کرتار سنگھ: امریکہ پلٹ نوجوان جس نے برطانوی سامراج سے معافی مانگنے کے بجائے موت کو ترجیح دی

تصویر

،تصویر کا ذریعہPublic Domain

کرتار سنگھ سرابھا برطانوی راج کے خلاف غدر تحریک کے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ 24 مئی 1896 میں لدھیانہ کے سرابھا گاؤں میں پیدا ہوئے۔

سنہ 1912 میں وہ امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں پڑھنے گئے جہاں وہ غدر تحریک میں متحرک ہو گئے۔

اس تحریک کا مقصد انڈیا کو برطانوی سامراج سے آزاد کروانے کی کوشش کرنا تھا۔ کرتار سنگھ سرابھا سنہ 1915 میں انڈیا واپس آئے اور برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی تیاری کرنے لگے لیکن حکومت کو ان کے اقدامات کے بارے میں پتہ چل گیا اور انھیں 16 نومبر 1915 کو سزائے موت دے دی گئی۔

بی بی سی کے صحافی جسپال سنگھ نے اس بارے میں تاریخ دان ہریش پوری سے بات کی اور کرتار سنگھ سرابھا کی زندگی کے بارے میں بات کی ہے۔

sarabha

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کرتار سنگھ سرابھا کی شخصیت

کرتار سنگھ سرابھا بہت کڑیل جوان تھے جب وہ امریکہ سے واپس انڈیا لوٹے۔ اُن کی لگن اور جذبے سے لوگوں میں اُن کا بہترین تاثر اُبھر کر سامنے آیا۔

یہ کرتار سنگھ سرابھا کی ذمہ داری تھی کہ وہ انڈیا پہنچ کر مروجہ منصوبے کے تحت ان لوگوں کے لیے کام کی بنیاد رکھیں جو بغاوت کی غرض سے انڈیا آئے تھے۔

کرتار سنگھ بہت بہادر تھے اور وہ متعدد علاقوں کا دورہ کر چکے تھے۔ وہ لوگوں کو جمع کرتے اور انھیں اپنے منصوبوں کے بارے میں بتاتے۔ کرتار سنگھ ایک متحرک انسان تھے اور انھیں ان کے ساتھیوں کی جانب سے بہت عزت دی جاتی تھی اور وہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے۔

sikh

،تصویر کا ذریعہVANCOUVER PUBLIC LIBRARY

کرتار سنگھ غدر پارٹی حصہ کیسے بنے؟

جب یہ جماعت امریکہ میں قائم ہوئی تو کرتار سنگھ بھی اس کے اولین رہنماؤں میں شامل تھے۔

لالا ہدردیال جو اس دور کے ایک اور انقلابی رہنما تھے، نے اس جماعت کے لوگوں کو سرابھا کے بارے میں بتایا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب غدر پارٹی قائم ہوئی تھی۔ لالا ہردیال کا کہنا ہے کہ کرتار سنگھ اور جگت رام نے سٹاکٹن کے قریب ایک میٹنگ کی جہاں انھوں نے انڈیا سے آنے والے تارکینِ وطن میں سیاسی شعور اجاگر کرنا شروع کیا۔

لالا ہردیال کو احساس ہو گیا تھا کہ یہ نوجوان لڑکا بہت بہادر ہے۔ ان کے علاوہ بھی دیگر افراد کو وقت کے ساتھ یہ اندازہ ہو چلا تھا کہ یہ لڑکا اس تحریک میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

جب غدر اخبار کی اشاعت کا اعلان ہوا تو جگت رام، کرتار سنگھ سرابھا، امر سنگھ راجپوت اور لالا ہردیال اس کا آغاز کرنے والے پہلے لکھاریوں میں سے تھے۔

کرتار سنگھ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انتہائی محنتی اور مخلص تھے۔ کرتار سنگھ بہت ہی مزاحیہ اور خوش مزاج تھے، اس لیے لوگ ان سے محبت بھی کرتے اور انھیں سراہتے بھی۔

singh

،تصویر کا ذریعہELVIS

،تصویر کا کیپشن

کرتار سنگھ، بھگت سنگھ سے بہت متاثر تھے

انڈیا کی تحریک میں کردار

اس دوران برطانوی حکومت نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کے تحت بیرونِ ملک سے واپس آنے والے ہندوؤں پر نظر رکھنا ضروری کر دیا گیا تھا۔

کسی بھی ایسے انڈین کو آزادانہ طور پر گھومنے کی اجازت نہیں تھی جس کے سیاسی مقاصد ہوں۔

برطانوی خفیہ اداروں کے پاس غدر پارٹی کے بارے میں مکمل تفصیلات تھیں کیونکہ اس کے کارکن اپنے منصوبوں کے بارے میں عوام کو بتایا کرتے تھے۔

اس لیے جیسے ہی بحری جہاز کسی بھی انڈین ساحل پر لنگر انداز ہوتا تو وہ ایسے انڈینز کو گرفتار کر لیتے، تاہم پھر بھی متعدد غدر تحریک کے کارکن پنجاب فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

کرتار سنگھ سرابھا کے ذمہ ان سب افراد کو اکھٹا کرنا تھا۔ انڈیا پہنچ کر ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ ان کے پاس نہ تو کثیر رقم تھی اور نہ ہی اسلحہ کہ وہ لڑ سکیں، اس کے علاوہ ان کے پاس ایسا مواد بھی نہیں تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اپنی تحریک کی جانب مائل کر سکیں۔ نہ ہی ان کا تنظیمی ڈھانچہ اچھا تھا۔

اس لیے کرتار سنگھ کو ساری منصوبہ بندی کرنی تھی۔

بنگال سے انقلاب نواز افراد سے رابطہ کیا گیا اور پنجاب میں راس بہاری بوس سے رابطہ کیا گیا۔ اسی طرح امیر افراد کے گھروں پر ڈاکے مار کر فنڈ اکھٹے کرنے کا منصوبہ بھی کرتار سنگھ کا تھا۔

یہ تمام فیصلے کرتار سنگھ کر رہے تھے تاکہ اسلحہ بھی خرید سکیں اور یہ بھی دیکھ سکیں کہ اسلحہ اور بارودی مواد کہاں بن سکتا ہے۔

جو بھی غدر تحریک کا حصہ تھے سب ہی درست معلومات اور ذرائع کے لیے کرتار سنگھ پر بھروسہ کرتے تھے۔

کرتار سنگھ

،تصویر کا ذریعہJASVIR SHETRA/BBC

ساورکر کا اثر

غدر تحریک آغاز میں ونایک دامودر ساورکر کی کتاب جنگِ آزادی 1857 سے متاثر تھی۔

1857 کی جنگِ آزادی کے ہیرو کا نام غدر کے مواد میں شامل ہے اور لالا ہردیال اس کتاب سے بہت متاثر تھے۔

ساورکر اپنے زمانے میں ایک مقبول انقلابی رہنما تھے جنھوں نے بعد میں اپنے نظریات تبدیل کر لیے اور وہ ایک ہندوتوا سکالر بن گئے۔ انھوں نے برطانوی حکومت سے بھی معافی مانگ لی تھی لیکن یہ ایک مختلف کہانی ہے۔

ان کی غدر تحریک کے دوران بہت عزت تھی اور ان کی کتاب کے اقتباسات غدر اخبار میں قسط وار چھپتے تھے۔

’میں دوبارہ زندہ ہوں گا اور لڑوں گا‘

تاہم بعدازاں کرتار سنگھ برطانوی حکومت کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔

کرتار سنگھ سرابھا سمیت 24 افراد کو لاہور سازش کیس کے تحت سزائے موت دی گئی تھی۔ ان میں 17 افراد کو بعد میں معافی دے دی گئی تھی۔ جج نے کرتار سنگھ سرابھا سے کہا کہ ’اگر تم معافی مانگ لو تو ہم تمھاری سزا ختم کر دیں گے اور تمھیں سولی پر نہیں چڑھائیں گے کیونکہ تم ابھی جوان ہو۔‘

اس پر کرتار سنگھ نے کہا کہ ’میں یہاں ایک مقصد کے تحت آیا تھا اور اگر میں مر بھی جاؤں تو میں چاہوں گا کہ میں اگلے جنم میں انڈیا کی آزادی کے لیے پھر سے لڑوں اور دوبارہ اپنی جان دے دوں۔‘

اسی جج نے اس پر کہا کہ کرتار سنگھ ان تمام ملزمان میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں اس لیے ان کی سزا ختم نہیں کی جائے گی۔ یوں انھیں سولی پر چڑھا دیا گیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ