معاشی مفادات کا تحفظ یا ’ایماندار ثالث‘ کا عالمی تشخص: اسرائیل، حماس جنگ سے چین کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

وانگ یی اور بلنکن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چین کے اعلی سفارتکار وانگ یی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ بات چیت کے لیے گذشتہ دنوں واشنگٹن پہنچے ہیں

  • مصنف, تیسا وونگ
  • عہدہ, ایشیا ڈیجیٹل رپورٹر، بی بی سی نیوز

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع میں شدت کے دوران چین کی جانب سے ثالثی کی ایک غیر متوقع پیش رفت سامنے آئی ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ چین جو کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے اس میں اسے محدود کامیابی ہی مل سکتی ہے۔

چین کے اعلیٰ سفارتکار وانگ یی نے مستقبل میں بڑی علاقائی جنگ کے خدشے کے درمیان ہفتے کے آخر میں واشنگٹن میں حکام کے ساتھ اس تنازع پر بات چیت کی ہے جبکہ امریکہ نے عہد کیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔

دریں اثنا چین کے مشرق وسطیٰ میں خصوصی ایلچی ژائی جون عرب رہنماؤں سے ملاقات کے لیے اس خطے کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں جبکہ مسٹر وانگ نے اپنے اسرائیلی اور فلسطینی ہم منصبوں سے بات کی ہے۔ یہ ملاقاتیں اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں جنگ بندی کے معاملے میں سب سے زیادہ اہم اجلاسوں میں ایک رہی ہیں۔

ایسے میں چین سے یہ امیدیں ہیں وہ ایران کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا استعمال کر سکتا ہے تاکہ جنگی صورتحال میں کمی لائی جا سکے۔ خیال رہے کہ ایران کو غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کا حمایتی کہا جاتا ہے۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے بظاہر مسٹر وانگ سے کہا ہے کہ وہ ایرانیوں پر زور دیں کہ وہ ’پُرسکون‘ رہے۔

چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور رواں سال کے شروع میں بیجنگ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے معاملے میں ایک نادر قسم کی ثالثی کی ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی صورتحال کو حل کرنے کے لیے ’چین کے ساتھ رابطے کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔‘

امریکی محکمہ دفاع کے تحت نیشنل وار کالج میں چینی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈان مرفی نے کہا کہ چونکہ چینی حکومت کے اسرائیل حماس تنازع میں شامل تمام فریقین کے ساتھ نسبتاً متوازن تعلقات رہے ہیں اس لیے انھیں ایک ’ایماندار ثالث‘ کہا جا سکتا ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک 8700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں

انھوں نے کہا کہ چین کے فلسطینیوں، عربوں، ترکی اور ایران کے ساتھ خاص طور پر مثبت تعلقات ہیں۔ ‘امریکہ کے ساتھ، جس کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، چین اس تنازعے میں ملوث تمام فریقین کو ایک میز پر لا سکتا ہے۔‘

لیکن دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ چین مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک معمولی کھلاڑی ہے۔

اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو جوناتھن فلٹن مشرق وسطیٰ کے ساتھ چین کے تعلقات کے ماہر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’چین اس معاملے پر بڑا کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ خطے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی چین سے اس مسئلے کے حل میں کردار ادا کرنے کی توقع نہیں رکھتا ہے۔‘

جاری تنازع پر چین کے پہلے بیان نے اسرائیل کو ناراض کیا تھا اور اسرائیل نے اس پر ’گہری مایوسی‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین نے اپنے بیان میں حماس کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا ذکر کیا۔

چین کے پہلے بیان پر ہنگامہ آرائی کے بعد مسٹر وانگ نے بعد میں اسرائیل سے کہا کہ ’تمام ممالک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن انھوں نے دوسری جگہ یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے اقدامات ’اپنی حفاظت کی حد سے تجاوز‘ کر گئے ہیں۔‘

چین کو ایک مشکل توازن برقرار رکھنے کا سامنا ہے کیونکہ وہ طویل عرصے سے فلسطینی کاز کے ساتھ کُھل کر ہمدردی رکھتا ہے۔

شی جن پنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چینی صدر شی جن پنگ نے سنہ 2017 میں فلسطینی رہنما محمود عباس کا استقبال کیا تھا

اس کی تاریخ چینی کمیونسٹ پارٹی کے بانی ماؤزے تنگ تک جاتی ہے جنھوں نے دنیا بھر میں نام نہاد ’قومی آزادی‘ کی تحریکوں کی حمایت میں فلسطینیوں کو ہتھیار بھیجے تھے۔ یہاں تک کہ ماؤ نے اسرائیل کا موازنہ تائیوان سے کیا تھا کیونکہ دونوں کو مغربی سامراج کے اڈوں کے طور پر امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔

بعد کی دہائیوں میں چین نے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور معمول کے تعلقات کو بحال کیا اور ان دونوں کے درمیان ایک ارب ڈالر کا تجارتی تعلق ہے۔

لیکن چین نے واضح کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ تازہ ترین تنازع پر اپنے تبصروں میں چینی حکام اور یہاں تک کہ صدر شی جن پنگ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لیکن آن لائن ’سام دشمنی‘ میں اضافہ ایک ضمنی اثر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جسے قوم پرست بلاگرز نے ہوا دی ہے۔ چینی سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے نازی ازم کے مترادف قرار دیا ہے جس پر بیجنگ میں جرمن سفارتخانے نے تنبیہ کی ہے۔

بیجنگ میں اسرائیلی سفارتخانے کے ایک ملازم کے خاندان کے ایک فرد کو چاقو مارنے کے واقعے نے بھی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔

یہ سب کچھ چین کے لیے اس صورت میں اچھا نہیں ہو سکتا جب وہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس غیر یقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چین اس میں کیوں شامل ہو رہا ہے؟

اس کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں اس کے معاشی مفادات ہیں جو تنازع کے پھیلنے کی صورت میں خطرے میں پڑ جائیں گے۔

چین ایران اور سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

چین اس سے قبل رواں سال ایران اور سعودی عرب کے درمیان کامیاب ثالثی کر چکا ہے

بیجنگ اب تیل کے لیے غیر ملکی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کر رہا ہے اور تجزیہ کاروں کا تخمینہ ہے کہ اس میں سے نصف خلیجی ممالک سے آتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو (بی آر آئی) میں تیزی سے شامل ہوئے ہیں اور اس کا اہم حصہ بن گئے ہیں۔ واضح رہے کہ بی آر آئی چین کی خارجہ اور اقتصادی پالیسی کی بنیاد ہے۔

لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جاری تنازع بیجنگ کے لیے اپنی ساکھ کو چمکانے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔

ڈاکٹر مرفی نے نشاندہی کی کہ چین کے خیال میں ’فلسطینیوں کے لیے کھڑا ہونا عرب ممالک، مسلم اکثریتی ممالک اور گلوبل ساؤتھ کے بڑے حصے کے ساتھ ہونے جیسا ہے۔‘

یہ جنگ ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب چین خود کو دنیا کے لیے امریکہ کے مقابلے میں ایک بہتر دعویدار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اس نے چینی قیادت والے عالمی نظام کے وژن کو فروغ دیا ہے جبکہ اس نے امریکی ’سربراہی‘ کی ناکامیوں پر تنقید کی ہے۔

ڈاکٹر مرفی نے کہا کہ سرکاری طور پر چین نے اسرائیل کی حمایت پر امریکہ پر حملہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ریاستی میڈیا ’قوم پرستانہ جذبہ پیدا کر رہا ہے۔۔۔ اور مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت سے جوڑ رہا ہے۔‘

چین کے فوجی اخبار ’پی ایل اے ڈیلی‘ نے امریکہ پر ’آگ میں تیل ڈالنے‘ کا الزام لگایا ہے اور یہ وہی بیان بازی ہے جو بیجنگ نے یوکرین کی جنگ میں کیئو کی مدد کرنے پر واشنگٹن پر تنقید کرنے کے لیے کی تھی۔ جبکہ انگریزی زبان کے سرکاری اخبار دی گلوبل ٹائمز نے خون آلود ہاتھوں والے انکل سام کا کارٹون شائع کیا ہے۔

مبصرین کے درمیان ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ بیجنگ امریکہ کے خلاف اپنے موقف کے برعکس ہے تاکہ وہ اپنے مغربی حریف یعنی امریکہ کی عالمی حیثیت کو کم کر سکے۔ لیکن حماس کی واضح طور پر مذمت نہ کرنے سے چین کو اپنی پوزیشن کو کمزور کرنے کا بھی خطرہ ہے۔

چین کو اپنے طویل مدتی عزائم میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔

بیت المقدس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک یہ کہ وہ اپنی سفارتی پوزیشن کو اپنے ٹریک ریکارڈ کے ساتھ کس طرح ممیز کر سکتا ہے۔ اگرچہ ان کا حالیہ بیانیہ مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کی مخالفت کرتا ہے لیکن بیجنگ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ایغور مسلم اقلیت کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ تبت کو زبردستی اپنے ملک میں ضم کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ چین نے عرب ممالک کے ساتھ جو مضبوط تعلقات استوار کیے ہیں اس کے پیش نظر یہ عرب دنیا کے لیے شاید کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بیجنگ کو ان کے انگیجمنٹ کے معاملے میں سطحی طور پر دیکھا جا رہا ہے، یا اس سے بھی بدتر یہ کہ اسے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اسرائیل اور حماس کے تنازع کا فائدہ اٹھانے والے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر فلٹن کا کہنا ہے کہ عرب ریاستوں کے درمیان اسرائیل اور فلسطین کے متعلق متفقہ ایک آواز نہیں ہے اور ایسی صورتحال میں چین کا یہ فرض کرنا کہ ’آپ اگر فلسطین کی حمایت کرتے ہیں تو آپ عرب ممالک کے ساتھ پوائنٹ سکور کریں گے، یہ ایک روایتی اور فرسودہ سوچ ہے۔‘

مسٹر وانگ کا دعویٰ ہے کہ چین صرف مشرق وسطیٰ میں امن کا خواہاں ہے اور ’فلسطین کے سوال پر کوئی خود غرضی والی نیت نہیں رکھتا ہے۔‘

اس کے لیے دنیا کو یہ بات باور کرانا مشکل ہوگا کہ واقعی ایسا ہی ہے جیسا چین کہہ رہا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے اضافی رپورٹنگ بی بی سی مانیٹرنگ کی جانب سے کی گئی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ