80 دن میں پوری دنیا کا چکر لگانے والی ’ٹک ٹاک دادیاں‘: ’ہم نے انسانیت کی اچھائی بار بار دیکھی‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہELLIE AND SANDY PERSONAL ARCHIVE

  • مصنف, سینتیاگو وینگاس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ

ایلی ہیمبی اور سینڈی پیزلپ امریکی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی دو عمر رسیدہ سہیلیاں ہیں جنھوں نے 81 سال کی عمر میں وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کا تصور فرانسیسی ناول نگار جولز ورن نے 19ویں صدی میں پیش کیا تھا: دنیا کے گرد 80 دن میں سفر۔

انھوں نے اس سفر میں 18 ممالک گھومے، انٹارکٹیکا دیکھا، مصر میں غبارے پر سفر کیا، ماوئنٹ ایورسٹ کے اوپر سے پرواز کی اور آسٹریلیا میں گریٹ بیریئر ریف دیکھا۔

اور اسی دوران وہ دونوں سوشل میڈیا سٹار بھی بن گئیں۔ ان کے اس سفر کی ویڈیوز ان کے پروفائل پر، جس کا نام ’اراونڈ دی ورلڈ ان 90 ڈیز‘ ہے، لاکھوں بار دیکھی گئیں اور دنیا کے درجنو میڈیا ہاؤسز نے ان کی کہانیاں سنائیں۔

اس سفر کا فیصلہ کرنے سے پہلے بھی ان کی کہانی عام نہیں تھی۔ ایلی اوکلوہوما میں پلی بڑھی تھیں اور وہ ایک ڈاکومینٹری فوٹوگرافر ہیں جو ہر سال طبی مشن پر زمبیا جاتی تھیں۔

سینڈی ٹیکساس میں فورٹ ورتھ سے تعلق رکھتی ہیں جنھوں نے 39 سال کی عمر میں طب کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اب وہ ایک طبی تنظیم کی ڈائریکٹر ہیں۔

ان کا اگلا منصوبہ لاطینی امریکہ کا دورہ کرنا ہے اور انھوں نے اس سے قبل بی بی سی منڈو کے ساتھ بات چیت کی۔

سوال: آپ دونوں کی دوستی کیسے ہوئی؟

سینڈی: جب ہماری ملاقات ہوئی تو چھ ماہ قبل ہی میرے شوہر کا انتقال ہوا تھا۔ بیمار ہونے سے پہلے انھوں نے کہا تھا کہ اپنے پوتوں کو موسم گرما میں کہیں گھمانے لے جانا چاہیے۔ ان کی موت کے بعد میری ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوئی جو ڈیلاس میں ورکشاپ کے لیے جا رہا تھا۔ میں اس کے ساتھ گئی اور وہاں میری ملاقات ایلی سے ہوئی۔

ایلی: سینڈی نے میرے ساتھ زمبیا جانا شروع کر دیا اور پہلی ملاقات کے پانچ سال بعد میرے شوہر بھی ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ یہ 18 سال پرانی بات ہے۔ ہم دونوں کو اندازہ ہوا کہ ہمیں کام کرنے کا جنون ہے اور ہم رات دیر گئے تک جاگتے اور بہت کافی پیتے ہیں۔ ہماری زندگیاں ایک جیسی ہیں اور ہم نے ساتھ مل کر بہت لطف اٹھایا۔ اسی لیے ہم نے سیاحت کا منصوبہ بنایا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہELLIE AND SANDY PERSONAL ARCHIVE

سوال: 80 دن میں دنیا گھومنے کا منصوبہ کیسے بنا؟

سینڈی: چند سال قبل ہم 80 کی دہائی کو چھونے والے تھے تو میں نے جولز ورن سے متاثر ہو کر ایلی سے پوچھا کہ کیوں نہ ہم 80 سال کی عمر میں پوری دنیا کا 80 دن میں چکر لگائیں؟ ایلی نے ہچکچائے بغیر ہاں کر دی اور ہم نے منصوبہ بنانا شروع کر دیا لیکن بیچ میں کورونا آ گیا۔ ہم پھر بھی رکے نہیں اور اس سال 81 سال کی عمر میں ہم نے یہ کر لیا۔

سوال: اس منصوبے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑا؟

ایلی: زیادہ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا اور ان کو خواب دیکھنے دو۔ سینڈی اور میں نے پورا سفر اکیلے کیا۔ ہم کم پیسوں میں سفر کرتے ہیں اور اوسطا ہم نے ہر رات کے قیام کے لیے 29 ڈالر ادا کیے۔ ہم کسی بڑے ہوٹل میں نہیں رکے۔

ہم یہ سب 80 دن میں کرنا چاہتے تھے تو ہم کسی جگہ رکے نہیں۔ ہم چھٹی پر نہیں جا رہے تھے بلکہ یہ ایک مہم تھی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہELLIE AND SANDY PERSONAL ARCHIVE

سوال: آپ کے سفر میں پسندیدہ کہانی کیا تھی؟

ایلی: میرے لیے جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی وہ یہ کہ میں نے انسانیت کی اچھائی بار بار دیکھی۔ جب ہم جاپان پہنچے تو ہم دنیا کے سب سے بڑے ٹرین سٹیشن پر موجود تھے اور ماؤنٹ فجی کا ٹکٹ خریدنا چاہتے تھے اور ہمیں پتہ چلا کہ سب کچھ جاپانی زبان میں تھا اور کوئی انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔ ہم سٹیشن کے بیچ کھڑے تھے اور ہم نے مخصوص ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ تھوڑی دیر میں 20-25 لوگ آئے اور انھوں نے کہا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں۔

ایک نے کہا میں سلووینیا سے ہوں اور میں نے لندن ڈیلی میل میں آپ کے بارے میں پڑھا۔ اگلے دن ہم ان کی وجہ سے ماؤنٹ فجی دیکھ پائے۔

سینڈی: میرے پاس بھی ایسا ہی ایک واقعہ سنانے کو ہے۔ ہم آسٹریلیا میں تھے اور پوری رات کا سفر کرنے کے بعد پہنچے تھے۔ ہمارے پاس ایک دن تھا تو ہم نے سوچا دو گھنٹے سو لیتے ہیں۔

ابھی ہم سوئے ہی تھے کہ الارم بجنا شروع ہو گیا۔ ہمارا کمرہ دھویں سے بھر گیا اور ہمیں کہا گیا کہ کمرے سے نکل جائیں۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور باغیچے میں چلے گئے۔ ہم ایک گھنٹہ وہاں رکے جب ہوٹل کے عملے کی ایک خاتون ہمارے پاس آئی اور اس نے کہا کہ آپ کے بیگ سے پیسے گر گئے ہیں۔ ایلی نے دیکھا کہ اس کا بیگ واقعی بند نہیں تھا اور 300 آسٹریلیئن ڈالر نیچے اترتے وقت سیڑھیوں پر گر گئے تھے۔

اگر وہ خاتون یہ پیسے اپنے پاس رکھ لیتی تو کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا لیکن اس نے یہ پیسے واپس کیے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوال: میرا خیال ہے کہ جیسے ہوتا ہے یہ منصوبہ جیسا بنایا گیا ہو گا ویسے ہر چیز نہیں ہوئی ہو گی۔ کیا اس سفر کے کچھ مخصوص لمحات ایسے ہیں جو آپ کو یاد ہوں جب ایسا ہوا ہو اور تب آپ نے کیا کیا؟

ایلی: ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ ہمارا سامان نہیں کھویا۔ بہت کم پروازیں تعطل کا شکار ہوئیں اور صرف ایک بار نیپال میں ہم نے ایک چھوٹا طیارہ بک کیا تھا ماوئنٹ ایورسٹ کے اوپر سے گزرنے کے لیے۔

صبح ساڑے پانچ بجے پرواز ہونا تھی اور جب ہم پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ ہماری ٹکٹیں تو گزر جانے والے دن کی تھیں۔ میں نے سینڈی سے کہا اب ہم مسکرانے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں۔ پانچ منٹ بعد ایک نوجوان نے آ کر کہا آپ کو آج کی ٹکٹ دی جاتی ہیں، جلدی سے بیٹھ جائیں۔

تو ہم نے یہ دریافت کیا کہ مسکراہٹ عالمی زبان ہے۔ اگر لوگ آپ کو مسکراتا دیکھتے ہیں تو اس سے فرق پڑتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسکراہٹ کی وجہ سے لوگ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سوال: کیا آپ کو اس سفر نے دوستی کے بارے میں کچھ سکھایا؟

ایلی: ہم بہت عرصے سے دوست ہیں اور ہم دونوں ہی بیوہ ہیں۔ لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہماری دوستی دنیا کے لیے کتنی اہم ہو گی۔ ہماری ٹک ٹاک ویڈیوز پر لوگوں نے لکھا کہ ہم بھی یہ کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے اپنے دوستوں کو ٹیگ کیا۔

ہمیں احساس ہوا کہ ہر کسی کو دوست کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں ہم سب کو ایک دوست کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوستی آسان نہیں ہوتی۔

سینڈی: بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس دوران آپ کی بحث ہوئی تو میرا جواب ہے بلکل نہیں۔ لیکن مجھے ایلی کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ میری ٹانگیں چھوٹی ہیں اور اسے میرے لیے کچھ آہستہ چلنا چاہیے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہELLIE AND SANDY PERSONAL ARCHIVE

سوال: اب آپ کا اگلا منصوبہ کیا ہے؟

ایلی: ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم پوری دنیا کا ایک اور چکر تو نہیں لگا سکتے۔ اس سفر میں سب اچھا رہا تو اب ہم ایک وقت میں ایک براعظم گھومنا چاہتے ہیں۔ اور اس بار ہم پیرو نہیں جا سکے تو ہم نے سوچا کہ ہم اگلے سال لاطینی امریکہ جائیں۔

لاطینی امریکہ میں ہمارے چاہنے والے بھی ہیں اور سب سے زیادہ برازیل میں ہیں۔ تو ہم پیرو جائیں گے، برازیل جائیں گے اور دنیا کے عجوبے دیکھیں گے۔ ابھی ہم نے اس کا وقت طے نہیں کیا لیکن 2024 میں ہی یہ سفر ہو گا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہELLIE AND SANDY PERSONAL ARCHIVE

سوال: آپ ایسے لوگوں کو کیا مشورہ دیں گی جو ایسی مہم یا سفر سے خوفزدہ ہوں یا جو سمجھتے ہوں کہ وہ ایسے سفر کے لیے بہت عمر رسیدہ ہیں؟

سینڈی: میرا مشورہ ہے کہ اپنی کرسی سے اٹھیں، اپنی آرام دہ زندگی سے نکلیں اور زندگی کو جی لیں۔

سوال: اس سفر سے آپ نے کیا اہم بات سیکھی؟

ایلی: میرے نزدیک تو یہ انسانیت کی اچھائی تھی۔ مذہب، سیاست کو ایک طرف رکھ کر بس دنیا دیکھیں۔ اگر آپ ہماری طرح سفر کرنا چاہتے ہیں تو یہ سوچ کر نکلیں کہ انسانیت کی اکثریت اچھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ آپ کو لوگوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔

سینڈی: بلکل، ہم کسی بھی ملک میں مشہور مقامات دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خوبصورت عمارات اور عجائب کے بعد ہمیں جو سب سے زیادہ یاد آتا ہے وہ لوگ ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ