربہ ہے کہ آجر کھل کر کینیڈین ملازمت کا تجربہ نہیں مانگتے۔ ’وہ کہتے ہیں لیکن پھر بھی میں نے ماضی میں کئی ملازمتوں کے لیے درخواست دی لیکن مجھے وہ نہیں ملیں۔ کوئی بھی وجہ دی جا سکتی ہے۔ میں بس یہ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے اس لیے نہیں رکھا گیا کیونکہ میں ملک میں نیا ہوں۔‘دیگر صوبوں میں بھی اسی طرح کے اقدام ہو رہے ہیں، مثال کے طور پر کینیڈا کے مغربی صوبے برٹش کولمبیا میں ایسی طرح کا بل سامنے لایا گیا۔ اس صوبے میں ملک میں نئے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ اگر یہ قانون بن گیا تو تارکین وطن کی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے شمالی امریکہ کے باقی ممالک کے مقابلے میں کینیڈا کی ورک فورس پر بڑا اثر پڑے گا۔ ایزومی امید کرتی ہیں کہ انٹاریو میں یہ بل قانون بن جائے اور امید کرتی ہیں کہ آجر کینیڈا میں ملازمت کے لیے سافٹ سکلز کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ آجروں کو دل سے نئے آنے والوں کو قبول کرنا چاہیے اور یہ ایسی چیز ہے جو امتیازی سلوک پر پابندی لگا کر نہیں ہو سکتی۔ایزومی کہتی ہیں ’جب تک تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک کی خواہش ختم نہیں ہوتی دیگر قسم کے امتیازی سلوک برقرار رہیں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}