سونے اور تیل کی دولت سے مالا مال ایک غیر معروف علاقہ جس نے جنوبی امریکہ کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا

ایسکیبو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, نوربرٹو پاریدیس
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

جنوبی امریکی خطے میں دو ممالک کے درمیان تیل کی دولت سے مالا مال ایک متنازعہ علاقے پر سرحدی کشیدگی نے بین الاقوامی تشویش کو جنم دیا ہے۔

یہ جھگڑا وینزویلا اور گیانا کے درمیان ایک متنازعہ علاقے ایسکیبو کی خودمختاری پر ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ جو گیانا کا دو تہائی حصے کے برابر ہے ( اور یہ تقریباً تیونس کے برابر ہے اور انگلینڈ، کیوبا یا یونان کے رقبے سے زیادہ ہے)۔

وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے ملک میں اس معاملے پر ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد اس ہفتے اعلان کیا تھا کہ اس علاقے میں وینزویلا کا ایک علاقہ بنایا جائے گا۔ انھوں نے سرکاری کمپنیوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ علاقے میں تیل کے ذخائر کی تلاش اور ان سے تیل نکالنے کا کام شروع کریں اور متنازعہ زمین کے لیے ایک نیا جامع دفاعی زون تشکیل دیں۔

گیانا کی طرف سے اس اعلان کو ایک ’خطرہ‘ سمجھا جا رہا ہے کیونکہ گیانا نے تقریباً 100 سال سے ایسکیبو کا انتظام سنبھالا ہوا تھا۔

گیانا کے صدر عرفان علی نے کہا کہ ملک وینزویلا سے خود کو بچانے کے لیے ضروری اقدامات کر رہا ہے اور امریکی فوج کی سدرن کمانڈ سمیت علاقائی اتحادیوں سے مدد مانگی گئی ہے۔

اس تنازعے پر متعدد مغربی ممالک کی طرف سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی مذمت کی گئی ہے، امریکہ نے اس مسئلے کا ’پرامن حل‘ نکالنے کا مطالبہ کیا ہے اور برطانیہ نے وینزویلا کی حکومت کے حالیہ اقدامات کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا ہے۔

ایسکیبو خطہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

نقشہ

ایسکیبو تیل سے مالا مال ایک علاقہ ہے جو وینزویلا کے پڑوسی ملک گیانا کے زیر انتظام ہے۔

اس علاقے کو گیانا ایسکیبیا نے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 159600 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا یہ علاقہ گیانا کے زیر انتظام رقبے کے دو تہائی کے برابر ہے۔ یہ گیانا کے آٹھ لاکھ شہریوں میں سے سوا لاکھ آبادی کا گھر ہے۔

اس خطے میں سونے، تانبے، ہیرے، لوہے، باکسائٹ اور ایلمونئیم سے مالا مال ہے۔

سنہ 2015 میں متنازعہ علاقے سے دور پانیوں میں خام تیل کی دریافت کے بعد سے گیانا کی معیشت تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ امریکی کمپنی ایگزون موبل کو گیانا نے تیل کی تلاش کا لائسنس دیا، جس سے گیانا کی پیداوار، ذخائر اور محصولات میں اضافہ ہوا۔

اس تنازعے کی تاریخ کیا ہے؟

ایسکیبو پندرہویں صدی کے دوران وینزویلا کے ہسپانوی کپتانی جنرل کا حصہ تھا۔ جب وینزویلا نے 1811 میں سپین سے آزادی حاصل کی تو اس نے خود ساختہ طور پر ایسکیبو کو اپنا حصہ قرار دے دیا۔

تین سال بعد برطانیہ نے وینزویلا کے مشرق میں تقریباً 51,700 مربع کلومیٹر کے علاقے کو حاصل کرنے کے لیے نیدرلینڈز کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے لیکن اس معاہدے میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ برٹش گیانا سے منسلک مغربی سرحد کا خطہ کیا بنے گا۔

لندن نے 1840 میں ایکسپلورر رابرٹ شومبرگ کو مقرر کیا، جس نے خطے کے نقشے پر ایک لکیر کھینچی جس سے اس خطے کے اضافی 80,000 مربع کلومیٹر پر حق دعویٰ کیا گیا اور جس کو چار دہائیوں بعد مزید بڑھایا گیا۔

سنہ 1895میں امریکہ نے سفارش کی کہ تنازعے کو بین الاقوامی ثالثی میں حل کیا جانا چاہیے اور چار سال بعد پیرس ثالثی ایوارڈ جاری کیا گیا جس نے اس علاقہ پر برطانوی راج کے تحت وینزویلا قبضے کا خاتمہ کیا۔

چار دہائیوں بعد اس فیصلے کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانے والی دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد وینزویلا نے اسے غلط قرار دیا اور خطے پر اپنے دعوے کو دوبارہ جائز قرار دیا۔

سنہ 1966 میں برطانیہ نے گیانا کو آزادی دی اور فریقین اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کے لیے پرعزم تھے، لیکن اس بارے میں کبھی بھی اقوام متحدہ کا کوئی حکم نہیں تھا اور وینزویلا کے آنجہانی صدر اور جارج ٹاؤن کے درمیان اچھے تعلقات کی وجہ سے ہوگو شاویز کی حکومت کے دوران یہ کیس بند رہا۔

لیکن 2015 میں تیل کی دریافت کے بعد وینزویلا اور گیانا کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔

وینزویلا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب صدر نکولس مادورو کی حکومت کے ایسکیبو پر اپنے دعوؤں کے پیچھے معاشی اور سیاسی دونوں مقاصد ہیں۔ مادورو نے ایسکیبو کو ’تحفظ‘ دینے کے لیے ’قومی اتحاد‘ کے متعدد مظاہروں کا مطالبہ کیا اور وینزویلا کی مشہور شخصیات پر زور دیا کہ وہ تنازعے کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس ’قومی اتحاد‘ کے ایک حصے کے طور پر وینزویلا کی حکومت نے شہریوں کو ایسکیبو پر وینزویلا کی خودمختاری کی پشت پناہی کرنے کے لیے ایک پرزور مہم کے بعد ایک متنازع مشاورتی ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر مادورو بین الاقوامی دباؤ اور 2024 میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے مطالبات کے درمیان وینزویلا کے مفادات کے محافظ کے طور پر سامنے آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکہ نے حال ہی میں وینزویلا کی تیل کی صنعت پر عائد پابندیوں میں نرمی کی تھی جس کے بدلے میں حکومت نے حزب اختلاف کی اہم امیدوار ماریا کورینا ماچاڈو پر سے پابندی اٹھا لی تھی۔

تاہم ماریا ماچاڈو پر صدر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے پر پابندی فی الحال برقرار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وینزویلا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ریفرنڈم کے بعد کیا ہوا؟

حکام کے مطابق 95 فیصد سے زیادہ وینزویلا کے شہریوں نے ریفرنڈم میں ایسکیبو پر وینزویلا کے دعوے کی حمایت کے لیے ووٹ ڈالا۔ ریفرنڈم میں وینزویلا کی حکومت نے رائے دہندگان سے کہا کہ وہ اس تنازعے پر اس کے موقف کی حمایت کریں۔

اس ریفرنڈم میں سب سے متنازع پانچواں سوال تھا جس میں وینزویلا کے شہریوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ’گیانا ایسکیبا ریاست کی تخلیق‘ اور اس کے ’وینزویلا کے نقشے میں شمولیت‘ سے متفق ہیں۔

قومی انتخابی کونسل کے سربراہ اور صدر مادورو کے قریبی اتحادی ایلوس اموروسو نے کہا ہے کہ ریفرنڈم میں 10.5 ملین ووٹ ڈالے گئے۔

حزب اختلاف کے میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ پولنگ سٹیشنز پر دن بھر خاموشی رہی، جس نے حکومت کے ان دعوؤں پر شک کیا کہ ٹرن آؤٹ زیادہ تھا۔

ریفرنڈم سے پہلے بین الاقوامی عدالت انصاف نے وینزویلا کو متنبہ کیا تھا کہ وہ کوئی ایسی کارروائی نہ کرے جس سے ایسکیبو کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کیا جاسکے۔

ریفرنڈم سے پڑوسی ملک گیانا میں تشویش نے جنم لیا اور اس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں ’چوکنا‘ ہے تاہم منگل کو اس وقت کشیدگی بڑھ گئی جب صدر مادورو نے ایسکیبو کو وینزویلا کا علاقہ بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا اور سرکاری کمپنیوں کو حکم دیا کہ وہ خطے میں تیل، گیس اور دیگر معدنیات سے فائدہ اٹھائیں۔

گیانا کے صدر عرفان علی نے کہا کہ وہ ’بدترین صورتحال کے لیے تیاری کر رہے ہیں‘، البتہ انھوں نے یہ بھی اعادہ کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’یہ تنازع پرامن طریقے سے حل ہو۔‘

صدر عرفان علی نے خبردار کیا کہ ان کے ملک کو امریکہ کی فوجی حمایت حاصل ہے اور اسے برطانیہ اور دولت مشترکہ اور کیریبین کمیونٹی آرگنائزیشن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ امریکی سدرن کمان نے جمعرات کو گیانا کی دفاعی افواج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔

سدرن کمانڈ کے ایک بیان کے مطابق ان فوجی مشقوں کا مقصد دونوں ممالک کی افواج اور علاقائی سطح پر تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔

اگرچہ سدرن کمانڈ نے یقین دلایا کہ یہ معمول کی مشقیں ہیں لیکن ماہرین نے انھیں وینزویلا کی حکومت کے حالیہ اقدامات کے ردعمل کے طور پر تعبیر کیا۔ وینزویلا کے حکام نے مشترکہ فوجی مشقوں پر تنقید کی ہے۔ وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرینو نے کہا کہ یہ ’اشتعال انگیزی‘ ہے۔

عالمی برادری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عالمی برادری کا کیا ردعمل ہے؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے تنازعے پر جمعہ کو ایک ہنگامی اجلاس بلایا ہے جس کے بارے میں گیانا کا کہنا ہے کہ اس تنازعے سے ’بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ ہے۔‘

امریکی سدرن کمانڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ’گیانا کے قابل اعتماد سکیورٹی پارٹنر کے طور پر اور علاقائی تعاون اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے اپنے عزم کو جاری رکھے گا۔‘

اس ہفتے کے شروع میں، امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے گیانا کے صدر سے بات کی تاکہ ’گیانا کی خودمختاری کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کی توثیق کریں۔‘

امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے اس مسئلے کے ’پرامن حل‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام فریقین سے ’وینزویلا اور گیانا کے درمیان زمینی سرحد کا تعین کرنے والے 1899 کے ثالثی فیصلے کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا، جب تک کہ فریقین ایک نئے معاہدے پر نہ پہنچ جائیں، یا کوئی مجاز قانونی ادارہ دوسری صورت میں فیصلہ نہ کرے۔‘

نٹونی بلنکن اور گیانی کے صدر عرفان علی نے یکم دسمبر کو جاری ہونے والے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کا بھی حوالہ دیا جس میں فریقین سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کریں جو تنازعے کو بڑھائے یا بڑھا سکے۔

برطانیہ کا کہنا ہے کہ ’اسے گیانا کے ایسکیبو علاقے کے حوالے سے وینزویلا کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات پر تشویش ہے۔‘

برطانیہ کے دفتر خارجہ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلا جواز ہے اور اسے بند ہونا چاہیے۔‘

برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے بھی جمعرات کو ریو ڈی جنیرو میں جنوبی امریکی اقتصادی سربراہی اجلاس کے دوران ’بڑھتی ہوئی تشویش‘ کا اظہار کیا۔

لولا نے کہا کہ ’اگر جنوبی امریکہ میں ہم ایک چیز نہیں چاہتے ہیں تو وہ جنگ ہے۔‘

مرکوسور تجارتی اتحاد کے ممبران نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ’وینزویلا اور گیانا کے درمیان کشیدگی میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘

اس اتحاد کے رکن ممالک ارجنٹائن، برازیل، پیراگوئے اور یوراگوئے ہیں۔ غیر مرکوسور ممبران چلی، کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو نے بھی اس بیان پر دستخط کیے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ