وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: غزہ کا پیاسا کتا اور آخری گھونٹ
- مصنف, وسعت اللہ خان
- عہدہ, تجزیہ نگار
اگست دو ہزار دس کے سیلاب میں افواہ اڑی کہ مظفر گڑھ شہر ڈوبنے والا ہے ۔چنانچہ ہزاروں کنبے گھروں سے نکل پڑے۔میں نے دریاِ چناب کے پل پر انسانی سروں کا ویسا ہی ہجوم دیکھا جیسے 1947 کی کوئی ہجرتی فلم دیکھ رہا ہوں۔
کسی بوڑھے کے سر پے گٹھڑ ، کسی عورت کی گود میں بچہ اور دوسرے بچے کی انگلی تھامی ہوئی اور سب سے بڑا بچہ اپنے وزن سے بھی بھاری ایک صندوق اٹھائے دوہرا ہوا چلتا جا رہا ہے۔
ایک بابا چادر کی بکل مارے صرف حقہ پکڑے آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا ہے۔
ایک نیم دھڑنگ مجذوب فاسٹ باؤلر کے ایکشن میں دوڑ رہا ہے جیسے سیلاب کی وکٹ اڑانا چاہتا ہو۔
ایک نوجوان نے بس ایک کتا گود میں اٹھا رکھا ہے۔ میں نے اسی سے پوچھ لیا کہ صرف کتا؟ بنا رکے چلتے چلتے کہنے لگا جس کو کتے جیسا دوست مل جائے اسے اور کیا چاہیے ۔
کل غزہ کی یہ وائرل ویڈیو دیکھی کہ ایک مقامی صحافی احمد حجازی نے ایک پیاسے کتے کو اپنی پانی کی بوتل میں پڑا آخری گھونٹ بھی پلا دیا۔ دھماکوں کی مسلسل آوازوں سے سہما ایک عام سا گلی کا کتا۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ گلی یا محلہ ابھی باقی ہے جہاں کا مکین یہ کتا ہے۔ یا پھر یہ کوئی خانہ بدوش کتا ہے؟
کیا یہ ملبے کے ڈھیر میں حیران و ششدر گھومتا پھرتا کوئی گیلی چیز حلق تر کرنے کے لیے سونگھ ڈھونڈھ رہا ہے؟
یا پھر اپنے کسی تین چار پانچ چھ سال کے دوست کو تلاش کر رہا ہے جو روزانہ سکول جاتے آتے اسے پچکارتا ہو گا اور سہہ پہر کو تھوڑی دیر باتیں بھی کرتا ہو گا۔
یہ کتا کیا سات اکتوبر سے پہلے بھی اتنا خوفزدہ اور لاغر تھا؟ اسے کوئی نہ کوئی تو کچھ نہ کچھ کھانے پینے کو روزانہ دیتا ہو گا۔ کیا وہ کوئی دوکاندار تھا جو اس کتے کو اب نظر نہیں آ رہا۔ کیا وہ کوئی کنبہ تھا جس کے دروازے پر یہ روزانہ دو یا تین بار جاتا ہو گا اور ہلکی سی وف کر کے اپنی موجودگی کا پتہ دیتا ہو گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگر واقعی یہ سب تھا تو اب یہ کتا کیسے اور کس سے پوچھے کہ اب اس کا وہ تین چار برس کا دوست بچہ، وہ ادھیڑ عمر دوکان دار یا وہ بھرا پرا کنبہ کہاں ہے؟ مرگیا؟ بھگا دیا گیا؟ یا یہیں کہیں ہے کسی ہسپتال کی چھت تلے یا پھر کسی عمارتی ملبے تلے۔
مجھے اس سے مطلب نہیں کہ اس کتے کو اپنی پانی کی بوتل سے آخری گھونٹ پلا دینے والے صحافی احمد حجازی کا تعلق کس چینل یا اخبار سے ہے ۔میں یہ بھی نہیں جاننا چاہتا کہ اسے یہ پانی کہاں سے ملا یا کس نے اتنی مہربانی کی کیونکہ جس آبادی کا پانی تین ہفتے سے بند ہو وہاں پیاس سے زیادہ قیمتی شے کیا ہو گی؟
اور وہ بھی ان اطلاعات کے بعد کہ غزہ کے بڑے اب اپنے پیاسے بچوں کو سمندر کا پانی پلانے پر آ گئے ہیں۔حالانکہ یہ پانی لینے کے لیے جاتے سمے انھیں فضا میں منڈلاتا کوئی بھی بمبار پائلٹ جائز ہدف سمجھ کے قتل کر سکتا ہے۔
بس یوں سمجھ لیں کہ جہاں کتا بھی پیاس سے نڈھال ہو وہاں 22، 23 لاکھ انسانوں کا کیا عالم ہو گا۔
شائد اس کتے کی پیاس کا محسوس کرتے کرتے میرے اپنے الیکٹرولائٹس بھی گڑبڑانے لگے ہیں۔تبھی تو میں کتے کا زکر کرتے کرتے دفعتاً اس کتے کو پانی پلانے والے احمد حجازی کا زکر کر دیتا ہوں پھر جمپ لگا کے سمندری پانی سے اپنے خشک خیالات بھگونے کی کوشش کرتا ہوں۔
غزہ کے باسی تو اس پنجرے سے نکل کے فی الحال کہیں نہیں بھاگ سکتے۔ تین جانب باڑ اور سامنے سمندر اور آسمان میں چوبیس گھنٹے منڈلاتی موت۔
مگر اس کتے پر تو بظاہر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ وہ چاہے تو کہیں سے بھی ٹوٹی باڑ عبور کر کے اسرائیلی حدود میں داخل ہو سکتا ہے یا پھر رفح کراسنگ کے نیچے سے نکل کے صحراِ سینا کی مصری حدود میں داخل ہو سکتا ہے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مجھے یقین ہے کہ اسرائیل یا مصر کے سرحدی محافظ اتنے سنگ دل نہیں کہ ایک کتے کو واپس غزہ میں دھکیل دیں گے، یا اس سے اجازت نامہ طلب کریں گے یا پھر گولی مار دیں گے۔
یہ ساری پابندیاں اور مسائل تو احمد حجازی کے ہیں کہ جس نے اس کتے کو اپنی پانی کی بوتل میں بچا آخری گھونٹ بھی پلا دیا۔
معلوم نہیں کہ احمد حجازی اور یہ کتا اب کہاں ہیں۔ کہیں زندہ ہوں گے تو پیاسے بھی ہوں گے۔ معلوم نہیں ان دونوں کو مزید پانی ملا یا نہیں۔
بہت بار ہم میں سے بہت سوں نے خود سے بھی اور ایک دوسرے سے بھی پوچھا اور اب بھی پوچھتے رہتے ہیں کہ جب واقعہِ کربلا ہو رہا تھا تو آس پاس کی آبادیوں کو اطلاع کے باوجود سانپ کیوں سونگھ گیا تھا؟
اب وجہ سمجھ میں آئی یا اب بھی نہیں؟
Comments are closed.