’اگر ہم نے چار ہزار فلسطینی بچوں کا قتل کیا تو یہ کافی نہیں‘: اوباما دور کے سابق مشیر مسلم مخالف نفرت انگیز گفتگو پر گرفتار
’اگر ہم نے چار ہزار فلسطینی بچوں کا قتل کیا تو یہ کافی نہیں‘: اوباما دور کے سابق مشیر مسلم مخالف نفرت انگیز گفتگو پر گرفتار
،تصویر کا ذریعہX
- مصنف, مائیک ونڈلنگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکی شہر نیو یارک میں پولیس نے محکمۂ خارجہ کے ایک سابق مشیر کو ایک حلال فوڈ کارٹ پر مسلم مخالف نفرت انگیز گفتگو پر گرفتار کر لیا ہے۔
سٹیورٹ سیلڈووٹز نے میڈیا کو دیے انٹرویوز میں سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں اپنی شناخت کی تصدیق کی۔ ایک موقع پر وہ اس دکاندار کو ’دہشتگرد‘ بھی کہتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ متاثرہ شخص نے حماس کی حمایت ظاہر کر کے انھیں ’اکسایا تھا‘۔
نیویارک پولیس کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے اس بات کی تصدیق کی کہ سٹیورٹ سیلڈووٹز کو بدھ کو حراست میں لیا گیا تاہم ان پر عائد کردہ الزامات کی تفصیلات تاحال موجود نہیں۔
بی بی سی نے اس معاملے پر مسٹر سیلڈووٹز سے رابطہ قائم کیا ہے۔
وائرل ویڈیو میں انھیں دن کے مختلف اوقات کے دوران اپر ایسٹ سائیڈ پر واقع ’کیو حلال کارٹ‘ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک کلپ میں وہ کہتے ہیں کہ ’کیا آپ کو معلوم ہے کہ اگر ہم نے چار ہزار فلسطینی بچوں کا قتل کیا تو یہ کافی نہیں تھا۔‘
ایکس پر ایک دوسرے کلپ کو چار کروڑ بار دیکھا گیا۔ اس میں وہ دکاندار کو ’جاہل‘ کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان پر مصری خفیہ پولیس تشدد کر سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ پیغمبرِ اسلام اور قرآن سے متعلق توہین آمیز باتیں کرتے ہیں۔
اس دوران پاس میں کھڑا ایک شخص کہتا ہے کہ ’آپ اس بندے کو پریشان کر رہے ہیں۔‘
سیلڈووٹز متاثرہ شخص کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’انھیں یہودیوں کا قتل کرنا پسند ہے۔‘
سٹیورٹ سیلڈووٹز نے طویل عرصے تک امریکی محکمۂ خارجہ کو خدمات دیں۔ انھوں نے اسرائیل اور فلسطینی امور کے دفتر میں بھی کام کیا جبکہ وہ سابق صدر براک اوباما کے دور میں وائٹ ہاؤس نیشنل سکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر رہے۔
’دی ڈیلی بیسٹ‘ نے منگل کو اس واقعے کی خبر دی تھی جبکہ ان ویڈیوز میں سیلڈووٹز نے اپنی شناخت کی تصدیق کی ہے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہاں، یہ میں ہی ہوں۔‘
انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں نے سوچا ایسے شخص کو جواب دینا چاہیے جو دہشتگردی اور معصوم شہریوں کے قتل کی حمایت کرتا ہے۔‘
’سٹی اینڈ سٹیٹ‘ کے ساتھ انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اس واقعے پر افسوس ہے۔ صورتحال بگڑنے پر میں نے وہ سب کہا جو مجھے نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘
سیلڈووٹز نے ماضی میں لابنگ کمپنی ’گوتھم گورنمنٹ ریلیشنز‘ کے ساتھ کام کیا ہے جس نے منگل کو بیان میں کہا کہ ان کی باتیں اخلاقی اعتبار سے ناقابل قبول اور نسل پرستی پر مبنی تھیں جو کمپنی کو قوائد و ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
کمپنی کی طرف سے نومبر 2022 کے دوران جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق ان کے پاس خارجی امور کی سربراہی کا عہدہ تھا۔
گوتھم کے بانی اور صدر ڈیوڈ شوارٹز نے کہا کہ سیلڈووٹز نے قریب پانچ سال سے کمپنی کے لیے کوئی کام نہیں کیا اور انھیں اعزازی حیثیت میں یہ خطاب دیا گیا تھا۔
شوارٹز نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس واقعے پر ناراض ہیں اور ان کے پاس اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ ’یہ وہ شخص نہیں جسے میں جانتا تھا، وہ ذہین تھا۔ انھیں محکمۂ خارجہ نے اعزاز دیا اور تین انعامات سے نوازا گیا مگر جب میں نے یہ ویڈیو دیکھی، ہمیں سیکنڈوں میں معلوم ہوگیا کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہم نے اس میں ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ ہم نے ان سے تمام تعلقات توڑ دیے ہیں۔‘
نیو یارک کے کئی شہریوں نے متاثرہ شخص حسین سے یکجہتی ظاہر کی ہے۔ نیو یارک کے میئر ایرک نے کہا کہ ’اسلاموفوبیا نفرت انگیزی کی ایک شکل ہے۔ یہ واضح ہے۔ ہمارے شہر میں اس نچلے درجے کی توہین آمیز بیان بازی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہم اسے مسترد کرتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم اکیلے نہیں۔‘
مصر سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ حسین نے نیو یارک پوسٹ کو بتایا کہ وہ شیلڈووٹز کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER
فورڈ کارٹ کے مالک اسلام مصطفیٰ نے سوال کیا ہے کہ ’ایک سابق حکومتی اہلکار مذہب کے بارے میں انتی نفرت انگیز گفتگو کیسے کر سکتا ہے؟ ایک عام آدمی ایسا نہیں کرے گا لیکن طاقت اور رینک والے شخص کو 24 سالہ نوجوان سے اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے جو ان سے جانے کی منتیں کر رہا تھا۔‘
سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے اس واقعے پر ردعمل دیا ہے، جیسے جیسمین کہتی ہیں کہ وہ امریکی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایسے کئی لوگوں سے ملی ہیں جو نسل پرستی اور غیر انسانی سلوک کے عادی ہیں۔
بعض صارفین ماضی کے اس واقعے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں جس میں شیلڈووٹز نے روسی سفارت کار سے پوچھا تھا کہ ’آپ کریمینل ہو کر کیسا محسوس کر رہے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
ایاد نے کہا کہ انھیں شیلڈووٹز جیسے لوگوں سے ڈر نہیں لگتا کیونکہ سب انھیں جان گئے ہیں، بلکہ وہ ایسے لوگوں سے خوفزدہ ہیں جو اعلیٰ سطح پر بائیڈن دور میں مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔
Comments are closed.