’کار سپیکر میں چھپا ٹرانسمیٹر۔۔۔‘ وہ خفیہ مقام جہاں برطانوی جاسوسوں کے لیے خصوصی آلات بنتے ہیں

یہ کار کا سپیکر جو نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یہ بظاہر ایک کار سپیکر ہے، مگر اس میں کچھ اور چھپی ہوئی صلاحیتیں بھی ہیں

  • مصنف, گورڈن کوریرا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

لندن کے شمال مغرب میں ملٹن کینز کے قصبے کے باہر ایک پارک ہے جو خاردار تاروں کی پانچ قطاروں سے محفوظ کیا گیا ہے کیونکہ وہاں مینوفیکچرنگ کا ایک غیر معمولی کارخانہ ہے۔

اس کارخانے کا دروازہ گذشتہ 85 سال میں میڈیا کے لیے کبھی بھی نہیں کھلا۔

ہینسلوپ پارک میں موجود ہر میجسٹیز گورنمنٹ کمیونیکیشن سینٹر (ایچ ایم جی سی سی) میں پہلی نظر میں جو چیزیں وہاں تیار ہوتی نظر آتی ہیں، وہ روزمرہ کی ہی چیزیں ہیں۔

لیکن اس کے پس پشت کوڈ بریکر (خفیہ کوڈ کو حل کرنے والے) ایلن ٹورنگ، سیل بند کمرے اور جیمز بانڈ فلموں کے انتہائی خفیہ ڈیوائسز جیسے آلات بننے کی کہانی ہے۔

خصوصی رسائی

آخر وہاں اتنی سخت سکیورٹی کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ اشیا برطانیہ کے جاسوسوں کے لیے بنائی جاتی ہیں اور ان کے کام کو چھپانے میں مدد کرتی ہیں؟

بی بی سی کو اس جگہ کے دورے کی خصوصی اجازت ملی ہے اور اس لیے ہمیں اپنے فونز ان کے حوالے کرنا ہوتے ہیں اور ان کے سکیورٹی اہلکار ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں۔

وہاں کے دورے سے اندر کیا ہو رہا ہے اس کی ہمیں ایک جھلک ملتی ہے کیونکہ ایچ ایم جی سی سی جاسوسی کی دنیا میں آگے رہنے کے لیے نئے پارٹنرز تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کارخانے کے چیف ایگزیکٹیو جارج ولیمسن وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ہم نے لوگوں کے لیے اپنے ساتھ جڑنا واقعی مشکل بنا دیا ہے اور یہ کہ ہماری پوری تاریخ میں یہ ہمارے کام کرنے کے لیے بہت اچھا طریقہ رہا ہے۔’

لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب بدلنے کا وقت آ گیا ہے، چاہے یہ ‘عجیب’ ہی کیوں نہ لگتا ہو۔

بے نام نظر آنے والی عمارتوں کے ساتھ یہ جگہ کسی صنعتی اسٹیٹ کی طرح نظر آتی ہے۔

اور اس میں انجینیئرز، طبیعیات دان، کیمیا دان، ڈیزائنرز، کوڈرز اور دیگر ماہرین کام کرتے ہیں۔ اسے وہ ‘فن اور انجینئرنگ کے مرکب’ کی مبہم اصطلاح میں بیان کرتے ہیں۔

کچھ علاقوں میں وہ ہمیں اینٹی سٹیٹک لباس پہننے پر مجبور کرتے ہیں اور دیگر میں وہ ہمیں حیران کن قسم کی مشینیں دکھاتے ہیں جن میں الیکٹرانک سرکٹ بورڈز، لیزر کٹر اور تھری ڈی پرنٹرز (سٹار وارز کو خراج تحسین پیش کرنے والے ڈارتھ ویڈر، لیوک اور لئیا کا لیبل لگے ہوئے پرنٹرز) شامل ہیں۔

لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ آخر ان مشینوں کی تخلیق در اصل کس لیے کی گئی ہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ میں جاننے کی لاکھ کوشش کیوں نہ کرلوں مجھے کوئی اس کے بارے میں بتانے والا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو پروڈکٹس یہاں بنائے جاتے ہیں وہ انتہائی خفیہ مواد ہیں۔

ہینسلوپ پارک میں موجود کارخانہ

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

ہینسلوپ پارک میں موجود کارخانہ

اس کی تاریخ

لیکن ماضی میں ہم اس کا سراغ تلاش کر سکتے ہیں۔ ایچ ایم جی سی سی کو دوسری جنگ عظیم کے موقع پر بنایا گیا تھا۔ یہ اس صورت حال میں بنایا گيا تھا جب یورپ میں جاسوسوں اور سفارت کاروں کو برطانیہ کے ساتھ خفیہ اور محفوظ طریقے سے بات چیت کرنے کی ضرورت تھی۔

اس مقصد کے حصول کے لیے خفیہ ریڈیو سسٹمز کی تخلیق ہوئی جسے سفارتی بیگ میں سمگل کیا جا سکتا تھا۔ سنہ 1939 میں پولینڈ پر جرمنی کے حملے کے بعد وارسا سے فرار ہونے والے اہلکاروں نے ان میں سے کچھ ریڈیو کو اس خبر کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔

جب جنگ شروع ہوئی تو یہاں چھوٹے ریڈیو سیٹس تیار کیے جانے لگے ان برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے ایجنٹوں کو جاری کیے جاسکتے تھے جو مقبوضہ یورپ میں دشمن کی صفوں کے پیچھے پیراشوٹ سے اترتے تھے تاکہ خفیہ معلومات جمع کر سکیں۔

ایلن ٹورنگ جنگ کے دوران ہینسلوپ پارک میں رہتے اور کام کرتے تھے۔ وہ اس جگہ کے قریب بلیچلی پارک میں نازی کوڈز کو توڑنے کے لیے مشہور ہوئے تھے اور وہ ایچ ایم جی سی سی میں ایک ایسا آلہ تیار کرنے میں لگے تھے جو کہ وائس انکرپشن فراہم کرے۔

اس مشین کو برطانوی رہنما ونسٹن چرچل اور امریکی رہنما فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جنگ کے دوران استعملا کیا تھا اور اس کا وزن 50 ٹن تھا۔

ٹیورنگ کے نمونے پر بنائی گئی مشین کو ڈیلئلا کہا گیا اور اس میں ریکارڈ پلیئر کے شور کو آواز کے اوپر ڈالا گيا۔ یہ اپنے وقت سے پہلے کی چیز تھی جو کہ پورٹیبل تھی اور اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج وہاں کیا کچھ بنایا جا رہا ہوگا۔

ایلن ٹورنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایلن ٹورنگ جنگ کے دوران ہینسلوپ پارک میں رہتے اور کام کرتے تھے

جدید دور کے جاسوس

ٹورنگ کے بھتیجے سر ڈرموٹ ٹیورنگ نے بی بی سی کو بتایا: ‘مجھے شک ہے کہ کوئی ٹائم لائن براہ راست اس بات کا پتہ لگا سکتی ہے کہ وہاں 70 یا 80 سال پہلے کیا کچھ ہو رہا تھا۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘محفوظ مواصلات کی ضرورت ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔’

تو اس کا جدید دنیا سے کیا تعلق ہے؟ آج بھی روس یا ایران کے نام نہاد ‘پابندی والے علاقوں’ میں کام کرنے والے خفیہ ایجنٹوں کو محفوظ طریقے سے بات چیت کرنے والے آلات کی ضرورت ہے۔

اگرچہ ایچ ایم جی سی سی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن دوسرے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جدید جاسوس خفیہ ٹرانسمیٹر جیسے آلات پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ عام اشیاء کی طرح نظر آنے والے ہو سکتے ہیں اور پل بھر میں ان کے ذریعے مختلف حصوں میں معلومات بھیجی جا سکتی ہیں۔ میرے خیال سے وہ یہاں ایسی ہی کوئی چیز بنا رہے ہیں لیکن کوئی بھی اس کا اقرار کرنا نہیں چاہتا۔

ایک اور چیز جو وہ مجھے دکھاتے ہیں اس سے مزید کچھ اشارہ ملتا ہے کہ آخر وہ ایچ ایم جی سی سی پر کیا کر رہے ہیں۔

یہ ایک کار ریڈیو سپیکر ہے جو سنہ 1930 کی دہائی کا ہے اور اس کے پیچھے ایک خفیہ ٹرانسمیٹر چھپا کر لگایا گیا ہے۔

مواصلات ان کے کام کا ایک حصہ ہے۔ بظاہر سننے اور ٹریک کرنے والے آلات بھی ایسے ہی پوشیدہ طور پر ہوتے ہیں لیکن جب میں ان سے پوچھتا ہوں تو تو حکام خاموش رہتے ہیں۔

ولیمسن کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے اپنے 85 سالوں کے دورا زیادہ تر محفوظ مواصلاتی نظام تیار کیے ہیں جو دور دراز، اکثر مشکل اور خطرناک مقامات پر لوگوں کو برطانیہ کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔’

اور وہ مزید کہتے ہیں کہ کچھ قومی سلامتی کے اداروں کے معاملے میں ‘ہم ان کے تحقیقی کام میں کچھ ایسی ٹیکنالوجیز تیار کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں جو انھیں نگرانی جیسے کام کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔’

ایچ ایم جی سی سی کے گاہکوں میں سے ایک ان کی گھریلو انٹیلی جنس سروس ایم آئی-6 ہے جسے برطانیہ میں اپنے گھر پر یا اپنی گاڑی میں چھپے کسی مشتبہ شخص کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس میں کسی سننے والے آلے کو روزمرہ کی چیز کے طور پر پیش کرنا شامل ہو سکتا ہے تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو اور کوئی پتہ نہ چلا سکے۔ وہ چیز کیا ہو سکتی ہے اس کے بارے میں یہاں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔

اس جگہ سکیورٹی سخت ہے

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشن

اس جگہ سکیورٹی سخت ہے

جیمز بانڈ کی فلموں کی طرح

ایسا لگتا ہے کہ یہ سب جیمز بانڈ کی ‘کیو برانچ’ کی فلموں کی طرح ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کا موازنہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ ایسی چیزیں نہیں بناتے جو پھٹتی ہوں یا ایسی کاریں نہیں بنا رہے جہاں سے راکٹ لانچ کی جا سکیں، لیکن وثوق کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ربڑ کے فرش والے ایک کمرے میں اس جگہ عملے کے دو ارکان برقی آلات کی جانچ کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ غلطی سے کسی کو جھٹکا نہ دیں۔ یہاں بنی اشیاء کو انتہائی گرم اور سرد درجہ حرارت میں کسی دوسری جگہ رکھ کر جانچا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ کسی بھی صورت میں اب بھی پیغام نشر اور حاصل کر سکتے ہیں۔

انھوں نے سٹار گیٹ نامی ایک عجیب سی جگہ دکھائی۔ وہ ایک مہر بند کنٹینر تھا اور اس میں فوم کے سپائکس تھے۔ جب مجھے اس میں بند کیا گیا تو ایسا لگا کہ وہ قرون وسطی کے ٹارچر چیمبر کے جدید ورژن میں سے ایک ہے۔

کمرے میں ایک گھومنے والا پلیٹ فارم ہے جو سینسر والے ڈیوائس کو حرکت دیتا ہے وہ یہ جانچتا ہے کہ کوئی خاص کمیونیکیشن ڈیوائس کس قسم کا پیٹرن دکھاتا ہے۔

اس سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کسی دشمن ریاست میں پتا لگنے سے کیسے بچنا ہے اور اپنی سرزمین پر استعمال ہونے والے کسی بھی آلات کی شناخت کیسے کی جائے۔

سٹار گیٹ
،تصویر کا کیپشن

سٹار گیٹ کے سپائکس بتاتے ہیں کہ آپ عہد وسطی کے کسی ٹارچر روم میں جا رہے ہیں

کئی دہائیوں کی رازداری کے بعد اس جگہ کے در کا کھلنا

ایک وقت تک دنیا کی آنکھوں سے دور رہنے کے بعد اب یہ اپنے آپ کو دنیا کے لیے کھول رہا ہے اور وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے کہ کیونکہ چھوٹے سٹارٹ اپس اور اکیڈمیا میں نئی ٹیکنالوجیز تیار کی جا رہی ہیں جو اس کے مشن کے لیے اہم ہو سکتی ہیں۔

یہاں تک کہ اگر کوئی ایسی ٹیکنالوجی تیار ہوتی ہے جسکا کسی مخصوص علاقے کی قومی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں ہو لیکن اس کے ایسے استعمال ہوسکتے ہیں جن سے ڈویلپرز بھی لاعلم ہیں۔

ماضی میں سخت سکیورٹی ضوابط نے تعاون کو ناممکن بنا دیا تھا لیکن امید ہے کہ اب ایسا ہو سکتا ہے۔

ولیمسن کا کہنا ہے کہ اس کے پس پشت ‘خیال یہ ہے کہ ہم اپنے انجینیئرز اور ان کے بڑے خیالات کو اس صنعت یا تعلیمی ادارے کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رکھ سکتے ہیں۔’

اور ان کا کہنا ہے کہ ‘جب مختلف خیالات اکٹھے ہوں گے تو کسی جادوئی لمحے میں واقعی کوئی خاص چیز سامنے آئے گی۔’

لیکن اس ٹیکنالوجی کو کس طرح استعمال کیا جائے گا یہ بات اس جگہ پر تقریباً ہر چیز کی طرح خفیہ رہے گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ