نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘
نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘
،تصویر کا ذریعہGMP
انگلینڈ کے شہر مانچسٹر کے ایک قصبے روچڈیل کے ایک گرومنگ گینگ سے منسلک پانچ افراد کو دو نو عمر لڑکیوں کے ساتھ ’گھناؤنی استحصال‘ کرنے پر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان دو نو عمر لڑکیوں کے ساتھ 39 سالہ محمد غنی، 38 سالہ انصار حسین، 50 برس کے جاہن شاہد غنی، 39 سالہ مارٹن رہوڈز اور 36 سالہ علی رضا حسین کاظمی نے سنہ 2002 سے سنہ 2006 کے درمیان بدسلوکی کی تھی۔
منشل سٹریٹ کراؤن کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ یونیفارم پہنے لڑکیوں کو ان کے سکول کے باہر سے لیا جاتا تھا۔
جج ٹینا لینڈیل کا کہنا تھا کہ ان افراد نے ’انتہائی سفاکانہ‘ انداز اپنایا اور انھوں نے لڑکیوں کا ’گھناؤنا استحصال‘ کیا۔
ان لڑکیوں کی شناخت عدالت میں چھپائی گئی اور اس وقت ان کی عمریں 13 اور 14 برس بتائی گئی تھیں۔ انھیں شراب، بھنگ اور ایکسٹسی کی گولیاں دے کر مدہوش کیا جاتا اور پھر ان پر جنسی تشدد کیا جاتا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ان کے ساتھ متعدد افراد نے بدسلوکی کی، کبھی دو نے مل کر اور کبھی اکیلے۔
جیوری کو بتایا گیا کہ ان لڑکیوں کو گاڑیوں، پبلک پارکس اور روچڈیل کے فلیٹس اور گھروں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان لڑکیوں کی شناخت عدالت میں گرل اے اور بی کہہ کر کی گئی۔ گرل اے کا کہنا تھا کہ یہ بدسلوکی اس وقت شروع ہوئی جب ان کی بیمفورڈ وے روچڈیل کے محمد غنی سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔
جیوری کو بتایا گیا وہ ان کے ساتھ سیکس کرتا اور پھر انھیں اپنے دوستوں کے پاس بھیجتا جہاں ان پر متعدد مردوں کے ساتھ سیکس کرنے لیے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGMP
عدالت کو بتایا گیا کہ جاہن شاہد غنی ’سیکس کے عادی‘ شخص ہیں اور انھوں نے گرل اے کو ایک ساتھ 10 ایکسٹسی کی گولیاں دیں
غنی کو نوعمر بچی کے سات پانچ مرتبہ سیکس کرنے کے جرم میں 14 سال اور چھ مہینے کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ان کے بڑے بھائی جاہن شاہد غنی جو وہٹورتھ روڈ روچڈیل کے رہائشی ہیں، وہ ’سیکس کے عادی‘ شخص ہیں اور انھوں نے گرل اے کو ایک ساتھ 10 ایکسٹسی کی گولیاں دیں اور پھر ان کے اور ایک اور خاتون کے ساتھ سیکس کیا۔
انھیں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی جن میں پچی کو جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کرنے اور بچی کے ساتھ چار مرتبہ سیکس کرنے کے جرائم شامل ہیں۔
ان کے دوست انصار حسین کو ریپ اور دو مرتبہ گرل اے کے ساتھ سکیس کرنے کے جرم میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
علی رضا حسین کو گرل بی کے ساتھ ریپ اور دو دیگر جنسی جرائم کے باعث آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایک پانچواں شخص مارٹن رہوڈ، جو بلیک پول کے ڈنمور ایوینیو کے رہائشی ہیں، نے گرل اے اور بی سے چار مرتبہ سیکس کے ارتکاب کا اقرار کیا تھا جس کے بعد انھیں 12 سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
ان کے خلاف یہ الزامات سنہ 2015 میں سامنے آئے تھے جب گرل اے نے والدین کو کروائے جانے والے ایک کورس (پیرنٹنگ کورس) میں بتایا تھا کہ ان کے ساتھ ’ریپ اور تشدد کیا گیا۔ اس کے بعد پولیس سے رابطہ کیا گیا تھا۔ انھوں نے کورس ورکرز کو بتایا تھا کہ ’ان کے ساتھ چھ برس تک روز بدسلوکی ہوتی تھی۔‘
’میں 12 سال کی تھی جب اس بدسلوکی کا آغاز ہوا، وہ مجھے منشیات کھلاتے اور شراب پلاتے، میرے ساتھ زیادتی کرتے اور پھر مجھے اپنے دوستوں کو پاس کر دیتے۔‘
’وہ ویسا ہی کرتے جیسا انھیں اچھا لگتا، انھیں نے مجھے بلیک میل کرنے کے لیے میری ویڈیوز بھی بنائیں۔‘
جب گرل اے نے پولیس کو یہ سب بتایا تو اس کے نتیجے میں انھوں نے گرل بی سے بھی رابطہ کیا جو ان کی بچپن کی دوست تھیں۔
جیوری نے تین دیگر افراد اخلاق یوسف، افطر خان اور محمد اقبال کو الزامات ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا۔
این ایس پی سی سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ خواتین نے اس کیس میں بات کرنے اور قانون کا سامنا کرنے میں بے پناہ دلیری دکھائی۔‘
خیال رہے کے روچڈیل کا علاقہ سیکس گرومنگ کے حوالے سے ماضی میں بدنام رہا ہے۔ برطانیہ کے شہر لیورپول کی کراؤن کورٹ نے سنہ 2012 میں روچڈیل سے تعلق رکھنے والے نو افراد کے گروہ کو کم عمر لڑکیوں سے جنسی فعل کرنے کے جرم میں انھیں چار سے انیس برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ان اشخاص پر الزام تھا کہ انھوں نے کم عمر لڑکیوں کو جنسی ضرورت کے لیے تیار کیا۔ وہ ان کم عمر لڑکیوں کو شراب اور منشیات مہیا کرتے تھے اور پھر انھیں حوس مٹانے کے لیے نہ صرف خود استعمال کرتے بلکہ ان لڑکیوں کو بطور تحفہ دوسرے افراد کو بھی پیش کرتے تھے۔
روچڈیل میں پیش آنے والے حالیہ کیس کے بارے میں تو یہ واضح نہیں کہ ان افراد کا تعلق کس ملک سے ہے تاہم رواں سال کے آغاز میں برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے بار بار ایسے بیانات دیے تھے کہ ملک میں کم عمر سفید فام لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔
جس کے بعد برطانیہ میں درجنوں مسلم تنظیموں نے رشی سونک کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر داخلہ کا بیان ’نسل پرستی پر مبنی اور سماج کو منقسم کرنے والا ہے۔‘
Comments are closed.