پشاور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور پارٹی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔
عدالتِ عالیہ نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکمِ امتناع جاری کر دیا اور اپنے حکم میں کہا کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہو گا، چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان بلا واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں جسٹس کامران حیات میاں خیل نے درخواست کی سماعت کی۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا۔
عدالت نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہوگا۔
پشاور ہائی کورٹ نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
دورانِ سماعت پی ٹی آئی کے وکلاء علی ظفر، بیرسٹر گوہر خان اور بابر اعوان روسٹرم پر آئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں، 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کیے گئے، الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا، الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے، الیکشن کمشنر پر اعتراض آ گیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے، الیکشن کمیشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بیٹ واپس لے لیا ہے، اب ہم انتخابات میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے حصہ نہیں لے سکتے، مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں، ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات سے باہر کر دیا گیا۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان سے متعلق سمبل کیس کے نام پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، الیکشن کمیشن نے صرف انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض نہیں کیا، آئین کا آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ہر کسی کو ایسوسی ایشن اور یونین بنانے کا حق ہے، یونین اور ایسوسی ایشن کے پاس اپنے عہدیدار منتخب کرنے کا حق ہے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو جنرل سیکریٹری نے کیسے تعینات کیا، قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد 7 دنوں میں پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن کو سرٹیفکیٹ دے گا، الیکشن ایکٹ میں بھی نہیں لکھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن کمیشن کالعدم قرار دے سکتا ہے، سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن 7 دنوں میں ویب سائٹ پر پبلش کرےگا، شق 215 کے تحت جب پارٹی سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے تو وہ انتخابی نشان کے لیے اہل ہو جاتی ہے۔
دلائل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اگر پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ نہیں دیتی تب پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے، شوکاز کے باوجود اگر پارٹی نے تفصیلات نہیں دیں، تب پارٹی سے انتخابی نشان لیا جاسکتا ہے ،یہ کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن سوموٹو لے سکتا ہے، پارٹی عہدیداروں کے بارے میں الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات نہیں ہیں، سیاسی پارٹی کوئی حکومت ادارہ نہیں ہوتا یہ عوام کی ایک تنظیم ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے اور سپریم کورٹ کئی فیصلوں میں یہ قرار دے چکی ہے، اگر سیاسی جماعت کے ممبران میں کوئی ایشو ہے تو وہ سول کورٹ میں جائیں گے، پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبران ہیں، ان میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
جسٹس کامران حیا ت میاں خیل نے استفسار کیا کہ اس کیس میں جو درخواست گزار تھے ان کا الیکشن کمیشن کےفیصلے میں ذکر ہے، یہ کون ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن تو خود فریق بن گیا ہے، جو درخواست گزار تھے وہ پی ٹی آئی کے ممبر ہی نہیں ہیں، الیکشن نہ کرانے پر صرف جرمانہ ہے، ایسی کوئی سخت سزا نہیں ہے،لیکن ہمیں یہاں الیکشن سے باہر نکالا جا رہا ہے، اگر الیکشن کمشنر یا پریزائیڈنگ افسر غلط مقرر ہو تب بھی الیکشن کمیشن ایسا فیصلہ نہیں دے سکتا۔
جسٹس کامران حیا ت میاں خیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عمرایوب جنرل سیکریٹری نہیں، انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کیسے مقرر کیا؟
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سول کورٹ جا سکتا ہے، آئین و قانون یہی کہتا ہے،الیکشن کمیشن کا یہ اختیار نہیں ہے، عاصمہ جیلانی سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس میں یہ کلیئر کیا گیا ہے، کل کو الیکشن کمیشن کہے گا کہ 1997ء میں جس کو منتخب کیا تھا وہ غلط تھا تو پھر کیا ہو گا؟ اگر الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت شروع کرے تو پھر یہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو گا، اگر آپ نے ایک پارٹی سے نشان لے لیا تو اس کا مطلب ہے آپ اس کو روک رہے ہیں۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے سوال کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق آپ کی اپنی پارٹی کے کیا رولز ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہماری پارٹی کے اپنے رولز ہیں۔
انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین اور جنرل سیکریٹری کے لیے خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخاب ہوتا ہے، یہ میں کلیئر کرتا ہوں۔
جسٹس کامران حیات نے انہیں ہدایت کی کہ آپ بیٹھ جائیں، جب یہ اپنے دلائل مکمل کریں گے تو آپ کو سنیں گے، آپ سےپوچھیں گےکہ اگر خلاف ورزی ہوئی ہے تو کیا الیکشن کمیشن کو انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی کا اپنا طریقہ کار ہے، پارٹی کے اندر سے لوگوں کو لانا ہوتا ہے ۔
جسٹس کامران میاں خیل نے سوال کیا کہ آپ کا آخری الیکشن کب ہوا؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 2017ء میں آخری انٹرا پارٹی الیکشن ہوا،2019ء میں ہم نے پارٹی آئین میں ترمیم کی، جون 2023ء میں ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات نئے آئین کے مطابق کرائے، پھر الیکشن کمیشن نے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر 20 دن میں الیکشن کرانے کا کہا، 20 دن میں الیکشن کرائے تو پھر کہا جاتا ہے کہ آپ کی پارٹی میں کوئی ہے نہیں، اب الیکشن شیڈول جاری ہوا ہے اور کاغذات جمع ہوئے ہیں، الیکشن میں مخصوص نشستیں بھی ہوتی ہیں، اگر پارٹی کا نشان نہیں ہے تو اس کا کیا ہو گا؟ ہمیں نشان الاٹ کیا جائے تاکہ ہم اپنے امیدوار کو ٹکٹ جاری کر سکیں، جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر کے نشان دیا جائے۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کہا کہ اگر آج سنگل بینچ نہیں ہوتا تو پھر آج ہی اس کا فیصلہ کرتے، اسد عمر نے جب استعفیٰ دیا تو اس کی کوئی تحریر موجود ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے جواب دیا کہ اسد عمر کو گرفتار کیا گیا تو پھر وہ آئے اور پارٹی کے عہدوں سے استعفیٰ دیا، تمام میڈیا نے اس کو کور کیا ہے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواست دینے والے فریقین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی، عدالت نے الیکشن کمیشن کو حتمی فیصلے سے روک دیا تھا۔
جسٹس کامران میاں خیل نے کہا کہ یہ ہو گیا ہے، اس کو اب چھوڑ دیں۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواست دینے والے فریقین کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی ہے۔
جسٹس کامران میاں خیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ اس کو دیکھے گی، آپ سے جو سوال کیا ہے اس کا جواب دیں، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں الیکشن کا کہا انہوں نے کرایا،الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے؟ سیاسی جماعت انٹرا پارٹی الیکشن کرائے تو پھر سرٹیفکیٹ جمع کرتی ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ بالکل 7 دن میں پارٹی نے سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہے۔
جسٹس کامران میاں خیل نے نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کیس موشن میں ہے، آپ نہ آتے تو ہم ان کو سنتے اور عبوری ریلیف پر فیصلہ کرتے، اب آپ آ گئے ہیں تو آپ کو سنیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انٹرم ریلیف اگر دیا گیا تو یہ تو پوری درخواست پر فیصلہ ہو گا۔
جسٹس کامران میاں خیل نے کہا کہ یہ تو الیکشن کمیشن ایک پارٹی کو الیکشن سے آؤٹ کر رہا ہے، اگر عدالت کل اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر ٹھیک نہیں تو پھر کیا ہو گا؟ یہاں تو یہ نظر آ رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ابھی چھٹیاں ہیں، اس کیس کو چھٹیوں کے بعد سنیں ۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ پاکستان میں کتنی سیاسی پارٹیاں ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللّٰہ نے جواب دیا کہ 175 پارٹیاں ہیں۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے استفسارکیا کہ کیا کسی اور پارٹی کو نوٹس جاری کیا گیا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن با اختیار ہے مکمل ڈاکومنٹس آنے تک فیصلہ دے سکتا ہے۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن میں اس پارٹی نے حصہ لیا تو یہ رجسٹرڈ پارٹی ہے، رجسٹرڈ پارٹی نے الیکشن کرا کر سرٹیفکیٹ دیا تو پھر کیسے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن صاف اور شفاف انتخابات کرائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ الیکشن کمیشن متنازع ہے۔
اس موقع پر خاتون وکیل کے ہنسنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو غصہ آ گیا اورانہں نے کہا کہ ہم ہنس نہیں رہے، دلائل دے رہے ہیں، یہاں میں مذاق کے لیے کھڑا ہوں جو یہ ہنس رہی ہیں، آپ انہیں کہیں کہ یہاں سے ’شٹ آف‘ ہو جائیں۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے خاتون وکیل کو ہدایت کی کہ بی بی آپ ایک طرف بیٹھ جائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللّٰہ نے کہا کہ ان کو کیا جلدی ہے؟ انتخابی نشان الاٹ کرنے میں ابھی تو وقت ہے، یہ کیس ڈبل بینچ سنے گا، اسے چیف جسٹس کے سامنے رکھ دیں۔
فاضل جج نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ چیف جسٹس ہیں نہیں تو کیا کریں گے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب! آپ لوگ آئے ہیں، ہم نے آپ کو سنا، اب تو کچھ کرنا ہو گا، آپ نہ آتے تو ہم اسے 2 جنوری کے لیےڈویژن بینچ میں بھیج دیتے، پارٹی امیدواروں کو کب تک ٹکٹ جاری کرنا ہے اس کی آخری تاریخ کیا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللّٰہ نے جواب دیا کہ 13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔
جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کہا کہ اگر پارٹی سے انتخابی نشان لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے، مسلم لیگ سے شیر، پیپلز پارٹی سے تیر، جے یو آئی سے کتاب واپس لی جائے تو کیا ہو گا؟
پشاور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور پارٹی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔
عدالتِ عالیہ نے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکمِ امتناع جاری کر دیا اور اپنے حکم میں کہا کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل ہو گا، چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد پہلے ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
آج کچھ دیر قبل پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور پارٹی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں آج ہی چیلنج کیا تھا۔
درخواست میں پی ٹی آئی کے وکلاء نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے استدعا کی ہے۔
پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کرانے کے طریقے پر فیصلے کا اختیار نہیں۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے پارٹی ممبر ہی نہیں۔
تحریکِ انصاف نے اپنی درخواست میں الیکشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا ہے۔
پی ٹی آئی کی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بلا بھی واپس لے لیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب عدالت سے سینئر ججز پر مشتمل بینچ بنانے اور درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
اس موقع پر بابر اعوان نے پشاور ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی چیئرمین تھے اور رہیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بھی توہینِ عدالت کا کیس دائر کرنے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن میں جو بھی رکاوٹ ڈالے گا، اس کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ ہو گا۔
بابر اعوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پری پول ریگنگ ہو رہی ہے، امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی تک چھینے گئے۔
Comments are closed.