‘میں نے اپنی بیٹی کو اُس کے والد سے محفوظ رکھنے کے لیے 30 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے‘
- مصنف, سانچیا برگ اور کیٹی ان مین
- عہدہ, بی بی سی نیوز
برطانیہ کے شہر کارڈف میں کمرہ عدالت کے باہر ایک خوش لباس مگر گھبرائی ہوئی نوجوان خاتون انتظار کر رہی تھی۔ بیتھن (فرضی نام) نے اس سے پہلے کبھی عدالت کی منہ نہیں دیکھا تھا لیکن وہ اپنی بچی کی حفاظت کی غرض سے آج یہاں موجود ہیں۔
بچی کے والد یعنی بیتھن کے شوہر پر بچوں سے جنسی زیادتی کا جرم ثابت ہو چکا ہے اور انھیں سزا سنائی جا چکی ہے۔
چند ماہ پہلے جب ان کو سزا دی گئی تھی تو ان پر یہ پابندی بھی عائد کی گئی تھی کہ وہ مستقبل میں بچوں کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکتے لیکن اس کا اطلاق ان کا اپنی بیٹی کے ساتھ تعلقات پر نہیں ہے۔
بیتھن کے شوہر کو چونکہ بچی کی ولدیت کے حقوق حاصل ہیں چنانچہ وہ بچی کی صحت، تعلیم اور رہن سہن کے انتظامات پر اپنی رائے دینے کا حق رکھتے ہیں۔۔
لیکن بیتھن یہ سوچ کر شدید خوف کا شکار ہیں کہ جیل سے رہائی کے بعد کیا ہو گا۔ انھیں یہ ڈر ہے کہ وہ ایک دن ان کو بتائے بغیر سکول سے ان کی بیٹی کو لے جائیں گے اور انھیں واپس حاصل کرنے کا ان کے پاس واحد طریقہ فیملی کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا۔ اور اس دوران بچی ان کے پاس ہو گی اور وہ بچی کے ساتھ وہ بدسلوکی کر سکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے انھوں نے دوسرے بچوں کے ساتھ کی۔
وہ کہتی ہیں ’آپ اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکیں گے۔‘
بیتھن نے اپنے والدین کی حمایت کے ساتھ ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے عدالت سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ ان کے سابق شوہر کے ولدیت کے حقوق ختم کرے اور جب تک بچی 18 سال کی نہیں ہوتی اس سے ہر قسم کے، بلواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ کرنے کا حق ختم کیا جائے۔
بیتھن کے سابق شوہر کے سنگین جرائم کے باوجود انھیں بتایا گیا ہے کہ یہ سارا عمل بہت مشکل ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا سابق شوہر بہت چالاک ہو اور انھیں یہ خدشہ ہے کہ وہ عدالت کو اپنے بچھتاوے سے قائل کر سکتے ہیں۔
انھیں اپنے کیس میں مدد کے لیے کوئی قانونی مدد بھی فراہم نہیں کی گئی۔ ان کے وکیل اور بیرسٹر کے اخراجات پہلے ہی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
کمرہ عدالت میں بیتھن ایسی جگہ پر بیٹھتی ہیں جہاں سے وہ واضح طور پر نہیں دکھائی دیتیں۔ ان کی بچی کے والد ویڈیو لنک کےذزریعے عدالت میں پیش ہوتے ہیں اسی لیے ان کی شکل بڑی سکرین پر نظر آتی ہے۔ وہ ایک لمبے ٹیبل کے پیچے بیٹھے ہوئے چھوٹے نظر آ رہے ہیں اور ان کے سامنے کاغذ بکھرے ہوئے ہیں۔
بیتھن کے سابق شوہر عدالت کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ ’بہت سنگین نوعیت‘ کے جرائم کی وجہ سے جیل میں ہیں اور اگر ان کی بیٹی ان سے تعلقات رکھنا چاہتی ہے تو وہ ’اپنی بچی کے لیے ہر وقت موجود‘ رہنا چاہییں گے۔ وہ ہر ہفتے اپنی بیٹی کو خط لکھتے ہیں مگر اپنے موجودہ حالات کے باعث وہ ان خطوط کو ارسال نہیں کر پاتے۔
بعد میں وہ عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ایک باپ ہیں ’جو اپنی بچی سے بےحد پیار کرتے ہیں۔‘ انھوں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں عدالت کو بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے پاس موجود ہوتے۔
بیتھن کے لیے یہ سب سننا ’ناقابل برداشت‘ ہے اور جو ہولناک چیزیں ان کے سابق شوہر نے متاثرہ بچوں کے ساتھ کیں ان کے ساتھ انھیں قبول کرنا ’ناقابل یقین حد تک تکلیف دہ‘ ہے۔
آنے والے ہفتوں میں سوشل ورکرز نے بیتھن اور ان کی بچی کے ساتھ وقت گزارا اور ان کے والد سے جیل میں ملاقات کی۔
ان کے کیس میں تیزی سے پیشرفت آتی ہے اور بیتھن تین مہینوں بعد کارڈف کی فیملی عدالت میں دوبارہ پیش ہوتی ہیں۔
سوشل ورکرز کی رپورٹ میں بیتھن کے سابق شوہر پر کافی تنقید کی گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ رو رہے ہیں، وہ عدالت کا شکریہ ادا کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ وہ معذرت خواہ ہیں کہ وہ ایسے والد نہیں بن سکیں جس کی ان کی بچی مستحق ہے۔
وہ امید کرتے ہیں کہ جب ان کی رہائی ہو گی تو ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا اور انھوں نے درخواست کی کہ انھیں ان کی بچی کی سالانہ رپورٹ دی جائے جس میں انھیں تفصیل سے بتایا جائے ان کی بیٹی کیسی ہے۔
بیتھن کے لیے یہ بالواسطہ رابطہ قابل قبول نہیں ہے۔ جب ان کے وکیل نے سوال کیا کہ ایسی رپورٹ کی کیا اہمیت ہو گی تو بچی کا والد مداخلت کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں یہ ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
کیس میں جیسے جیسے پیشرفت آتی ہے بیتھن کے اخراجات بڑھتے جاتے ہیں۔ عدالتی فیس کو بھرنے کے لیے بیتھن کے والدین بھی ان کی مدد کرتے ہیں، وہ اپنے گھر کے مورٹگیج میں توسیع کرتے ہیں جو ’ان کے مستقبل کو نمایاں طور پر بدل دے گا‘ لیکن اپنے خاندان کی حفاظت ان کی ترجیح ہے۔
بیتھن کے والد کہتے ہیں کہ ’مجھے ان لوگوں کے لیے افسوس ہے جو پیسوں کا انتظام نہیں کر سکتے۔ وہ بہت بری صورتحال میں ہیں۔‘
اس کیس نے ان سب کی زندگی پر اثر ڈالا ہے لیکن باقی فیملی کورٹ کے کیسوں کے مقابلے میں ان کا کیس جلدی چل رہا ہے۔ کیس کی آخری سماعت دو ہفتوں میں سے بھی کم وقت میں ہے۔
عدالت میں جج سوشل ورکر کی رپورٹ کے نتائج کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔ یہ سُن کر کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی بیٹی کو ہمیشہ ان کے ساتھ رہنا چاہیے جب کے ان کے سابق ساتھی کے والدیت کے فرائص کو ’جامع حدود تک محدود‘ کیے جانے کی وجہ سے انھوں نے ’بہت راحت‘ محسوس کی۔
جج نے کہا جن جرائم میں ان کے سابق خاوند جیل میں ہیں ان کے علاوہ انھوں نے بچوں کا ایسا فحش مواد دیکھانے کا اقرار کیا ہے جن میں خونی رشتوں کے درمیان جنسی تعلقات دکھائے گئے ہیں۔
جج کا کہنا ہے بچی کے والد انتہائی خطرناک ہیں اور ان کی سالانہ رپورٹ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اور ایک پابندی کا حکم بھی جاری کیا جس سے بیتھن کے سابق شوہر کے لیے جیل سے نکل کر جج کے فیصلے میں ترمیم کروانا بھی مشکل ہو جائے گا۔
انھیں صرف یہ معلومات مل سکتی ہیں کہ ان کی بیٹی کو جان لیوا بیماری ہے یا وہ کسی دوسرے ملک نقل مکانی کر رہی ہیں، اس میں بھی ملک کے بارے میں معلومات نہیں دی جائیں گی۔
بیتھن نے اس کیس کے لیے کئی گھنٹے فیملی قوانین کا مطالعہ کیا اور ایسی والدین کے بیانات پڑھے جن کے حق میں فیصلے نہیں آئے۔ ان کے لیے یہ فیصلہ زبرست تسکین کا باعث ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں بہت شکرگزار تھی۔‘
بیتھن کے والدین بھی فیصلے سے بہت خوش ہیں۔
بیتھن کی والدہ کہتی ہیں ’تین سال بعد پہلی دفعہ انھوں نے میری بیٹی کو اپنی بچی کی عام، خوش اور صحت بخش طریقے سے پرورش کرنے کے لیے آزاد کر دیا۔ ہم بتا نہیں سکتے یہ کتنا تکلیف دہ رہا۔‘
جہاں اس کیس نے بیتھن اور ان کے والدین کو جذباتی طور پر تھکایا وہاں ہی یہ انھیں مالی طور پر بھی مہنگا پڑا، انھیں اس کیس پر 30 ہزار پاؤنڈ لگے۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ خرچہ بچ سکتا ہے اگر قانون میں تبدیلی کی جائے اور ایسے والدین جنھوں نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہو ان کے والدیت کے حقوق خودبخود معطل ہو جائیں۔
وزارت انصاف نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’والدین کی رسائی کے طریقہ کار کا بغور جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تمام بچوں کو محفوظ رکھا جائے۔‘
بیتھن کا کہنا ہے کہ اب ان کی بیٹی ’عام بچپن گزار سکتی ہے، اور وہ محفوظ رہ سکتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایک دن جب ان کی بچی بڑی ہو جائے گی وہ اسے حساسیت اور احتیاط سے اس کے والد کے بارے میں بتائیں گی۔
Comments are closed.