’شادی سے انکار پر‘ بیٹی کے قتل کا الزام، اٹلی میں پاکستانی نژاد والدین کو عمر قید کی سزا

غیرت کے نام پر قتل

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, کیلی این جی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اٹلی کی ایک عدالت نے ایک پاکستانی نژاد جوڑے کو اپنی 18 سالہ بیٹی کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اس قتل کی وجہ بیٹی کی جانب سے ارینج میرج سے انکار بتائی گئی ہے۔

ثمن عباس کے لاپتہ ہونے کے 18 ماہ بعد ان کی لاش نومبر 2022 میں شمالی اٹلی کے ایک فارم ہاؤس سے برآمد ہوئی تھی۔

ان کے والد شبر عباس کو اگست میں پاکستانی حکام نے گرفتار کر کے اٹلی کے حوالے کیا تھا۔ ثمن کی والدہ نازیہ شاہین کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کہیں پاکستان میں ہی روپوش ہیں۔

شبر عباس نے اس سے قبل عدالت کو بتایا تھا کہ انھوں نے ’اپنی زندگی میں کبھی اپنی بیٹی کے قتل کا نہیں سوچا تھا۔‘

واضح رہے کہ اس مقدمے میں ثمن کے چچا دانش حسنین کو قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم ان کے دو کزنز کو بری کر دیا گیا تھا۔

اپریل 2021 کے اواخر میں والدین کے ہاتھوں ثمن عباس کے قتل نے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان کی گمشدگی کے بعد اٹلی کی مسلم برادری نے جبریوں شادیوں کے خلاف ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔

اطالوی حکام کی اطلاعات کے مطابق نوعمر لڑکی اپنے خاندان کے ساتھ سنہ 2016 میں پاکستان سے نقل مکانی کر کے فارم ٹاؤن نوویلرا آئی تھی۔

سی سی ٹی وی

،تصویر کا ذریعہCARABINIERI

ثمن نے ایک پاکستانی نژاد نوجوان کو ملنا شروع کیا تھا۔ علاقائی دارالحکومت بولوگنا کی ایک سڑک پر ان دونوں کی بوسہ لیتے ہوئے ایک تصویر سامنے آئی تھی جس نے مبینہ طور پر ان کے والدین کو مشتعل کر دیا تھا۔

اطالوی تفتیش کاروں نے بتایا کہ ثمن عباس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ سنہ 2020 میں طے شدہ شادی کے لیے پاکستان چلی جائیں لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

اطالوی میڈیا کے مطابق وہ اکتوبر سے سوشل سروسز کی زیرِ نگرانی رہ رہی تھیں تاہم اپریل کے اواخر میں وہ واپس شمالی اٹلی کے علاقے نوویلرا میں واقع اپنے والدین کے گھر منتقل ہو گئی تھیں۔

پراسیکیوٹر ازابیلا چیسی کا کہنا ہے کہ حکام کا خیال ہے کہ انھیں جھانسہ دے کر گھر واپس بلایا گیا اور پھر اس کے بعد وہ لاپتہ ہو گئیں۔

ثمن عباس کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کے والد نے اٹلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بیلجیئم گئی تھیں۔

پولیس کی جانب سے جاری کردہ 29 اپریل 2021 کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ثمن عباس کے خاندان کے تین افراد نے بیلچے اور ایک نیلا بستہ اٹھا رکھا ہے۔

اگلے دن دوسری فوٹیج میں لاپتہ لڑکی کو اپنے والدین کے ساتھ گھر سے نکلتے دیکھا جاسکتا ہے۔

ان کی لاش بالآخر گذشتہ نومبر ایک فارم ہاؤس کے قریب سے برآمد ہوئی، جہاں یہ خاندان رہتا تھا۔ اس جگہ کی نشاندہی ثمن کے چچا نے یہ کہتے ہوئے کی کہ ان کی بھتیجی کو وہاں دفن کیا گیا ہے۔

پوسٹ مارٹم کے معائنے میں پتا چلا کہ ثمن کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ ممکنہ طور پر یہ سب گلا گھونٹنے کے نتیجے میں ہوا۔

ان کے لاپتہ ہونے کے بعد والدین فوری طور پر اٹلی سے پاکستان چلے گئے جبکہ ثمن کے چچا دانش حسنین اور ان کے دو کزن فرانس اور سپین چلے گئے۔

ثمن کے چچا کو بالآخر سنہ 2021 میں پیرس میں حراست میں لیا گیا جبکہ ان کے والد کو سنہ 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا اور بالآخر اس سال 31 اگست کو ان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ان کی ماں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئی ہیں۔

نازیہ شاہین کی عدم موجودگی میں شمالی شہر ریگیو ایمیلیا کی عدالت نے دونوں والدین کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔

شبر عباس نے اس سے قبل عدالت کو بتایا تھا کہ وہ بے قصور ہیں۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ اور ان کی اہلیہ صرف اسی رات ان کی بیٹی کا پیچھا کر رہے تھے جس رات وہ غائب ہوئی تھیں کیونکہ وہ ناخوش تھے کہ اتنی دیر ہو چکی تھی اور وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کہاں جا رہی ہیں۔

اطالوی میڈیا کے مطابق ثمن کے والد نے کہا کہ ’یہ ٹرائل ابھی مکمل نہیں ہوا اور یہ کہ میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کو کس نے مارا ہے۔‘

قبائلی رسم و رواج میں ایسی لڑکی جو کسی سے تعلقات استوار کرے تو اسے خاندان کی عزت پر دھبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور عموماً پہلے عورت کو قتل کیا جاتا ہے اور پھر مرد کا تعاقب کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی سب سے عام وجوہات یہ ہیں کہ جب متاثرہ لڑکی طے شدہ شادی کرنے سے انکار کرے یا اسے جنسی تشدد یا ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

لیکن قتل زیادہ معمولی وجوہات کی بنا پر بھی کیے جا سکتے ہیں، جیسا کہ نامناسب سمجھے جانے والے لباس پہننا یا نافرمانی کے طور پر دیکھے جانے والے رویے کو ظاہر کرنا۔

پاکستان میں ہر سال متعدد ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کیا گیا ہو۔ ایسے واقعات میں قتل کیے جانے والے مردوں کی تعداد عموماً کم ہوتی ہے۔

گذشتہ ماہ پاکستان کے ضلع کوہستان میں ایک 18 سالہ خاتون کو ان کے والد اور چچا نے قبائلی عمائدین کے حکم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ قتل کی وجہ وہ تصویر بنی جس میں انھیں ایک مرد کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔

بعد میں پتا چلا کہ وائرل ہونے والی تصویر تحریف شدہ تھی اور اس لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ ان کے چچا ابھی مفرور ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ