دعویٰ نبوت کے بعد کمسن بیٹے کے قتل کا الزام: ’بھائی نے کہا انھیں خدا سے پیغامات مل رہے ہیں‘

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہHELEN TIPPER

،تصویر کا کیپشن

ملزم کا عدالت میں پیشی کے وقت بنایا گیا خاکہ

  • مصنف, ایلینور لاسن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

برطانیہ میں ایک عدالتی کارروائی کے دوران بتایا گیا ہے کہ اپنے تین ہفتے کے بچے کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ایک شخص کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی موت سے چند گھنٹے پہلے ذہنی توازن کھو چکا تھا۔

کادیس محمد نامی مسلمان شخص کو اُن کی صحت کو لاحق مسائل کے ساتھ ہسپتال لے جایا گیا تھا، لیکن انھیں اگلے ہی دن گھر جانے اور اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کو کہا گیا تھا۔

برمنگھم کراؤن کورٹ کو بتایا گیا کہ کادیس محمد میں خودکشی، وہم اور ہذیان جیسی علامات تھیں، جن میں سے بہت سے مذہبی نوعیت کے وہم بھی شامل تھے۔

برمنگھم سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ شخص نے 2022 میں اپنے بیٹے کی موت کے بعد اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔

ان پر گذشہ برس 18 اکتوبر کو اپنے بیٹے کو قتل کرنے اور اپنی بیوی اور والدہ پر لوہے کی راڈ سے حملہ کرنے کا الزام ہے۔

ملزم فی الحال نفسیاتی مریضوں کے ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور سماعت میں وہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ انھوں نے قتل، قتل کی سازش اور جان بوجھ کر زخمی کرنے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔

ان کی بہن مریم ظاہر پیر کے روز گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوئیں اور بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ اپنے بیٹے محمد ابراہیم کی موت سے ایک دن قبل ان کے بھائی کی ذہنی صحت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ 17 اکتوبر 2022 کو لندن سے برمنگھم چلی گئیں کیونکہ انھیں اپنے بھائی کی صحت کے بارے میں خدشات تھے۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے آپے میں نہیں تھے۔ ’عام طور پر، وہ مجھے دیکھ کر پُرجوش اور خوش ہو جایا کرتے تھے، مگر اُس دن وہ مجھ سے آنکھ بھی نہیں ملانا چاہتے تھے۔‘

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بھائی نے ان کے سامنے دعویٰ کیا کہ انھیں خدا کی طرف سے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے اور اپنے بیٹے کے حوالے سے نبوت کے دعوے بھی کیے۔

بہن نے عدالت کو مزید بتایا کہ ان کے بھائی نے کہا کہ ’میں دیکھ سکتا ہوں کہ کیا ہونے جا رہا ہے‘ اور ’میں لوگوں کے دماغ پڑھ سکتا ہوں۔‘ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ’شعور کی اعلیٰ ترین سطح‘ پر فائز ہیں اور یہ کہ ’قیامت قریب ہے۔‘

مریم ظاہر نے عدالت کے روبرو تسلیم کیا کہ یہ باتیں سُن کر وہ زندگی میں پہلی بار اپنے بھائی سے خوفزدہ ہوئیں۔

مریم ظاہر نے عدالت کو مزید بتایا کہ ان کا بھائی ’واضح طور پر پریشان‘ تھا اور بات چیت کے دوران کئی بار وہ رویا بھی۔

بہن نے عدالت کو مزید بتایا کہ ان کے بھائی بے خوابی کے مرض میں مبتلا تھے اور جس روز ان کی اپنے بھائی سے ملاقات ہوئی تو اسی شام انھوں نے اپنی بیوی اور بہن پر ’ان کے خلاف سازش کرنے‘ کا الزام عائد کیا۔

مریم نے بتایا کہ ان کے بھائی نے پیغمبر اسلام کو دیکھنے سے متعلق بھی دعویٰ کیا۔

مریم ظاہر نے یہ بھی بتایا تھا کہ بیٹے کی موت سے پہلے کی شام کو ملزم ’حقیقی دنیا سے مکمل دور‘ دکھائی دے رہے تھے۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہHELEN TIPPER

،تصویر کا کیپشن

اس کیس کی سماعت جاری ہے

لیکن بھائی کی طبعیت زیادہ خراب ہونے پر اس شام انھیں ایمرجنسی سروس کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ان کے بھائی کے لیے ایمبولینس آنے میں تقریبا چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ 999 (ہیلپ لائن) پر فون کیوں کرتی رہیں تو انھوں نے کہا کہ ’میرے بھائی کا بریک ڈاؤن ہو رہا تھا۔‘

’اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔‘

جب ایمبولینس اور طبی عملہ وہاں پہنچا تو انھوں نے ملزم سے کہا کہ انھیں ’اپنی طبی علامات کو گوگل نہیں کرنا چاہیے‘ اور ساتھ ہی طبی عملے نے نزدیکی دماغی صحت کے مراکز کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی۔

تاہم، عملے کی اس حرکت پر مریم ظاہر نے احتجاج کیا کہ اس وقت انھیں کونسلنگ کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ان میں علامات کی شدت ظاہر ہو رہی تھی۔

انھوں نے جیوری کو بتایا کہ ان کے بھائی نے طبی عملے کو اُن کے خاندان کی ذہنی بیماری کی تاریخ کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن انھیں صبح اپنے ڈاکٹر سے فون پر رابطہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

عدالت میں پیرا میڈکس کی رپورٹ پڑھ کر سنائی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم ذہنی صحت کی خرابی کے ساتھ ساتھ اضطراب اور خودکشی کے خیالات کا شکار تھے۔

انھوں نے مریم ظاہر سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ یہ مسئلہ کہیں بڑا ہے تو انھوں نے اتفاق کیا۔

پھر ملزم نے اس شام ان کے ساتھ شعبہ حادثات جانے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن انھیں بتایا گیا کہ اس میں چار گھنٹے لگ سکتے ہیں اور ایک ماہر نفسیات انھیں دیکھنے میں مزید 24 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ وہ صبح گھر جا کر اپنے ڈاکٹر سے ملیں جس سے وہ بہتر ہو سکتے ہیں لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کا بیٹا مر گیا تھا۔

جیوری کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں مریم نے بتایا کہ اس شام جب انھوں نے اپنے بھائی کو دوا دی تو انھوں نے وہ دوا کمرے میں پھینک دی۔

اس مقدمے کی سماعت جاری ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ