ڈھائی سو سال پرانے خطوط جو کبھی اپنی منزل پر نہ پہنچ سکے: ’میں آپ کو پانے کے لیے بیتاب ہوں‘

برطانوی بحریہ کے حکام کے لیے یہ خطوط عسکری اہمیت کے حامل نہیں تھے

،تصویر کا ذریعہTHE NATIONAL ARCHIVES

،تصویر کا کیپشن

برطانوی بحریہ کے حکام کے لیے یہ خطوط عسکری اہمیت کے حامل نہیں تھے

برطانیہ اور فرانس کے درمیان معروف ’سات سالہ جنگ‘ کے دوران فرانسیسی جہاز رانوں تک پہنچنے سے پہلے برطانیہ کی رائل نیوی نے جو خطوط ضبط کیے تھے انھیں ڈھائی سو سال بعد پہلی بار کھولا اور پڑھا گیا ہے۔

یہ خطوط سنہ 58-1757 میں ایک فرانسیسی جنگی جہاز پر موجود عملے کے افراد کے لیے ان کے پیاروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے جو ان تک کبھی نہ پہنچے۔

ان خطوط کو دریافت کرنے والے پروفیسر رینوڈ موریو نے کہا کہ یہ خطوط ’عالمگیر انسانی احساسات و جذبات‘ کے حامل ہیں۔

یاد رہے کہ ’سات سالہ جنگ‘ بنیادی طور پر برطانیہ اور فرانس کے درمیان شمالی امریکہ اور ہندوستان پر کنٹرول کے لیے لڑی جانے والی جنگ تھی۔

یہ جنگ ’معاہدہ پیرس‘ کے ساتھ ختم ہوئی اور اس سے برطانیہ کو کافی فائدہ پہنچا۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر موریو نے کیو کے نیشنل آرکائیوز میں ان 104 خطوط کے مجموعے کا پتا لگایا۔

فرانس کی پوسٹل انتظامیہ نے ان خطوط کو فرانس کی متعدد بندرگاہوں سے اس جہاز پر پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔

سنہ 1758 میں بورڈیو سے کیوبیک جاتے ہوئے انگریزوں نے گلیٹی نامی اس جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

جب فرانسیسیوں کو یہ معلوم ہوا کہ جہاز برطانوی قبضے میں ہے تو فرانسیسی حکام نے ان خطوط کو انگلینڈ کو بھیج دیا، جہاں انھیں بحریہ کے حوالے کر دیا گیا اور ان کو محفوظ کر دیا گیا۔

ان خطوط کو پڑھنے والے پہلے شخص

برطانوی بحریہ کے حکام کے خیال میں ان خطوط کی کوئی فوجی اہمیت نہیں تھی۔

پروفیسر موریو نے کہا کہ انھوں نے تجسس میں آرکائیوز میں موجود اس باکس کو دیکھنے کے لیے کہا تھا لیکن پھر انھیں وہ خطوط ملے۔

انھوں نے کہا کہ ان کو پڑھنے کے بعد ’مجھے احساس ہوا کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے ان انتہائی ذاتی پیغامات کو لکھے جانے کے بعد پہلی بار پڑھا۔‘

’جن کے نام وہ خطوط تھے انھیں اپنے خطوط کو پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ بہت جذباتی تھا۔‘

پروفیسر موریو کی یہ دریافت سوشل سائنس کے جریدے انالیز میں شائع ہوئی۔

پروفیسر موریو نے گیلٹی پر موجود 181 افراد پر مشتمل ہر رکن کی شناخت کی، جن میں سے ایک چوتھائی کے نام یہ خطوط لکھے گئے تھے۔ انھوں نے خطوط اور جن کے لیے یہ لکھے گئے تھے ان پر بھی تحقیق کی۔

ان خطوط میں میری دوبوسک کی طرف سے اپنے شوہر یعنی اس فرانسیسی جہاز کے فرسٹ لیفٹیننٹ لوئی چیمبرلن کے نام ایک خط بھی شامل ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’میں آپ کو لکھتے رہنے میں رات گزار سکتی ہوں۔۔۔ میں سدا آپ کی وفادار بیوی ہوں۔ شب بخیر، میرے پیارے دوست۔ آدھی رات بیت چکی۔ میرے خیال اب مجھے سو جانا چاہیے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کے شوہر کہاں ہیں اور یہ کہ ان کے جہاز کو انگریزوں نے پکڑ لیا ہے۔

انھیں اپنی بیوی کا خط کبھی نہیں ملا اور نہ وہ پھر کبھی اپنی اس پیار کرنے والی بیوی سے دوبارہ مل سکے کیونکہ اگلے سال شمالی فرانس میں دوبوسک کی موت ہو گئی۔

چیمبرلین فرانس واپس آئے اور سنہ 1761 میں انھون نے دوسری شادی کی۔

’میں آپ کو پا لینے کا انتظار نہیں کر سکتی‘

ایک دوسرے خط میں این لی سرف نے اپنے شوہر اور جہاز پر کمیشنڈ افسر ژاں ٹاپسنٹ کو لکھا کہ ’میں آپ کو پا لینے کا انتظار نہیں کر سکتی۔‘

پروفیسر موریو نے کہا کہ ’یہ خطوط عالمگیر انسانی تجربات کے بارے میں ہیں، یہ فرانس یا 18ویں صدی کے لیے مخصوص نہیں۔ یہ خطوط یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم سب زندگی کے بڑے چیلنجز سے کیسے نمٹتے ہیں۔‘

’جب ہم اپنے پیاروں سے وبائی امراض یا جنگ جیسے واقعات کے نتیجے میں الگ ہو جاتے ہیں تو ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کا طریقہ نکالتے ہیں اور ایک دوسرے کو یقین دہانی کراتے ہیں، ایک دوسرے کا خيال رکھتے ہیں تاکہ محبت کا احساس زندہ رہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’آج ہمارے پاس زوم اور واٹس ایپ ہیں۔ 18 ویں صدی میں لوگوں کے پاس صرف خطوط ہوتے تھے لیکن وہ جو لکھتے تھے وہ بہت مانوس لگتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ