’اس گیم میں کوئی خطرہ نہیں‘ جب انڈر کوور صحافی نے یورپ کے خواب دکھانے والے پاکستانی ایجنٹ کو بے نقاب کیا
’اس گیم میں کوئی خطرہ نہیں‘ جب انڈر کوور صحافی نے یورپ کے خواب دکھانے والے پاکستانی ایجنٹ کو بے نقاب کیا
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
پاکستان اور دیگر ممالک کے تارکین وطن ترکی کے راستے یورپ میں داخل ہو رہے ہیں
- مصنف, ریحا کنسارا، سمرہ فاطمہ اور جیسمین ڈائر
- عہدہ, بی بی سی ٹرینڈنگ، بی بی سی اردو اور بی بی سی نیوز نائٹ
’پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ چاہے وہ 12 سال کے ہوں یا 18 سال کے، ہم ان عمر کے لوگوں کو بھی لے جاتے ہیں۔‘
پاکستان سے نوجوانوں کو باہر بھیجنے کے لیے غیر قانونی طریقوں اور راستوں کا بندوبست کرنے والے انسانی سمگلر نے خفیہ طور پر ان معاملات کی تحقیقات کرنے والے بی بی سی کے صحافی کو اپنے اس کاروبار کے بارے میں بتایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’25 لاکھ پاکستانی روپے (یعنی9000 ڈالر یا 7500 پاؤنڈز) میں ایک نوجوان تقریباً تین ہفتوں میں باحفاظت یورپ پہنچ سکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایران کی سرحد پیدل عبور کر کے، پھر بذریعہ گاڑی یا ٹرک ترکی سے اٹلی تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کا لہجہ تسلی بخش اور اطمینان سے بھرا ہوا تھا۔
’یہاں سے جانے والوں کو اپنے ساتھ بس کُچھ کھانے کی اشیا رکھنی چاہیے۔ ہاں مگر اپنے ساتھ اچھے، پائیدار اور معیاری جوتوں کا ایک جوڑا اور کپڑوں کے دو یا تین جوڑے ضروری ہیں۔ اس سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ رہی بات پانی کی تو وہ آپ کو کوئٹہ سے مل جائے گا۔ جب وہ کوئٹہ پہنچ جائیں گے تو انھیں بس ایک فون کرنا ہے جس پر ایک آدمی اُن کے پاس پہنچ جائے گا۔‘
سمگلر اعظم کا دعویٰ ہے کہ روزانہ سینکڑوں تارکین وطن پاکستان کی سرحد عبور کر کے ایران میں داخل ہوتے ہیں۔ اعظم نے بی بی سی کے رپورٹر کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس سارے سفر میں خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بی بی سی کے صحافی نے اعظم کو یہ نہیں بتایا کے وہ ایک صحافی ہیں اور بی بی سی کے لیے کام کرتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اعظم کو اپنا تعارف ایک ایسے فرد کے طور پر کروایا کہ جو اپنے بھائی کو برطانیہ لانا چاہتے ہیں۔
ملک میں افراط زر میں اضافے اور پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے بہت سے لوگ نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ 2023 کے پہلے چھ ماہ میں تقریبا 13 ہزار افراد لیبیا یا مصر جانے کے لیے پاکستان چھوڑ چُکے ہیں جبکہ 2022 میں یہ تعداد سات ہزار کے قریب تھی۔
،تصویر کا ذریعہHANDOUT
یونان میں تارکین وطن کی کشتی کے حادثے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے
مُلک سے جانے والے لوگ اکثر اسی پُر خطر راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ جون میں یونان کے ساحل کے قریب ماہی گیری کی ایک کشتی ڈوبنے سے سینکڑوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈوبنے والی اس کشتی میں کم از کم 350 پاکستانی سوار تھے۔
اعظم بتاتے ہیں کہ ’مُلک سے جانے والا کوئی بھی اگر راستے میں پکڑا جاتا ہے، تب بھی کوئی خطرے والی بات نہیں ہاں بس اُسے واپس بھیج دیا جائے گا لیکن اُس کے اغوا ہونے یا تاوان مانگنے والا کوئی نہیں ہے۔‘
لیکن لیبیا کے راستے سفر کرنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن ملیشیا اور جرائم پیشہ گروہوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہم نے ایک ایسے پاکستانی سے بات کی، جنھوں نے اٹلی جانے کے لیے انسانی سمگلر کا شہارا لیا، وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس سفر کے دوران نا صرف اغوا کیا گیا بلکہ اُنھیں لیبیا میں تین ماہ تک قید بھی رکھا گیا۔
سعید (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت رہا کیا گیا جب ان کے اہل خانہ نے 2500 ڈالر تاوان ادا کیا تھا۔
’اس سفر کے لیے بس ایک خفیہ میسج اور کوڈ ورڈ ’گیم‘ کا استعمال‘
بہت سے سمگلر فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے مین سٹریم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان اکاؤنٹس کے ذریعے کام کر رہے ہیں جن کے ہزاروں فالوورز ہیں۔
مئی سے بی بی سی اس غیر قانونی سفر کے لیے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس دوران بی بی سی کو جاننے کا موقع ملا کے کیسے یہ انسانی سمگلر اپنی باتوں کے جال میں عام لوگوں کو پھنساتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ قانون نافذ کرنے والی اداروں کی نظروں سے اوجھل رہ کر اپنا کام دھندا جاری رکھتے ہیں۔
اس سب کے بیچوں بیچ وہ انھیں سوشل میڈیا ویب سائٹس کی مدد سے سفر کی معلومات بھی فراہم کرتے ہیں اور اس کا معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں۔
’ڈنکی‘ اور ’گیم‘ جیسے خفیہ الفاظ (کوڈ ورڈ) یورپ میں غیر قانونی راستوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں. ’ڈنکی‘ سے مراد کشتیوں پر کیا جانے والا سفر اور ’گیم‘ کے معنی اس سفر کا آغاز اور اختتام کے ہیں۔
پاکستان سے یورپ جانے کے لیے عام طور پر جن تین راستوں سے گزرا جاتا ہے اُن میں ترکی، ایران یا لیبیا شامل ہیں جن کے بعد یہ غیر قانونی طور پر سفر کرنے والے افراد یورپ پہنچتے ہیں۔
یونان کے پانیوں میں تارکین وطن کی کشتیوں کو پیش آنے والے حادثات کے بعد سے انسانی سمگلروں کی نگرانی جاری ہے جس کے بعد سے یہ جرائم پیشہ لوگ ’ٹیکسی گیمز‘ کو فروغ دے رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ مشرقی یورپ سے زمینی سفر کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچتے ہیں کحونکہ ان راستوں کو سمگلرز کے لیے سازگار سمجھا جاتا ہے۔
سمگلروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تارکین وطن کے گروہوں کی ویڈیوز پوسٹ کی جاتی ہیں جن میں وہ جنگلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور منی وین میں بھاگ رہے ہیں، جن کے اوپر ایجنٹوں کے نام اور موبائل فون نمبر لگائے گئے ہیں۔ واٹس ایپ پر صارفین اور ’ایجنٹس‘ سیکڑوں ارکان کے ساتھ گروپ چیٹ میں اگلے ’گیم‘ کے بارے میں پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
اعظم ’ٹیکسی گیمز‘ میں مہارت رکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سمندری راستوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ لیکن ان زمینی راستوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ ’موسم سرما میں شدید سردی کی وجہ سے تارکین وطن پیدل سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سڑک پر ہونے والے حادثات کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہREUTERS
پانچ دیگر سمگلروں سے ہم نے بات کی، انھوں نے بھی ’ٹیکسی روٹس‘ کے ہی حق میں کوڈ دیا۔ ایک نے کہا کہ وہ کسی کو فرانس سے 1000 پاؤنڈ (1228 ڈالر) میں برطانیہ لا سکتے ہیں۔
ہم نے فیس بک اور واٹس ایپ کی مالک میٹا اور ٹک ٹاک کو اپنے ثبوت پیش کیے کہ ان کے پلیٹ فارم غیر قانونی افراد کی سمگلنگ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
میٹا نے ان فیس بک گروپس اور پیجز کے تمام لنکس کو ہٹا دیا جن کے بارے میں ہم نے ادارے کو آگاہ کیا تھا، لیکن ان سے منسلک پروفائلز کو نہیں ہٹایا گیا۔ واٹس ایپ گروپس کے خاتمے کے لیے بھی کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی، کیونکہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن (میسج کے نا پڑھے جانے کی پالیسی یا سکیورٹی) کی پالیسی پرائیویسی ان چیٹس یا گپ شب کو محفوظ بناتی ہے۔
ٹک ٹاک نے ان اکاؤنٹس کے لنکس ہٹا دیے جن کے بارے میں ہم نے انھیں خبردار کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ کمپنی ایسے مواد کے لیے زیرو ٹالرنس رکھتی ہے جو انسانی سمگلنگ کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور ان کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والے اکاؤنٹس اور مواد کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
سعید کا کہنا ہے کہ انھیں لیبیا میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
’موت کا سفر‘
سعید نے تقریبا ایک سال قبل اپنے علاقے میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کی کمی اور کشمیر کی سرحد پر جھڑپوں کی وجہ سے نہ صرف اپنا آبائی گھر بلکہ اپنا قصبہ اور علاقہ بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ لائن آف کنٹرول کے بہت قریب رہتے تھے، جو متنازع علاقے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان اصل سرحد ہے، لیکن وہ 10 ماہ سے اٹلی میں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں یورپ آنے کے لیے، ٹک ٹاک پر موجود ویڈیوز اور اس سفر کے بعد چند ماہ قبل پاکستان چھوڑنے والے ایک دوست کے سفر نے متاثر کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے سنا ہے کہ یہاں آنا بہت آسان ہے اور اس میں تقریبا 15 سے 20 دن لگیں گے۔ لیکن یہ سب ایک جھوٹ تھا۔ اس میں مجھے سات مہینے سے زیادہ کا وقت لگا۔‘
حافظ سعید اٹلی میں اپنی سیاسی پناہ کی درخواست کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’اب انھیں اس غیر قانونی راستے کو اختیار کرنے پر افسوس ہے‘ اور وہ اسے سفر کو ’موت کا سفر‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ باقاعدگی سے اٹلی میں اپنی نئی زندگی کی ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کرتے ہیں۔
کچھ کلپس میں ان کے پاکستان سے آنے کے راستے کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جن میں زیادہ تر میں ایک پرجوش نوجوان اپنی منزل کی جانب سفر کرتا دکھایا گیا ہے۔ یہ بظاہر پرجوش نظر آنے والی ویڈیوز ایک ٹک ٹاک ٹرینڈ کا حصہ ہیں کہ جن میں ان جیسے بہت سے پاکستانی نوجوان، جو اسی راستے اور سفر کو اختیار کر کے یورپ پہنچتے ہیں، وہ اس ٹرینڈ کا حصہ ہیں۔
’پاکستان سے لیبیا‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو ان کے دوست نے بنائی، جس میں وہ اپنے سفر کے بارے میں اپنی یادوں کو مختلف انداز میں شیئر کرتے ہیں۔ کبھی انھوں نے سیلفی سٹائل میں ویڈیو ریکارڈ کی اور کبھی ایک مُسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے سفر کے تجربات کو یادگار بنایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی ویڈیوز ’فن کی ایک ایسی قسم‘ ہے جو معاشرے کے درست انداز میں عکاسی تو نہیں کرتیں مگر کچھ نا کہتے ہوئے بھی بہت سے اشاروں سے بہت کچھ کہ جاتی ہیں۔‘
دہ ہفتوں کے وقفے کے بعد اس ساری کہانی کی تفصیلات جاننے کے لیے کام کرنے والے بی بی سی کے صحافی نے سمگلر سے رابطہ کیا اور اس بار اس راز سے پردہ اُٹھا دیا کہ وہ بی بی سی سے منسلک ایک صحافی ہیں۔
ہم نے جب اعظم کو ان کے کام اور اس سے منسلک اُن غیر قانونی راستوں کے خطرات اور سنگینی کی بارے میں چیلنج کرتے ہوئے آگاہ کیا جن کی وہ تشہیر کر رہے ہیں، تو انھوں نے جواب نہیں دیا اور فون کاٹ دیا۔
Comments are closed.