250 سال پرانا تھیٹر ٹوکن جسے آج بھی مفت شوز دیکھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے

کنگ سٹریٹ پر تھیٹر 1766 میں کھولا گیا تھا

،تصویر کا ذریعہHENRY ALDRIDGE & SONS

،تصویر کا کیپشن

کنگ سٹریٹ پر تھیٹر 1766 میں کھولا گیا تھا

  • مصنف, لوئس انگلیس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

سنہ 1766 کا ایک تھیٹر ٹوکن جو اس کے مالک کو لامحدود شوز تک رسائی دیتا ہے نیلام ہونے جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کے پاس بھی یہ ٹوکن جائے گا وہ شخص آج بھی شاید اس تھیٹر میں جا کر مفت کے شوز دیکھ سکتا ہے۔

برطانیہ کے شہر برسٹل میں واقع برسٹل اولڈ وک کے تھیٹر کے پہلے شراکت داروں کے لیے 50 ٹوکن تیار کیے گئے جنھیں استعمال کرتے ہوئے وہ وہاں پر پیش کی جانے والی کسی بھی پرفارمنس کو دیکھنے کے مجاز تھے۔

اسے ڈیوائزز کے ہنری آلڈرج اینڈ سنز آکشن ہاؤس میں بیچا جا رہا ہے۔

برسٹل اولڈ وک نے اس ٹوکن کے اوپر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ’ہم اس اس بات کے لیے مشہور ہیں کہ ہم تصدیق کیے گئے تمام ٹوکنز کے لیے اپنی پالیسی پر برقرار رہتے ہیں۔‘

ولٹ شائر نیلام گھر یہ توقع کر رہا ہے کہ یہ ٹوکن جس کا نام ٹکٹ نمبر 35 ہے 1500 سے 2500 پاؤنڈ کے درمیان کی قیمت میں فروخت ہو گا۔

برسٹل اولڈ وِک

،تصویر کا ذریعہPHILIP VILE

،تصویر کا کیپشن

برسٹل اولڈ وِک

برسٹل اولڈ وک نے مزید کہا ’اگر یہ واقعی مستند ہے تو ہم اپنی پالسی پر عمل کرتے ہوئے (ٹوکن کے) مالک کو مفت کے ٹکٹس دیں گے۔‘

آکشن ہاؤس کے ترجمان نے کہا ’کہاں جاتا ہے 20 سکے بچ گئے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم آکشن کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا ’بیچنے والوں کا تعلق برسٹل سے ہے اور انھوں نے ہمیشہ اس چیز کو مقامی تاریخ کے ایک اہم ٹکڑے کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔‘

برسٹل اولڈ وِک

،تصویر کا ذریعہUNIVERSITY OF BRISTOL THEATRE COLLECTION

،تصویر کا کیپشن

برسٹل اولڈ وِک

اس تھیٹر کو تھیٹر رویل کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے 1764 اور 1766 کے درمیان کنگ سٹریٹ پر تعمیر کیا گیا تھا۔

اس کے 50 شراکت دار تھے جن میں سے ہر کسی نے نے تھیٹر کی تعمیر کے لیے 50 پاؤنڈ جمع کروائے تھے جو کہ 18ویں صدی میں ایک بڑی رقم تھی۔ ان افراد کو اس کے بدلے ایک چاندی کا ٹوکن دیا گیا تھا۔

ٹوکن پر لکھا ہے ’اس ٹکٹ کا مالک اس (تھیٹر) ہاؤس میں نمائش کی جانے والی ہر پرفارمنس کو دیکھنے کا حقدار ہے۔‘

اس کے دوسرے رخ پر لکھا ہوا ہے ’کنگ سٹریٹ، بسٹل تھیٹر 30 مئی 1766‘

ٹوکن

،تصویر کا ذریعہHENRY ALDRIDGE & SONS

اس کے بعد آنے والے سالوں میں یہ ٹکٹس تبدیل ہوئے، بیچے گئے، گم ہوئے واپس مل گئے حتیٰ کے ان کی جعل سازی بھی کی گئی لیکن یونیورسٹی آف برسٹل تھیٹر کلیکشن کے وسیع ریکارڈ کچھ سکوں کی اصلیت کا پتہ لگانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

1791 میں ایک ٹکٹ 30 پاؤنڈ میں پیش کیے جانے کا ریکارڈ موجود ہے مطلب یہ کہ ٹکٹ خود ایک قیمتی چیز تھی۔

ٹکٹ نمبر 35 شیئر ہولڈر ولیم جونز کو 1766 میں دیا گیا تھا۔

دستاویز بتاتے ہیں کہ 1815 تک یہ سکہ برسٹل کے بلیو گلاس میکر جان وڈھم کے پاس چلا گیا تھا۔

 فرنچائے منور

،تصویر کا ذریعہDON FORD

،تصویر کا کیپشن

وادھم خاندان کے پاس فرنچائے منور تھا جو اب ایک نرسنگ ہوم ہے۔

جان وادھم فرنچائے مینور کے مالک تھے، جو اب بھی موجود ہے اور سنہ 1820 میں برسٹل فلوٹنگ ہاربر کمپنی کے ڈائریکٹر بھی تھے۔

ٹکٹ نمبر 35 کو اس کے بعد جان وادھم کے بیٹے تھامس کے حوالے کر دیا گیا، جو 1843 میں برسٹل کے ہائی شیرف بنے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ