لاطینی امریکہ کا وہ ملک جس کی معیشت فسلطینی پناہ گزینوں کی آمد اور محنت سے چمک اٹھی

فلسطینی پناہ گزین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب سے حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا ہے اس وقت سے لاطینی امریکہ میں مقیم اسرائیلی اور فلسطینی برادریاں مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات کو قریب سے دیکھ رہی ہیں۔

حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حملہ کیا تھا جس میں 1400 اسرائیلی مارے گئے جبکہ اس کے جواب میں ہونے والے اسرائیلی حملوں میں تقریباً دس ہزار افراد مارے گئے ہیں۔

بہرحال اس جنگی صورت حال پر ساری دنیا کی طرح لاطینی امریکہ کے اہم شہروں میں بھی فریقین کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

اسی تناظر میں سنیچر کے روز چلی کے دارالحکومت سینٹیاگو میں ہزاروں لوگوں نے ایک مارچ میں شرکت کی جو اپنے آپ میں ایک انتہائی منفرد جلوس تھا کیونکہ یہ اس ملک میں منعقد ہوا جہاں عرب دنیا سے باہر فلسطینی نژاد افراد کی سب سے بڑی اور قدیم ترین کالونیوں میں سے ایک واقع ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہاں پانچ لاکھ افراد اس فلسطینی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

چلی میں فلسطینی برادری کے ترجمان ڈیاگو خامس نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم سب اس سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں سے آنے والی تصاویر سے بہت پریشان ہیں۔‘

جنوبی امریکی ملک چلی میں فلسطینی سفیر ویرا بابون نے وضاحت کی کہ ’تاریخی طور پر چلی میں آباد فلسطینی برادری ان تمام مظالم کے مخالف رہی ہے جن کا فلسطینی قوم کو سامنا رہا ہے۔‘

چلی میں آباد بہت سے لوگوں کے رشتہ دار غزہ کی پٹی میں یا اس کے قریبی علاقوں میں رہتے ہیں اور انھوں نے اسرائیل کی جانب سے انٹرنیٹ اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کے درمیان ان فلسطینیوں سے رابطے برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

لیکن چلی کا فلسطینی برادری کے ساتھ اتنا مضبوط رشتہ کیسے بنا؟ فلسطین کے اتنے زیادہ باشندوں نے اپنے وطن سے 13 ہزار کلومیٹر دور چلی میں رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

چلی کی سب سے اونچی عمارت

،تصویر کا ذریعہPALESTINIAN COMMUNITY OF CHILE

،تصویر کا کیپشن

حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے دوران حال ہی میں چلی کی سب سے اونچی عمارت کوسٹینیرا ٹاور پر فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا

چلی ہی کیوں؟

چلی میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کے رجحان کو سمجھنے کے لیے ہمیں 19ویں صدی کے آخر میں واپس جانا ہو گا۔

بہت سی دوسری برادریوں کی طرح اس کمیونٹی میں بھی امریکہ کو ایک نئی دنیا کی طرح دیکھا جا رہا تھا جہاں مواقع کی افراط ہے۔

اسی نئی دنیا کی تلاش میں بہت سے نوجوان فلسطینیوں نے یورپ جانے کے لیے زمینی راستے کا انتخاب کیا اور پھر وہاں سے سمندری راستے سے بیونس آئرس پہنچے لگے۔

لیکن زیادہ امیر اور زیادہ یورپی بن جانے والے ارجنٹائن کے دارالحکومت میں رہنے کے بجائے ان میں سے کچھ لوگوں نے اینڈیز کو عبور کر کے چلی کی طرف بڑھنے کو ترجیح دی۔ شاید اس کی وجہ کسی نامعلوم منزل میں ان کی دلچسپی تھی۔

لورینزو اگار کوربینوسلا کی کتاب ’دی عرب ورلڈ اینڈ لیٹن امریکہ‘ کے مطابق سنہ 1885 سے 1940 کے درمیان چلی میں عربوں کی تعداد 8,000 سے 10,000 کے درمیان تھی۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرائیل کی بمباری میں دس ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں اور لاتعداد مکانات منہدم ہو گئے ہیں

ان میں سے نصف فلسطینی تھے اور ان میں سے اکثریت صرف تین شہروں بیت لحم، بیت جلا اور بیت سہور سے آتے تھی لیکن اس کے بعد ہجرت کی مزید لہریں دیکھی گئی۔

مثلاً پہلی عالمی جنگ کے بعد، جب سلطنتِ عثمانیہ کا انحطاط ہوا، اور دوسری عالمی جنگ کے بعد اور پھر 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی تخلیق کے ساتھ ہجرت کا دور دیکھا گیا۔

اور یہ وہ وقت تھا جب یہودی فوجیوں کے ہاتھوں بے دخل ہونے والے تقریباً 750,000 فلسطینیوں کو دوسرے ملکوں میں بھاگنا پڑا۔

دوسرے نئے ممالک کی طرح چلی کو بھی اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور علاقے کو کنٹرول کرنے کے لیے تارکین وطن کی ضرورت تھی۔

چلی کی اشرافیہ نے ہمیشہ یورپیوں کو اپنے یہاں آباد کرنے کے لیے پسند کیا اور انھیں 19ویں صدی کے آغاز سے زمینیں اور حقوق کی پیشکش کی گئی۔ چلی میں جاری اس تحریک کا بہت سے عربوں اور فلسطینیوں کو بھی فائدہ ملا۔

چلی یونیورسٹی میں سینٹر فار عرب سٹڈیز کے استاد ریکارڈو مارزوکا نے بتایا کہ اس کی وجہ سے پھر ایک سلسلہ چل نکلا اور چلی پہنچنے والے کچھ گروپ نے اپنے رشتہ داروں کو بلانا شروع کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ چلی میں فلسطینیوں کی آبادکاری کو فروغ دینے والے کئی عوامل ہیں جن میں سے ایک دونوں جگہوں کی آب و ہوا اور سرزمین میں کچھ مماثلتیں ہیں۔ آزادی دوسری چیز ہے جس نے انھیں اس ملک کی جانب راغب کیا۔ اس کے علاوہ معاشی خوشحالی بھی ایک بڑی وجہ تھی۔

ٹیکسٹائل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چلی کی ٹیکسٹائل صنعت کی ترقی میں فلسطین سے آنے والے تارکین وطن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

ٹیکسٹائل کی صنعت

مشرق وسطی سے آنے والوں نے تجارت اور ٹیکسٹائل کا انتخاب کیا اور ان کا یہ فیصلہ ان میں خوشحالی اور کالونی میں اضافے کی کلید ثابت ہوا۔

انھوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھا اور وہ ’سودے بازی‘ کو بھی جانتے تھے۔ وہ سامان لاد کر دیہی علاقوں یا چلی کے شہروں میں پہنچتے جہاں خریدنے کے لیے سامان بہت کم تھے۔

مارزوکا بتاتے ہیں کہ ’ابتدائی طور پر فلسطینی گلیوں میں پھیری والے کی طرح چکر کاٹ کر سامنے بیچتے تھے، پھر وہ چھوٹے موٹے کاروبار میں داخل ہوئے اور پھر سنہ 1930 کی دہائی میں انھوں نے ٹیکسٹائل صنعت کی ترقی میں اہم حصہ ڈالا۔‘

اس طرح ابومحور خاندان کا ظہور ہوا جو آج چلی کے سب سے بڑے اقتصادی گروپوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ خاندان تجارت، مالیاتی شعبے اور یہاں تک کہ فٹبال میں بھی اپنا حصہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے پہلے پہل چلی میں ہول سیل تجارتی سامان کی فراہمی کا بیڑہ اٹھایا تھا۔

اس طرح ایک اور مثال کاسہ سائیہ کمپنی ہے جو فلسطینی نژاد خاندان کی ملکیت ہے۔ یہ سنہ 1950 کی دہائی میں تالکا شہر میں قائم ہوئی تھی۔

بعد میں معروف تاجر اس کے وارث بنے۔ ان میں الوارو سائیہ ہیں جو کارپ گروپ بزنس گروپ کے صدر اور مالک ہیں جن کی فی الحال مالیاتی شعبے اور حتیٰ کہ میڈیا آؤٹ لیٹس جیسے کہ لا ٹرشیرا اخبار میں بھی سرمایہ کاری ہے۔

دوسرے تارکین وطن نے مقامی کاریگروں کے کام یا مہنگی یورپی درآمدات کی جگہ کپاس یا ریشم تیار کرنا شروع کر دیا اور حرمس، سید، یارور اور سمر جیسی فلسطینی کنیت والے لوگ طاقتور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مترادف بن گئے۔

فلسطینی مظاہرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حماس اور اسرائیل کے حملوں کے بعد لاطینی امریکی ملک چلی میں فلسطینی باشندوں کا مظاہرہ

اور پھر 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں معیشت کی شاندار ترقی اور چین سے شدید مسابقت کے درمیان زیادہ تر فلسطینیوں کی قسمت چمک اٹھی اور وہ مختلف قسم کے کاروباروں مالیاتی، رئیل سٹیٹ، زراعت، شراب کے کاروبار، خوراک اور پریس وغیرہ میں پھیل گئے۔

چلی کی اقتصادی ترقی میں تعاون کے علاوہ انھوں نے ’فلسطین کلب‘ نامی فٹ بال ٹیم بنائی اور خیراتی ادارے اور ثقافتی تنظیموں تک مختلف قسم کے ادارے بنائے۔

وہ چلی کے مختلف شہروں میں آباد ہونے میں بھی کامیاب رہے جو کہ چلی کی مختلف برادریون کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کلید بھی رہی۔

اور پھر سینٹیاگو میں انھوں نے مشہور پیٹرونیٹو محلہ آباد کیا جو بھرے ہوئے بیل کے پتے کے پکوانوں والے اپنے ریستورانوں، مشہور عرب مٹھائیوں اور عرب کی موسیقی کی آواز سے لبریز اپنے عروج کے زمانے میں ’منی فلسطین‘ کہلایا۔

فٹبال کلب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چلی پہنچنے والے موریس خامس نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’ایک کہاوت چلی میں باربار دہرائی جاتی ہے کہ ہر صوبے میں ایک چوک، ایک چرچ، ایک پولیس چوکی اور عام شہری ہیں اور ہم ہر جگہ شامل ہیں۔‘

اس فلسطینی برادری سے اہم سیاسی شخصیات بھی آتی ہیں۔ ان میں پارٹی کے رہنما، سینیٹرز، نائبین، میئرز اور کونسلرز وغیرہ شامل ہیں۔

سفیر ویرا بابون کے مطابق ’چلی میں فلسطینی برادری کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر چلی کے باشندوں کے طور پر مربوط ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اپنے مادر وطن سے اندرونی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور فلسطینی مقصد ان کی زندگیوں میں زندہ ہے۔‘

’ترکوں سے نفرت‘

فلسطینی مظاہرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چلی میں آباد فلسطین نژاد کبھی بھی اپنے مادر وطن سے غافل نہیں ہوئے

لیکن یہ سب اتنا آسان بھی نہیں تھا۔

اگرچہ مؤرخین اور ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ چلی میں فلسطینیوں کا انضمام ’زبردست‘ حد تک ’کامیاب‘ رہا لیکن بعض لمحات پیچیدہ بھی تھے۔

عرب دنیا سے تعلق رکھنے والوں کو چلی والوں کا مسترد کرنے کا رویہ برداشت کرنا پڑا جو طویل عرصے تک جاری رہا اور خاص طور پر ہجرت کے پہلے برسوں کے دوران ان کے رویے نے عرب مہاجرین کے قیام کو مشکل بنا دیا۔

انھیں طنزیہ طور پر ’ترک‘ کہا جاتا تھا اور اس چیز نے فلسطینی کالونی کو نہ صرف اس لیے نقصان پہنچایا کہ ان کی غلط قومیت سے شناخت کی گئی بلکہ اس لیے بھی نقصان پہنچا کہ انھیں سلطنت عثمانیہ کے دوران ان پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ شناخت کیا گیا۔

مارزوکا نے اس بدنامی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’چلی کے بعض اشرافیہ کی طرف سے فلسطینیوں کو مسترد کیا گیا اور ان کی تذلیل کی گئی۔ یہ کہا گیا کہ وہ ان کے معاشرے میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے، یہ بھی کہا گیا کہ وہ جنسی نقطہ نظر سے غیر اخلاقی ہیں۔‘

اور اگرچہ چلی میں فلسطینی اس بات پر متفق ہیں کہ ’ترکوں کے خلاف نفرت‘ کے اس رویے پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن حماس کے اسرائیل پر حملے اور غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے بعد کمیونٹی کو ایک بار پھر کچھ امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

کم از کم ڈیاگو خامس کا ایسا ہی خیال ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس واقعے کے ساتھ ہم نے فلسطینی فوبیا کی بنیاد پر امتیازی سلوک دیکھنا شروع کیا ہے جو ہم نے طویل عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔‘

ڈیاگو خامس کہتے ہیں کہ ’ہم فکر مند ہیں کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ ’ترک فوبیا‘ پر مکمل طور پر قابو پا لیا گیا ہے اور چلی میں فلسطینیوں کی موجودگی کے اتنے سال بعد اس قسم کے امتیازی سلوک کو دیکھنا ناقابل قبول ہے۔‘

چلی کی فلسطینی برادری اسرائیل پر حماس کے حملے کو کس طرح دیکھتی ہے، پر خامس نے بتایا کہ وہ ’فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو فلسطینی عوام کے واحد جائز نمائندے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔‘

‘اور حماس پی ایل او کا حصہ نہیں۔ ہم نہ چلی میں اور نہ ہی فلسطین میں یہ مانتے ہیں کہ تشدد سیاسی کارروائی کا کوئی درست طریقہ ہے۔‘

اس لحاظ سے فلسطینی رہنما کا مزید کہنا ہے کہ ’چلی میں یہودی اداروں پر حملے کی باتیں کہی گئی ہیں اور ہم ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی حملے یا یہودی اداروں پر حملے کی کال کی مذمت کرتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ