وہ اسرائیلی یرغمالی جو برسوں سے غزہ میں حماس کی قید میں ہیں

یرغمالی

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی یرغمالیوں أفيرا منجيستو اور ہشام السید کے رشتہ دار 2018 میں ان کی رہائی کے لیے مہم چلا رہے ہیں

  • مصنف, لارنس پیٹر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملے میں 200 سے زیادہ افراد کو یرغمال بنایا ہے، تاہم دو اسرائیلی شہری ایسے بھی ہیں جنھیں حماس نے برسوں سے یرغمالی بنا کر اپنے قید میں رکھا ہوا ہے۔

افيرا منجيستو نامی اسرائیلی شہری سنہ 2014 جبکہ ہشام الصید کو 2015 میں حماس نے یرغمال بنایا تھا۔ تاہم ان دونوں افراد کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔

اسی طرح 2014 میں جب دو اسرائیلی فوجی ہدار جولدين اور أورون شاؤول حماس کی قید میں مارے گئے تو تب سے ہی ان فوجیوں کے لواحقین اس اذیت میں مبتلا ہیں کہ حماس 2014 سے ان کی باقیات غزہ میں اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے۔ ہدار جولدين اور اور أورون شاؤول 2014 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران مارے گئے تھے۔

یرغمالی

،تصویر کا ذریعہAFP

حماس کو مغربی ممالک ایک ’دہشت گرد‘ گروہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ماضی میں حماس کے جنگجو اپنے پاس قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے بھاری تاوان کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔

أورون شاؤول کے بھائی افيرام شاؤول کا کہنا ہے کہ تقریباً 10 سال سے ان کے خاندان کو حماس سے اس متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی کہ اورون کی لاش کو کہاں رکھا گیا ہے اور اب اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انھیں اپنے بھائی کے باقیات واپس ملیں گی۔

افیرام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’2014 میں غزہ میں اسرائیلی فوج کو حماس کی ایک سرنگ میں اورون کا ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ ملی تھی لیکن اس کے بعد مجھے لگتا ہے کہ اسرائیل ان (دو ہلاک ہونے والے فوجیوں) کو بھول گیا ہے۔‘

’اب جبکہ ہم ان 200 سے زیادہ اغوا کیے جانے والوں کی بات کر رہے ہیں تو ایسے میں میرے بھائی کی باقیات واپس لانے کا ایک اچھا موقع ہے حکومت نے میرے بھائی کو واپس لانے کے لیے تسلی بخش کام نہیں کیا تھا لیکن اب انھیں یہ کوشش بھی تیز کرنا ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ اب اسرائیل کو یرغمالیوں کو نکالنے کے لیے ایک انسانی معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔

’اگر حماس بجلی، پانی چاہتا ہے تو وہ ہمیں یرغمالیوں اور فوجیوں کی لاشیں دے دے۔‘

’انھیں سوچنے کا موقع دیں‘

 اسرائیل غزہ یرغمالی

،تصویر کا ذریعہIDF/GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

اکتوبر 2011 میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو (بائیں سے دوسرے) نے سپاہی جلعاد شاليط کو حماس کے ہاتھوں رہائی پرخوش آمدید کیا

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اسرائیل گذشتہ کئی برسوں سے یرغمال بنائے جانے والے أفيرا کی رہائی اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشوں کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

سنہ 2011 میں خفیہ مذاکرات کے بعد اسرائیل نے ایک مغوی فوجی جلعاد شاليط کو حماس سے چھڑوا لیا تھا اور اس کے بدلے اپنی جیلوں میں قید 1,027 فلسطینی قیدی ان کے حوالے کیے تھے۔

اسرائیل اب حماس کا نام و نشان مٹانے کا عزم کیے ہوئے ہے جس کے لیے وہ غزہ پر تابڑ توڑ فضائی حملے کر کے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا رہا ہے۔

ایسے میں قیدیوں کا کوئی بھی تبادلہ مشکل اور متنازعہ ہو گا۔ جیسے جیسے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اسرائیل پر فلسطینیوں کا غصہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

حجائی ہداس جو پہلے اسرائیلی فوجی کمانڈر اور موساد کے انٹیلیجنس افسر تھے، نے شاليط کی رہائی کے لیے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ فلسطینی اغوا کاروں کے ساتھ قیدیوں کے اس طرح کے معاملات سیاسی مسئلہ ہیں اور موجودہ ہنگامی صورتحال میں یہ ہونے والا نہیں اور ناممکنات میں سے ہے۔‘

انھوں نے زور دیا کہ اس وقت وزیر اعظم نتن یاہو کے لیے متنازع شالیط کا تبادلہ سیاسی طور پر ممکن تھا۔ وہ کافی محفوظ محسوس کرتے تھے جس کے باعث اس معاہدے کو شالیط کی رہائی سے دو سال قبل حتمی شکل دی گئی تھی۔

ہداس نے کہا اس بار اب مجھے لگتا ہے کہ قیمت حماس کے قیدیوں کی نہیں ہوگی یہ مختلف طریقوں کے ذریعے ادا کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس اب مختلف آپشنز موجود ہیں: اگر قیدیوں کے ٹھکانوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات درست ہوں تو براہ راست بچانے کے اقدامات کیے جائیں۔ یا پھر معاشی اثاثوں کا استعمال یعنی ادائیگی کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کے اختیارات کا استعمال یا پھر حماس رہنماؤں کو غزہ سے فرار ہونے دیا جائے۔

اس آخری آپشن سے متعلق انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ کو انھیں دباؤ میں رکھنا ہوگا، انھیں یہ سوچنے کا موقع دیں کہ اپنی جان بچانے کے لیے وہ ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں۔‘

’مجھے یقین ہے کہ (یرغمالیوں کی) اکثریت حماس کے پاس ہے لیکن سب نہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسرائیل ان کو تلاش کرنے اور فوجی طریقوں سے انھیں باہر لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’غزہ کے ساتھ مکمل جنگ میں بھی اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے پر زور دے گا اور آخری لمحے تک کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔‘

انھوں نے کہا ’ہم زندگی کی قدر کرتے ہیں اور زندگی کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘

ہداس نے کہا کہ حماس کے ہاتھوں 2014 سے یرغمال بنائے گئے دو اسرائیلی شہری ’اغوا نہیں ہوئے‘ لیکن وہ غزہ گئے تھے ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔‘

انھوں نے حماس کے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس بار یہ ایک بڑا فرق ہے – ہم نے سات اکتوبر کو جس طرح کا تجربہ کیا ہے اس وقت اس سے ملتا جلتا کچھ نہیں تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

یرغمالی کے اہل خانہ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

افيرا منجيستو کی ماں اور بھائی برسوں سے ان ککے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔

حماس کا دعویٰ ہے کہ افيرا منجيستواور ہشام الصید فوجی ہیں، لیکن ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ شیئر کی گئی اسرائیلی سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ایسے شہری ہیں جنھیں فوجی خدمات سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔

افيرا کی رہائی کے لیے جاری مہم کی قیادت تيلا فينتا نے کی ہے۔ تیلا اسرائیلی ریاست کی جانب سے مایوس ہیں حالانکہ وہ کہتی ہیں کہ غزہ کے یرغمالیوں پر بین الاقوامی توجہ اب ان کے مقصد میں مدد کر سکتی ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’جہاں مجھے یہ یقین ہے کہ افيرا کی واپسی کے امکانات بہتر ہوئے ہیں وہیں دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حماس کے حملے اور 1400 اسرائیلیوں کی ہلاکت سے ہم ابھی تک گہرے صدمے میں ہیں۔ ہم سب اسرائیلی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ مہم چلانے والوں نے افيرا اور ہشام کی بحفاطت واپسی کو یقینی بنانے میں اسرائیل کی کوششیں انھیں ناکافی محسوس ہوتی ہیں۔

یرغمالی

،تصویر کا ذریعہFREE AVERA/FACEBOOK

،تصویر کا کیپشن

أفيرا منجيستو کی وڈیو کا سکرین شاٹ

انھوں نے کہا کہ ’وہ دونوں فوجی نہیں ہیں بلکہ بیمار ہیں۔ انھیں ذہنی مسائل ہیں اور حماس کا انھیں یرغمال بنانا انسانیت کے خلاف ہے۔

انھوں نے حکومت کی افیرا اورہشام کی واپسی میں عدم دلچسپی کا تعلق ان دونوں کے پسماندہ پس منظر سے جوڑا اور اسرائیلی معاشرے میں ایتھوپیا کے یہودیوں اور بدو عربوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بات کی۔

’میرے خیال میں افیرا ایک ایسا آدمی ہے جو معاشرے کے ’معیار‘ پر پورا نہیں اترتا۔ ان کی رنگت، ذہنی صحت کے مسئلے اور ایک افلاس زدہ علاقے میں پرورش پانے کی وجہ سے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان سب باتوں نے انھیں معاشرے میں وہ عزت نہیں دی۔ اگر ان کی رنگت صاف ہوتی، کسی اچھے علاقے سے تعلق ہوتا تو معاشرے کا سلوک مختلف ہوتا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں۔ ’مجھے علم ہے کہ یہ وقت اپنے ملک کے بارے میں کچھ غلط کہنے کا نہیں ہے، لیکن سچائی ضرور سامنے آنی چاہیے۔ انسانی حقوق کی بڑی تنظیموں کو بھی مزید کام کرنا چاہیے تھا۔‘

ایک تیسرا نوجوان اسرائیلی شہری جمعہ ابو غنیمہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 2016 میں غزہ میں داخل ہوئے اور تاحال لاپتہ ہیں۔

جمعہ بھی ہشام کی طرح ایک بدو نسل کے عرب ہیں۔ وہ حماس کے پاس ہو سکتے ہیں لیکن اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے سے پہلے افیرا اور ہشام دونوں بار بار لاپتہ ہوئے تھے، اور ان کا نفسیاتی علاج بھی ہوا تھا۔

جنوری میں حماس نے عبرانی میں بڑبڑاتے ہوئے ایک شخص کا ایک مختصر ویڈیو کلپ جاری کیا جس پر کوئی تاریخ درج نہیں تھی۔

’میں قیدی أفيرا منجيستو ہوں۔ میں کب تک اپنے دوستوں کے ساتھ قید میں رہوں گا۔‘

فری افیرا مہم نے بی بی سی کو بتایا کہ منجيستو خاندان نے ان کی شناخت کی تصدیق کی۔

وزیر اعظم نیتن یاہو نےافیرا کی والدہ کو بتایا کہ حکومت جانتی ہے کہ ان کا بیٹا ابھی زندہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل منجيستو اور ہمارے بقیہ اسیروں اور لاپتہ افراد کی واپسی کی کوششوں سے پحچھے نہیں ہٹے گا۔

جون 2022 میں حماس نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں ہشام الصید کو قید میں دکھایا گیا تھا۔ ہشام کے والد شعبان الصید نے ان کی شناخت کی تصدیق کی۔

حماس نے صرف اتنا کہا کہ ہشام کی صحت بگڑ گئی ہے – مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ انھیں ایک وینٹی لیٹرکے ذریعے سانس لیتے دیکھا جا سکتا ہے ساتھ ان کا اسرائیل کا جاری کردہ شناختی کارڈ بھی ہے۔

ہدار جولدين کی باقیات ابھی غزہ میں ہیں اور ان کے بھائی تسور جولدين نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ حماس کے اغوا کی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے واضح پالیسی اپنائے۔

اسرائیل نیشنل نیوز کے مطابق تسور جولدين نے کہا کہ ’اغوا خاندانوں کے خلاف ہوتا ہے اور معاشروں کو توڑنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ ہم ایک خاص سیکورٹی صورتحال اور ایک خاص طرز عمل کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں کہ اسیر اور لاپتہ افراد کے لیے موقع پر رہنا آسان ہے۔‘

’لڑائی کا ایک دور ہے، اس کے بعد خاموشی، اس کے بعد دوسرا دور اور پھر مزید خاموشی ہے۔‘

حجائی ہداس نے بی بی سی کو بتایا ’حماس کے یرغمالیوں میں سے کسی کو رہا کرنا ایک سازش یا متنازعہ معاملہ ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ ڈیل کرنے میں ہر جگہ ایک مخمصہ ہے۔ آپ کے پاس موجود اختیارات اچھے یا برے ہو ثابت ہو سکتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ